’’نئے لکھنے والے اپنے آپ کو بانٹیں نہیں بلکہ ایک ہی صنف پر توجہ دیں‘‘۔ محمود شکیل

0
0

محمود شکیل کی صدارت میں محفل افسانہ کا شاندار انعقاد
’’اس طرح کی ادبی سرگرمیاں اورنگ آباد کے لئے نشاط ثانیہ ہے‘‘۔ نورالحسنین(صاحب جشن)

اورنگ آباد(دکن)۔اردو کا دبستان کہلایا جانے والا اورنگ آباد جسے ولی اور سراج نے عروج کی معراج عطا کی۔ بشر نواز اور قمر اقبال کی سرزمیں جو آج بھی اپنی ادبی روایتوں، آداب و تہذیب کی پروردہ ہے اور ترویج ارد واور آبیاری ادب کا سلسلہ وارثان حرف و قلم نے تندہی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔وارثان حرف و قلم اورنگ آباد کی وہ ادبی فورم ہے جس نے عالمی سطح پر اردو کے شیدائیوں کو جوڑا ہوا ہے۔ اس کے تحت محترم جناب خالد سیف الدین صاحب زمینی سطح پر ادبی نشستیں منعقد کرتے رہتے ہیں تاکہ شہر اورنگ آباد میں نسل نومیں اردو ادب کا ذوق و شوق پیدا ہو ساتھ ہی ان میں شعری شغف اور نثری اہتمام پیدا ہوسکے۔ جس کا ایک سلسلہ جشن نورالحسنین ہے اسی کے تحت وارثان حرف و قلم اور بزم تلامیذِ ادب، اورنگ آباد(دکن) سید اطہر احمد اور خواجہ کوثر حیات کی وہ کاوش ہے جو ادب کی ادنی طالب علم کی حیثیت سے وارثان حرف و قلم سے نمو پار ہی ہے کے اشتراک سے آج بتاریخ 10؍اکتوبر 2021ئ، بروز اتوار، بوقت دوپہر 2؍تا 5؍بجے، بمقام بیت الیتیم، شاہی مسجد، قلعہ ارک، اورنگ آباد کا شاندار انعقاد عمل میں آیا۔اس پروگرام کے کنویئنر جناب سلیم احمد (سیئنر صحافی و ادیب)تھے۔اس نشست میں بحیثیت مہمانان خصوصی ہند و پاک کے مشہور ناول و افسانہ نگار نورالحسنین، ڈاکٹر عظیم راہی، سینئر صحافی و ادیب ابو بکر رہبر، ندیم احمد خان فردوسی اور ڈاکٹر رضوانہ شمیم موجود تھیں۔پروگرام کا آغاز جناب خان یاسر کی تلاوت قرأن سے ہوا۔ تلاوت قرأن کے بعد مہمانان اور افسانہ نگاران کے استقبال کاسلسلہ شروع ہوا جس میں سیداطہر احمد،خواجہ کوثر حیات،ڈاکٹر محمد شرف الدین، فردوس رمضانی، انصاری فریسہ،،خان یاسر، رازق حسین نے مہمانان اور افسانہ نگاران کا استقبال ڈائری و گلاب کا پھول دے کر کیا۔
افتتاحی کلمات میں جناب ابوبکر رہبر نے سیر حأصل معلومات فراہم کرتے ہوئے صنف افسانہ کے متعلق کہا’’اورنگ آباد میں افسانے کی روایت ، اورنگ آباد میں افسانے کے 3 مثلث (۱) رفعت نواز، الیاس فرحت اور محمود شکیل (۲) اثر فاروقی، سریندر کمار مہرہ اور رشید انور (۳) نورالحسنین، عارف خورشیداور ڈاکٹر عظیم راہی کا ذکر کیا ۔ساتھ ہی نورالحسنین کا افسانے اور ناول نگاری میں کام ان کی تنقیدی بصیرت جس نے اورنگ آباد کی شناخت نثر میں کروائی اس بات کا فخر سے اظہار کیا ۔ جشن نورالحسنین کے سلسلہ میں ابھی تک وارثان حرف و قلم کی جانب سے مختلف ادبی انجمنوں کے ساتھ مل کر 39 پروگراموں کے انعقاد کا ذکر کیا ۔ ساتھ ہی نورالحسنین پر ملک کے معروف ادیبوں اور اہل قلم کے مضامین پر مشتمل مجلہ کی اشاعت کا ذکر کیا ۔ اور یہ بھی وضاحت کی کہ نورالحسنین کا یہ جشن پچھلے دو سال سے منایا جارہا ہے ۔ جس میں محفل افسانہ بھی اسی جشن کی ایک کڑی ہے ۔‘‘
خواجہ کوثر حیات نے اپنے منفرد انداز میں نظامت انجام دیںاورنظامت میں افسانہ نگاری کے رموز و نکات کو بہترین انداز میں واضح کیا۔
٭ پروگرام کی نشست اول میں نئے افسانوں نگاروں کو افسانہ خوانی کا موقع دیا گیا۔ جس میں ڈاکٹر نصرت اللہ خان جو کہ پیشہ طب سے وابستہ ہے اور علمی ذوق آپ کو کبھی مشاعروں اور کبھی افسانوی نشست میں لاکھڑا کرتا ہے۔ ان کے والد سبغت اللہ بھی نامور افسانہ نگار تھے۔ انہیں افسانہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ڈاکٹر نصرت نے افسانہ ’’کفارہ‘’پیش کیا جس کاموضوع باپ کے گناہ کا کفارہ اس کی بیٹی ادا کرتی ہے۔یہ افسانہ عبرتناک کہانی کا احاطہ کرتا ہے جس میں ایسے عیاش اور بدکردار لوگوں کے لئے جو اپنی عیاشی میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔لیکن قدرت کا نظام ہے کہ ہر گناہ کا کفارہ دنیا میں ہی ادا کرناہوتا ہے۔
٭ اس کے بعد افسانہ خوانی کے لئے جناب سہیم الدین صدیقی کو مدعوکیا گیا جو کہ پیشہ تدریس سے وابستہ ہے۔ ایم فیل کرچکے ہیں اور ان کی دو کتابیں زیر طبع ہیں۔ انہوں نے افسانہ ’’پلائن‘‘پیش کیا۔ اس افسانے میں کرونا وبا کے پھیلنے سے جو لاک ڈاؤن لگا اس میں بیرونی ریاست کے مزدوروں پر جو بیتی اسے بتایا گیا کہ کس طرح ایک مزدور اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ اپنے گاؤں روانہ ہوتے ہیں اور انہیں کس طرح کے اذیت ناک مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور آخر میں اس کی بیوی بھوک کی وجہ سے چل بستی ہے۔درد اور اذیت کی عکاسی کرتا یہ افسانہ اچھی کوشش تھی۔
٭ احمد اورنگ آبادی کو افسانہ خوانی کے لئے مدعو کیا گیا۔ احمد اورنگ آبادی ادبی فضاء میں تعارف کے محتاج نہیں۔ احمد اورنگ آبادی کی قلم نے لفظوں کو خوب سے خوب تر شعر کے قالب میں ڈھالا ہے محفل افسانہ میں انہوں نے نثر میں اپنے جوہر دکھاتے ہوئے افسانہ پیش کیا۔ ان کے افسانے کا موضوع بھیک مانگتے ہوئے بچوں کو اس کام سے نکال کر اچھی زندگی دینے کی کوشش ہے۔ افسانہ کے ہیرو کو اغوا کرکے اسے بھیک مانگنے پر مجبور کیاجاتا ہے لیکن بھیک مانگنا اسے پسند نہیں ہے اور وہ اس ماحول سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے اور ناکام ہوجاتا ہے۔کچھ وقت کے بعد وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس کی پرورش ایک انسپکٹر کرتا ہے اور اسے بھی انسپکٹر بناتا ہے۔ یہی قرض ہوتا ہے جسے وہ اتارنے کے لئے بے چین رہتا ہے اور موقع ملنے پر ایک بچے کو بھیک مانگنے کے دھندے سے نکال کر اچھی زندگی دیتا ہے۔ اس طرح اس کا قرض ادا ہوتا ہے۔ احمد اورنگ آبادی کا افسانہ جدیدیت کے قریب تھا۔ ان کیافسانہ میں بکھرتا معاشرہ، زندگی کی صعوبتیں، غیر یقینی مستقبل کا اثر افسانے میں نمایاں نظر آیا۔
٭ خواتین میں سے صباء تحسین کو مدعو کیا گیا افسانہ خوانی کے لئے۔ صباء تحسین پیشہ سے معلمہ ہیں۔ اردو ادب سے شغف ہے اورافسانہ نگاری میں کوشش کررہی ہیں۔ انہوں نے افسانہ ’’تلخ حقیقت‘‘ پیش کیا جس کا تھیم ہے کہ کس طرح ایک باپ کو اس کی اولاد جیتے جی زندگی کی ہر خوشی اور ہر ضرورت سے محروم رکھتی ہے لیکن اس کے مرنے کے بعد دنیا دکھاوئے کے لئے اس کی موت پر تمام رسومات دھوم سے ادا کرتی ہے تاکہ سماج میں ان کی بدنامی نہ ہو۔یہ افسانہ انسانی اعمال کی تلخ حقیقت ہے جو ہمارے سماج کا مکروہ چہرہ ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

٭ اگلا افسانہ خوانی کے لئے ڈاکٹر صائم الدین صدیقی کو مدعو کیا گیا۔آپ سرسید کالج میں بحیثیت لیکچرار اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اب تک آپ کی 4؍کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔نثر کے میدان میں افسانہ نگاری میں طبع آزمائی کرتے ہے۔ان کا افسانہ ’’انتظار‘‘ جس میں انہوں نے زمانے کی زبو حالی ، لوگوں کی بے حسی ، معاشرے کا ڈر ، سرکاری اداروں کا خوف اور رشتوں کے تقدس کی پامالی ‘ انسان اور انسانیت کی بے حرمتی کو افسانے کے ذریعہ پیش کیا ۔
٭ پروگرام کے کنویئنرسلیم احمد نے افسانہ ’’ماسک‘‘ پیش کیا۔اس افسانہ میں انہوں نے بڑی دیانتداری سے عام انسان کو کوروناکے خوف کے زیر اثر اور دوران کورونا علاج کی کیفیت ڈاکٹرس کا طریقہ کار اور مریض کی کیفیت کو اپنے افسانہ میں لچسپ انداز میں پیش کیا اور سامعین کی داد حاصل کی۔
اس درمیان ممبئی سے تشریف لائے ڈاکٹر سیفی پلمبرجو کہ Gastroentrologistہے۔سیفی ہاسپٹل میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ان کا تعارف واستقبال خالد سیف الدین صاحب نے کیا۔واضح ہو کہ ڈاکٹر سیفی پلمبر اپنے شعبہ کے ماہر اور ایماندار ڈاکٹر ہے۔ان کی طبی میدان میں گراں نقد خدمات کے عوض انہیں وارثان حرف و قلم کی جانب سے تہنیت پیش کی گئی۔
٭ اس پروگرام کی نشست دوم میں ڈاکٹر رضوانہ شمیم کو افسانہ خوانی کے لئے مدعو کیا گیا۔ڈاکٹر رضوانہ شمیم صاحبہ مولانا آزاد کالج میں بطور لیکچرر29؍سا ل سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ آپ نے سماجی، معاشرتی اور اخلاقی غرض کئی موضوعات پر مضامین تحریر کئے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہیں۔ انہوں ’’بلا عنوان‘‘ افسانہ سنایا۔جس کی کہانی ایک لڑکی اور گلاب کے پھول کے گرد گھومتی ہے۔ اس افسانہ میں گفتگو کے ذریعہ لڑکی کی زندگی میں رونما ہونے والے نشیب و فراز کی خوبصورت عکاسی کی گئی۔
