لکھیم پور سانحہ : سپریم کورٹ نے پھر لگائی اترپردیش حکومت کو پھٹکار

0
0

یواین آئی

نئی دہلی؍؍ملک کی عدالت عظمیٰ نے لکھیم پور کھیری قتل عام معاملہ میں پیر کو ایک بار پھر اتر پردیش حکومت کو پھٹکار لگائی اور کہا کہ وہ اب تک کی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہے اور وہ چارج شیٹ داخل ہونے تک ہائی کورٹ کے رٹائرڈ جج کی نگرانی میں انکوائری کروانا چاہتی ہے۔چیف جسٹس این وی رمن ، جسٹس سوریہ کانت اور ہیما کوہلی کی ڈویڑن بنچ نے پی آئی ایل کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کی ایس آئی ٹی جانچ کو ’ڈھیلا ڈھالا‘ قرار دیا اور کہا کہ پہلی نظر سے ایسا لگتا ہے کہ ملزمین کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔عدالت عظمیٰ نے سماعت کے دوران کئی سوالات اٹھائے اور کہا کہ اتر پردیش حکومت کی طرف سے جانچ توقع کے مطابق نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے پیش کی گئی پیش رفت رپورٹ میں گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کی معلومات کے علاوہ اس معاملے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بنچ نے پوچھا کہ کلیدی ملزم آشیش کے علاوہ دیگر ملزمین کے موبائل فون کیوں ضبط نہیں کئے گئے۔ انہوں نے دیگر ملزمان کے موبائل فون ضبط نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔اس معاملے کی سماعت 26 اکتوبر کو چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ نے کی۔ اس دوران بنچ نے اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو معاملے کی جانچ میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے پر سرزنش کی۔ گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت تیزی سے بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دیا تھا۔سماعت کے دوران بنچ نے اس واقعہ کو ’’گھناؤنا قتل‘‘ قرار دیا تھا اور حکومت کو معاملے کی سنجیدگی سے تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔پچھلی سماعت کے دوران حکومت نے بنچ کو بتایا کہ تحقیقات میں کوئی لاپرواہی نہیں کی جا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت 68 میں سے 30 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے گواہوں کی کم تعداد بتاتے ہوئے سخت مشاہدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں پیش آنے والے واقعے میں صرف 68 گواہ ہیں سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا، جسے دو وکلاء کے خطوط کی بنیاد پر مفاد عامہ کی عرضی میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ وکلاء نے اس معاملے کی عدالتی جانچ اور سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ کسانوں کی کئی تنظیمیں مرکزی حکومت کے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کر رہی ہیں۔ یونائیٹڈ کسان مورچہ کے بینر تلے 40 سے زیادہ کسان تنظیمیں دارالحکومت دہلی کی سرحدوں اور ملک کے دیگر حصوں میں مسلسل احتجاج کر رہی ہیں۔کسانوں کی تنظیمیں مرکزی حکومت کی طرف سے تین زرعی قوانین لے کر آئیں- کسانوں کی پیداوار تجارت (کامرس پروموشن اینڈ فیسیلیٹیشن) ایکٹ-2020، کسان (امپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن) قیمت کی یقین دہانی اور ایگری کلچرل سروسز ایکٹ-2020 اور ضروری اشیاء (ترمیم) ایکٹ۔ 2020 کی مخالفت کر رہے ہیں۔ کسانوں کے احتجاج کے پیش نظر سپریم کورٹ نے جنوری میں ان قوانین کے نفاذ پر روک لگا دی تھی۔گزشتہ سماعت کے دوران بنچ نے واقعہ کو ‘گھناؤنا قتل’ قرار دیا تھا اور حکومت کو معاملے کی سنجیدگی سے تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔گزشتہ سماعت کے دوران حکومت نے بنچ کو بتایا کہ تحقیقات میں کوئی لاپرواہی نہیں کی جا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت 68 میں سے 30 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے گواہوں کی تعداد کم بتاتے ہوئے سخت تبصرے کئے تھے اور کہا تھا کہ سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں جو واقعہ ہوا اس میں صرف 68 گواہ تھے۔سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا، جسے دو وکلاء کی اپیل کو پی آئی ایل میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ وکلاء نے اس معاملے کی عدالتی جانچ اور سی بی آئی سے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ کسانوں کی کئی تنظیمیں مرکزی حکومت کے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کر رہی ہیں۔ سنیکت کسان مورچہ کے بینر تلے 40 سے زائد کسان تنظیمیں دارالحکومت دہلی کی سرحدوں کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں مسلسل احتجاج کر رہی ہیں۔کسانوں کی تنظیمیں مرکزی حکومت کی طرف سے تین زرعی قوانین – زرعی پیداوارتجارت (کامرس پروموشن اینڈ فیسیلیٹیشن) ایکٹ-2020، کسان (امپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن) قیمت کی یقین دہانی اور ایگری کلچرل سروسز ایکٹ-2020 اور ضروری اشیاء (ترمیم) ایکٹ۔ 2020 کی مخالفت کر رہے ہیں۔جنوری میں سپریم کورٹ نے کسانوں کے احتجاج کے پیش نظر ان قوانین کے نفاذ پر روک لگا دی تھی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا