ایم نصراللہ نصر
کلکتہ
عبدالرحیم نشترؔ
جراحی کا عمل بھی خوب ہے ۔تکلیف کے باوجود جاں بخش ہے ۔شفاعطا کرنا اس کا کام ہے ۔خوشی سے شرسار کرنا اس کی فطرت میں شامل ہے ۔جراحی عمل کے دوران جو تکلیف اور کسک ہوتی ہے وہ بعد ازاں مسرت بخش ہوجاتی ہے۔ چہرے پر رونق لاتی ہے۔ہونٹوں پرمسکراہٹ کی کرنیں بکھیردیتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ایسا لگتا ہے کہ مدتِ حیات میں اضافہ ہو گیا ہو۔ ویسے موت برحق ہے اور اس کا وقت مقرر و متعین ہے لیکن یہ سکون و نشاط کے چند لمحے باعثِ خوشی ضرور ہوتے ہیں ۔میں نے موصوف کو جراحِ سخن اس لئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی نظموں کو تراش خراش کر پیش کیا ہے جن میں کھردرے پن کا احساس نہیں ۔روانی اور شگفتگی میں کمی نہیں ۔
عبد الرحیم نشتر نے اپنی منجھی ہوئی شاعری میں خیال و فکر کی جراحی خوب کی ہے ۔ یہ خیال درست ہے کہ شاعری میں جو کچھ کہنا تھا سب کہا جاچکا ہے ۔کچھ نئے کی تلاش بے سود ہے ۔ تضیع اوقات ہے اور خسارے کا سبب ہے مگر میں ایسا نہیں سمجھتا اس کے باوجود بھی ابھی شاعری میں بہت کچھ کہنا باقی ہے جس کی کوشش نشتر صاحب نے عمدگی کے ساتھ کی ہے۔ انہوں نے بہت سارے خیالات و موضوعات کی جراحی کر کے ان میں نئی زندگی کی رمق ڈال دی ہے ۔ جس سے ان کا سابقہ وجود بے اثر ہو گیا ہے ۔ان کی نظموں کے پلاٹ میں جدت و ندرت کے عکس نمایاں ہیں ۔ اس کا اندازہ آپ ان کی نظموں کے عنوانات سے لگا سکتے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں ۔
اسیر جنگ ،تتلی ،شعلۂ زخم ،عید جب بھی آتی ہے ، یہ کون سا دیار ہے ،وہی سوکھا ہوا موسم ، ہواؤں کا ہجوم ،خاموش یلغار ، دشتِ کربل وہی ، شہادت چاند سے روشن ہے ، جنگل ،کھلونے ، ماں کی یاد ، ہمارا المیہ ،ضرورت ،ذرا سی بد گمانی ، دوسرا آدمی ، عروس اجل ، ریٹائر منٹ،آموختہ ،پیاسا ،من چاہا عذاب ،باز گشت اور بوڑھا دسمبر وغیرہ ۔
موصوف کو نظم نگاری میں مہارت حاصل ہے ۔ مضمون کا انتخاب بھی عمدہ کرتے ہیں ، مصرعوں کی بندشوں میں وہ کمال رکھتے ہیں ۔ لفظیات پر بھی انہیں قدرت حاصل ہے ۔ طرز تحریر میں ندرت ہے اورمصرعوں کی مرصع سازی کے ہنر سے خوب واقف ہیں ۔یہ صرف دعوے نہیں ہیںدلیل بھی موجود ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں:
نیند آنکھوں میں اترتی ہی نہیں
چپ ہے آکاش
زمیں چپ ہے
ہوا ساکت ہے
چاروں اطراف سے گمبھیر
پر اسرار سکوت
یہ فضا سرد ہے اب
خوں میں مچلتی ہی نہیں
رات بے درد ہے
ٹلتی ہی نہیں !!
(رات بے درد ہے )
اس خرابے میں شور فغاں کے سوا
دوسری کوئی آواز زندہ نہیں
خندقِ درد میں ہے سکوتِ سخن
دھڑکنوں میں کوئی ساز زندہ نہیں
مہرباں کون ہے در صفِ دشمناں
زد پہ آجاؤں تو کیسے چھوٹے گی جاں
چاروں جانب حصار ہوس خیمہ زن
(شعلۂ زخم )
کدھر سے گری میرے شانوں پہ آکر
مرے کوٹ کے پھول پر جھلملائی
مرا جسم اپنے پروں سے چھوا
میرے اطراف اڑتی رہی دیر تک
جی ہوا
میں اسے ااپنے ہاتھوں میں بھر لوں
مگر وہ
مری دسترس سے پرے اڑگئی
( تتلی )
مذکورہ نظموں کو بہت معیاری تو نہیں کہہ سکتے مگر غیر معیاری کہنے سے بھی مجھے گریز ہے ۔ پہلی نظم میں شاعر نے انسان کے اس کرب و کراہ کو نظم کیا ہے جس کی شدت شب تنہائی میں کا فی بڑھ جاتی ہے ۔ جس کی یادیں دل میں خار پُر سوز بن کر ڈستی ہیں ۔ دن بھر کا تھکا ماندہ انسان شب سیاہ میں سکون کا متمنی ہو تا ہے ۔ تنہائی اسے بے چین کیے رکھتی ہے ۔ مسائل حیات کی کرچیاں اسے بخروش اور خراش کیے دیتی ہیں ۔ یہ نظم انسان کی اس خلش کو بیان کرتی ہے جو آنکھوں کو اشکبار کیے دیتی ہے ۔موصوف کی نظموں میں جدت اور ندرت کا بھی اہتمام ہے ۔
دوسری نظم میںانہیں کیفیات کو نئے انداز میں پیش کیا ہے ۔شاعر رقم طراز ہے کہ اس ہوس پرست جہاں میں خود کو محفوظ رکھنا کتنا مشکل ہے جس کو دیکھو درد و کرب کی کھائی میں سسکیاں بھر رہا ہے ۔وہ اس فکرمیں مرے جارہا ہے کہ دشمنوں کے حصار سے جان کیسے بچے گی۔اس نظم میں مسلمانوں کی اس نفسیات کو پیش کیا گیا ہے جس میں ڈر اور خوف کا مادہ بھرا ہو اہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ان کی دنیامیںخو شیوں کا نزول کبھی ہو گاہی نہیں ۔ان کی زندگی خزاں رسیدہ ہی رہے گی ۔ غموں سے جنات شاید اب ممکن نہیں ۔اس لئے کہ چاروں طرف سے دشمنانِ قوم انہیں حصار ظلم و تشدد میں لے چکے ہیں ۔
تیسری نظم تتلی میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے جس کی تکمیل کے لئے بچے اور جوان تتلی کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں ۔ امیدوںکی تتلی شاعر کے کوٹ کے پھول پر آکر بیٹھتی ہے لیکن اس کا احساس ہوتے ہی کہ یہ انسان کا کوٹ ہے فوراً اڑ جاتی ہے ۔پتہ نہیں تتلیوں کو انسانوں سے اس قدر خوف کیو ںہے ۔
نظم وہ صنف سخن ہے جس کی پاسداری کرتے ہوئے کسی اک خاص عنوان یا موضوع کو حصار تخلیق میں لایا جاتا ہے ۔ جس کے اشعار میں ربط و تسلسل قائم رکھنے کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ کھردرے پن سے گریز کیا جاتا ہے ۔ سلاست بھی لازمی ہے ۔موضوع پر قائم رہنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے ۔ اس کے اشعار ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔ عبدالرحیم نشتر کی نظموں کے مطالعے سے اس کا اندازہ ہو تا ہے کہ موصوف نے اس کا لحاظ رکھا ہے ۔ نظم نگاری کے اصول کا پاس رکھا ہے ۔ نئے موضوعات کی تلاش بھی خوب کی ہے ۔ مصرعے بھی متاثر کن گڑھے ہیں ۔ تراکیب و استعار ے کو بھی زیر تحریر لایا ہے ۔ چند نظمیں اور دیکھیں :
بکھر رہا ہوں میں
سگریٹ کے دھویں کی طرح
ہوا کے دوش پہ
میرے وجود کا لہرا
نجانے
کس کے تجسس میں اڑتاپھرتا ہے
وہ کون ہے
وہ کہاں ہے
جو میری ہستی میں
پکارتا ہے مجھے
اور نظر نہیں آتا !
(دوسرا آدمی )
شاخ سے اک ایک پتہ ٹوٹتا ہے
باغ سے اک ایک پنچھی چھوٹتا ہے
تیز ہیں ٹھنڈی ہوائیں
سنسناتی ہیں بدن میں
منجمد رگوں میں
زندگی خاموش ہو تی جارہی ہے
ہر خوشی روپوش ہوتی جارہی ہے
کنج تنہائی میں کہرا اوڑھ کے
بیٹھی ہوئی صبحِ زمستاں
دور تک پھیلا ہوا
ٹھٹھرا ہوا سا آسماں
پو چھتے ہیں
اور کب تک دھوپ کا رستہ تکوگے
شاخ سے اک ایک پتہ ٹوٹتا ہے
سوکھے پتوں کی یہی تقدیر ہے !!
( ریٹائر منٹ )
اس نظم میں شاعر نے ملازمت سے سبکدوشی کے آتے لمحات کا احساس بڑے سلیقے سے دلا یا ہے ۔ فلسفیانہ رنگ میں اس احساس کے کرب کو لباس سخن میں ڈھال دیا ہے ۔ اشاروں اشاروں میں ساری باتیں کہہ دی ہیں۔یہ کرب وہی محسوس کر سکتے ہیں جو ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں یا عنقریب ہو نے والے ہیں ۔ اس نظم کے لئے شاعر کو خصوصی مبارکباد پیش کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ اس لئے کہ میں بھی وظیفہ یافتہ مدرس ہوں ۔موصوف نے اور بھی بہت اچھی اچھی اور تاثر سے بھری نظمیں کہی ہیں ۔باذوق قارئین اس کے مطالعے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ماں کی یاد ، ہمارا المیہ جھٹا سبق ذرا سی بدگمانی ،یہ چھیڑ کرتی ہوا اور عروس اجل قابل ستائش نظمیں ہیں۔
باتیں ہزار کی جاسکتی ہیں ۔مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ بیشتر نظم نگار شعرا کی طرح نشتر صاحب نے بھی قارئین سخن کو کچھ شعری تحائف پیش کرنے کی جسارت کی ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔ ان کی اس کاوش گراں مایہ کو داد و تحسین سے نوازا جانا چاہئے۔یہ گزارش نہیں بلکہ ان کا حق بنتا ہے ۔نیک خواہشات کے ساتھ ان کو بے شمار دعائیں ۔آمین۔
mmmm