٭ بیشک پہلے افسانہ معاشرے کا احاطہ کئے ہوئے تھا۔ جدیدیت نے کہیں نہ کہیں قدیم افسانے میں موجود استعمال کی جانے والی صحت مند روایات کو ختم کردیا ہے۔ مگر آج بھی ان روایات کو محلوظ رکھ کر افسانہ لکھا جارہا ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ خواجہ کوثر حیات نے افسانہ و افسانچہ نگار ڈاکٹر عظیم راہی صاحب کو افسانہ خوانی کے لئے مدعو کیا۔ ڈاکٹر عظیم راہی کی ادبی خدمات چار دہائیوں پر محیط ہے۔ آپ نے افسانوں، افسانچوں پر کام کیاہے۔ ساتھ ہی افسانچہ پر پہلی تنقیدی کتاب ’’اردو میں افسانچوں کی روایت‘‘ یہ آپ کا وہ بڑا کام ہے جس پر جناب نورالحسنین صاحب نے آپ کو ’’بابائے افسانچہ‘‘ کا خطاب دیا۔آپ نے افسانہ ’’صدی کے موڑ پر‘‘ سامعین کے گوش گزار کیا۔ڈاکٹر عظیم راہی نے اپنے افسانے کے ذریعے نئی تکنالوجی کا بے جا استعمال اور معاشرے پر اثر انداز ہونے والی تبدیلیاں اورسماج میں پامال ہوتی قدروں کو افسانے میں پیش کیا ۔
افسانہ نگاری اردو ادب کی ایک معتبر صنف ہے۔ قدیم افسانہ جو کہ وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے کبھی انشائیہ بن جاتا ہے اور زور پکڑ کر کبھی معمہ جو کہ قارئین کے لئے بھی معمہ ثابت ہوتا ہے۔ ان لفظوں کے ساتھ خالص افسانے کا لطف لینے کے لئے لائق توقیر جناب نورالحسنین صاحب کو مدعو کیاگیا۔ساتھ ہی خواجہ کوثر حیات نے نورالحسنین صاحب پر انکی تحریر کردہ نظم ’’وہ شخصیت ہے اسے دائرہ کیا سمیٹے‘‘ پیش کی۔

ادب کی سر زمین پر
تابندہ ایک مینار ہے
روایت کا وہ امین ہے
جدت کا علم بردار ہے
اس موقع پر نورالحسنین صاحب نے افسانہ’’2350‘‘پیش کیا جو کہ شامل نصاب بھی ہے۔ اس افسانہ میں نورالحسنین صاحب نے بڑھتے ہوے نسلی تفاوت کو پیش کیااور نئی ٹکنالوجی اور نئے طرز زندگی میں دم توڑچکی روایات ‘ تہذیب اور صحت مند اقدار و نفع بخش طریقہ کار کو ترک کرنے کا المیہ اور اس کے نقصانات اور ان کی اہمیت کو واضح کیا۔ یہ ایک فکر انگیز افسانہ ہے جو اگل صدی کے متعلق سوچ کے دائرے وسیع کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
اختتام پر حسب روایت و دستور جناب محمود شکیل صاحب نے اپنا خطبہ صدارت پیش کیا۔ برصغیر کے معروف افسانہ نگارمحمود شکیل صاحب کا شمار ادب اورنگ آباد کے باقیات الصالحات میں ہوتا ہے۔ محمود شکیل صاحب ان افسانہ نگاروں میں سے ہیں جن پر افسانے کو فخر ہے کہ یہ اس کے لکھنے والوں میں سے ہیں۔ منشی پریم چند کے بعد اردو افسانے کوگاوں کے ماحول میں جس افسانہ نگار نے برتا و ہ رفعت نواز ہے اور گاؤں اورشہری ماحول میں بلا تفریق برتنے والی شخصیت محمو د شکیل ہے۔ الیاس فرحت منٹو کی راہ سلوک کے سالک ہیں۔ محمود شکیل صاحب کا ذکر ان دونوں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتاتھا۔اورنگ آباد میں پھولنے پھلنے والی افسانے کی روایت کے یہ تین ستون ہیں۔ ان تینوں پر نہ ترقی پسند ی اثر انداز ہوئی اور نہ جدیدیت ان کے افسانوں کو گمراہ کرسکی۔ یہ اپنی بیانیہ کہانی پر ثابت قدمی سے جمے رہے۔’’اوراق‘‘ کے صفحات سے ان کا نام اس طرح جڑا رہا کہ جس شمارے میں ان کی کہانی نہیں ہوتی وزیر آغا سوچتے کہ اب شمارہ شائع کیاجائے یا نہ کیا جائے۔
