این ایچ ایم کااحتجاج اورحکومتی خاموشی

0
0

نیشنل ہیلتھ مِشن ملازمین اپنی مستقلی کیلئے اِن دِنوں سڑکوں پرہیں، جموں میں کڑاکے کی ٹھنڈہویا کشمیرمیں برسی برف کے ستم ہوں، یالداخ میں ہڈیاں جمادینے والی سردی کی لہرہو، تینوں خطوں میں این ایچ ایم ملازمین اپنی نمائندہ اکائیوں کے بینرتلے سراپااحتجاج ہیں،مظاہرین کاکہناہے کہ ان کے پاس اپنے اہل وعیال کی کفالت کیلئے ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں ہے،انہیں حقیرسے اُجرت ملتی ہے جوکئی کئی ماہ تک نہیں ملتی!ہزاروں ملازمین اپنی دیرینہ مانگوں کومنوانے کیلئے سراپااحتجاج ہیں،گذشتہ برس کے34روزہ احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں ودھرنوں کے بعد تک سرکارنے ان کیساتھ تحریری طورپر یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی مانگیں پور ی کی جائیں گی لیکن پھر آج تک یہ تحریری یقین دہانی عملی جامہ پہننے سے قاصرہے۔ان کاکہناہے کہ وہ گذشتہ12برسوں سے این ایچ ایم میں اپنی خدمات دے رہے ہیں لیکن انہیں مستقل نہیں کیاجارہاہے،این ایچ ایم ملازمین کی بنیادی مانگ مستقلی کی ہے،جبکہ حکومت نے2017میں ان کیساتھ وعدہ کیاتھاکہ ان کے مسائل کاازالہ کیاجائیگا،ریاست جموں وکشمیرکے تباہ حال طبی ڈھانچے کوبہتربنانے کے اقدامات اُٹھائے جانے چاہئے لیکن حکومت موجودہ نظام کو اورزیادہ تباہ حال کرنے میں آمادہ ہے، دوردرازعلاقوں میں طبی خدمات نایاب ہیں، طبی عملہ غائب رہتاہے، مریض دربدرکی ٹھوکریں کھانے پرمجبوررہتے ہیں، ایسے میں ڈاکٹروں کی خالی اسامیوں کوپرکرنے، نیم طبی عملے کی تعیناتی یقینی بنانے کی کوشش کی جانی چاہئے لیکن جومحدود عملہ ہوتاہے وہ حکومتی غفلت شعاری کی وجہ سے ہڑتالی راہ پرگامزن رہتے ہیں اور نظام پوری طرح مفلوج ہوکررہ جاتاہے۔حکومت کوچاہئے کہ ملازمین چاہئے کسی بھی زمرے کے ہوں، کسی بھی محکمے کے ہوں،انہیں ایسے مسائل سے دوچارنہ کیاجائے جن کی وجہ سے وہ ہڑتال پہ مجبورہوں، ان کی ہڑتال سے عام لوگوں کوبھی مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے۔گورنرستیہ پال ملک کوچاہئے کہ وہ ریاست بھرمیں جاری این ایچ ایم ملازمین کی ہڑتال کاسنجیدہ نوٹس لیں اور ان کی جائز مانگوں پرلب کشائی ہی نہیں بلکہ ٹھوس وعملی اقدامات اُٹھائیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا