*علی شیداّ*
(نجدہ ون) نپورہ اسلام آباد کشمیر
پرانے لوگ ہم ہیں جب دعائیں مانگ لیتے ہیں
خدا سے کچھ نہیں بس اپنی مائیں مانگ لیتے ہیں
گماں تک بھی نہ تھا ایسی تمازت دھوپ لے آئے
مسافت کے جنوں زادے گھٹائیں مانگ لیتے ہیں
اب ان بکھرے ہوئے بالوں پہ چاندی بھی اُترآئی
محبت کے کٹہرے میں وفائیں مانگ لیتے ہیں
دریدہ دل کا دامن ہے پساریں کیا سمیٹیں کیا
سُلگتے ہونٹ نم دیدہ عطائیں مانگ لیتے ہیں
فضاؤں کے بدلنے کا ہے جب بھی وقت آجاتا
تو موسم کاشمر سے ہی ادائیں مانگ لیتے ہیں
سماعت چھین لی ہے آندھیوں کے شور نے ہم سے
چلو خاموش لمحوں سے صدائیں مانگ لیتے ہیں
یہ بستی ہے عجب شیداّ یہاں عریان لوگوں سے
ردائیں مانگ لیتے ہیں قبائیں مانگ لیتے ہیں