صدارتی خطبہ میں محمود شکیل صاحب نے پیش کئے گئے تمام افسانوں پر سیر حاصل تبصرہ کیا۔ نئے قلمکاروں کی رہنمائی کرتے ہوئے کئی اہم نصیحتیں اور مشوروں سے بھی نوازا۔نئے قلمکاروں میں ذہانت کی کمی نہیں۔ نئی نسل میں اچھی تخلیقات لکھی جا رہی ہیں۔ مگر نئے قلمکاروں کو مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر ترقی پسند افسانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھیں۔ بڑے ادیبوں کی زبان اور اسلوب پر غور کریں۔ افسانہ کی زبان اور علمی زبان میں فرق ہوتا ہے۔ کہانی کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ کہانی پر آپ کو سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کہانی خود آپ کے ساتھ چلتی ہے۔ انہوں نے کہا ہر خبر کہانی نہیں بن سکتی ہے اور ہر کہانی خبر نہیں ہو سکتی ہے۔ افسانہ میں شعر کے استعمال پر محمود شکیل نے تاکید کی کہ افسانہ میں شاعری افسانہ کو مجروح کرتی ہے۔ نئے قلمکاروں کو انہوں نے زیادہ سے زیادہ ادب پڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔ قرۃ العین حیدر، واجدہ تبسم، جیلانی بانو و دیگر خاتون افسانہ نگاروں کے حوالے سے انہوں نے کہا اردو ادب میں خواتین کا بھی غیر معمولی کردار رہا ہے۔ چونکہ خواتین کو گھریلو امور کا زیادہ تجربہ ہوتا ہے، اس لئے خواتین اپنے اس تجربہ کو کہانیوں میں بہت اچھی طرح بروئے کار لا سکتی ہیں۔ ملک کی تقسیم کے موضوع پر جمیلہ ہاشمی اور محمد بشیر کے افسانوں کو شاہکار قرار دیتے ہوئے محمود شکیل نے اپنے اور اپنے ہمعصر افسانہ نگاروں کی تخلیقات اور ادبی تعلقات پر بھی موثر انداز میں روشنی ڈالی۔ڈاکٹر رضوانہ شمیم صاحبہ کے بلا عنوان افسانے کو آپ نے عنوان دیا ’’در دل کی آہٹ پر‘‘۔
سبھی افسانوں کی خوب پذیرائی کی گئی۔ تقریب کے دوران جشن نورالحسنین کے تحت منعقد کی جانے والی اگلی ادبی تقریبات کا اعلان بھی کیا گیا۔پروگرام اپنے نظام العمل سے زیادہ وقت چلا اور سامعین اورمعزز شہریان کثیر تعداد میں جلسہ کے اختتام تک بیٹھے رہے۔اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں سیداطہر احمد اور وارثان حرف و قلم کے ممبران نے انتھک کوششیں کیں اور پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔
وارثان حرف و قلم کے سرپرست و روح رواں جناب خالد سیف الدین کے اظہار تشکر پر محفل افسانہ کا اختتام ہوا۔اور حسب روایت شہر اورنگ آباد میں ادبی فضا کے خوشگوار ماحول میں اس افسانوی نشست کا اختتام عمل میں آیا۔

٭٭٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا