خود اپنے مزاج کا شاعر : اقبال رضاؔ

0
0

 

 

 

خان حسنین عاقبؔ
پوسد، مہاراشٹر

پوسد کے شعری افق پر آزادی کے پہلے او ر آزادی کے بعد جو ستارے جگمگائے ان میں بڑی تعداد ایسے شعراء کی تھی جو باہر کہیں سے آکر پوسد میں آن بسے تھے ۔ اس کی ایک وجہ تھی پوسد میں اردو کے لیے سازگار ماحول نہ ہونا۔ بلکہ آزادی سے پہلے یہاں کسی اردو ہائی اسکول کا وجود نہیں ملتا۔ موجودہ اردوہائی اسکولوں میں سے کوئی بھی اسکول آزادی سے پہلے قائم نہیں ہوا تھا۔اسی وجہ سے جب آزادی کے بعد ہائی اسکولیں قائم ہوئیں تو مقامی آبادی میں معلمین کی تعداد نہ کے برابر تھی۔اس لیے پوسد کے باہر سے اساتذہ مدعو کئے گئے جنھوں نے پوسد شہر میں اردو کی ثانوی تعلیم کی ترویج و فروغ میں اہم کردار بنھایا۔ آزادی کے بعد پوسد میں شاعری کا جو غلغلہ بلند ہوا اس میں بڑا رول ملازمت کے سلسلے میں پوسد کو اپنا وطن ثانی بنانے والے اہلِ علم و ادب کا ہے۔ ایسے ہی اساتذہ اور شعراء میں ایک نام اقبال رضاؔ کا ہے۔
اقبال احمدابن غلام احمد کا تخلص رضاؔ تھا۔ وہ 5 ستمبر 1944 کو ناندیڑ میں پیدا ہوئے۔ 1960 میں پوسد آئے اور پھر یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔1968 میں درس و تدریس کی ملازمت میں داخل ہوئے اور بحیثیت صدر مدرس 2002 میں وظیفہ یاب ہوئے۔ 26 مئی 2005 کو پوسد ہی میں ان کی وفات ہوئی اور یہیں مدفون ہوئے۔ادبی سرگرمیوں میں انجمن اردو ادب کے جنرل سکریٹری رہے۔چونکہ رضاؔ کا تعلق ناندیڑ سے تھا جو اردو زبان و ادب کے لیے بہت پہلے ہی سازگار ماحول رکھتا تھا اس لیے ان میں ادب پسندی اورشعر گوئی کا ذوق پیدا ہونا فطری امر ہے۔
اقبال رضاؔ نے مستقل طور پر شاعری نہیں کی ورنہ وہ چھ دہائیوں پر مشتمل اپنی عمر میں ایک آدھ شعری مجموعہ تو شائع کرواہی لیتے۔ مجھے بڑی دقت سے چند چیدہ چیدہ اور کچھ بوسیدہ اوراق کے شکل میں ان کا کلام دستیاب ہوا۔ ان کے صاحبزادے نے ان چند صفحات پر مشتمل ان کا کُل سرمایہ (اصل کاغذات) میرے حوالے کردیا، وہ بھی بغیر کوئی زیراکس کاپی اپنے پاس رکھے اور بغیر مجھ سے کوئی وعدہ لیے۔ میرے لیے یہی غنیمت ہے کہ ایک شاعر کو گمنامی کے گوشے میں چلے جانے سے روکنے میں کسی حد تک کامیاب ہوپایا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میں نے کئی برسوں تک قریب سے اقبال رضاؔ کو پڑوس کی گلیوں میں چلتے پھرتے، آتے جاتے دیکھا کیونکہ ان کا گھرمیرے گھر کی پچھلی گلی میں ہی واقع تھا لیکن میری اور ان کی کبھی رسمی یا غیر رسمی ، کسی قسم کی کوئی ملاقات کبھی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ تھی رضاؔ صاحب کی کم گوئی اور کم آمیزی۔ مجھے بھی کبھی فرصت نہیں ہوئی کہ ان سے بات کروں ۔ اس وقت بھی وہ شاعر کی حیثیت سے کم اور ایک تیز مزاج اور راست گو معلم کی حیثیت سے زیادہ مشہور تھے۔ پھر یہ کہ میں نے اپنی زندگی میں انھیں کسی مشاعرے میں سنا بھی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سنا ہے میرے پوسد آنے سے قبل یہاں منعقد کل ہند مشاعرے میں انھوں نے ندا فاضلی وغیرہ جیسے شاعروں کے ساتھ جب مشاعرہ پڑھا اور سامعین نے انھیں سننے کے بجائے بیرونی شاعر کو مائیک پر بلائے جانے کا مطالبہ کیا تو انھوں نے بھرے مشاعرے میں مائیک سے ہوتنگ کرنے والوں کو چیلنج کرتے ہوئے پکارا کہ ’ میاں! ذرا مائیک پر آکر دیکھو، اچھے اچھوں پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے۔ بڑے آئے ہوٹ کرنے والے۔‘ بہرحال، وہ مزاجاً سخت تھے لیکن ان کی شاعری اچھی شاعری کے زمرے میں آتی تھی۔
اقبال رضاؔ کا یہ شعر ان کی عملی زندگی کی بہترین عکاسی کرتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی ساری زندگی ذمہ داریوں سے جھوجھتے ہوئے گزری ۔
فقر و فاقے میں بھی قائم شانِ خودداری رہی
صبر سے ، شکر و قناعت سے سدا یاری رہی
لیکن رضاؔ کے اندر جو شاعر چھپا بیٹھا تھا، وہ صرف آپ بیتی سنانے تک خود کو محدود نہیں رکھ سکتا تھا، اسے تو جگ بیتی سنانی تھی۔ اس لیے جہاں وہ اپنی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہیں وہیں خودداری اور انا پروری پر بھی بات کرتے ہیں۔تاریخ سے عبرت پانے کی تلقین کرتے ہیں۔
جنھیں خود کی نہیں پروا ذلیل و خوار ہوتے ہیں
یہی ملتا ہے ہم کو درسِ عبرت داستانوں میں
انھوں نے اپنے آس پاس ہونے والے واقعات پر گہری فکرمندی کا اظہار کرنے میں کسی تذبذب سے کام نہیں لیا۔انھیں ملک و قوم کی فکر ستاتی رہی کیونکہ انھیں رہبرانِ قوم و ملت سے شکایت رہی۔وہ کہتے ہیں۔
قوم کا سودا ہوا، ملت کی رسوائی رہی
پھر بھی باقی رہنما کی شانِ سرداری رہی
وقت کے حاکم کو وہ سمجھا کئے مشکل کشا
مصلحت اندیش لوگوں کی یہ لاچاری رہی
رضاؔ کے یہاں عورت کو احترم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور مشرقی حیا کو اس کا گہنا تصور کیا جاتا ہے۔
شرم عورت کا قیمتی زیور
حسنِ نسوانیت حجاب میں ہے
رضاؔ کا ایک عجیب و غریب شعر مجھے بہت پسند آیا۔ آپ بھی سنئے کہ شاید آپ نے اس موضوع پر اس سلاست کے ساتھ کبھی شعر نہیں سنا ہوگا۔
بعد تحقیق کے یہ راز کھلا
ایک ویرانہ ماہتاب میں ہے
کتنی سادگی سے رضاؔ نے ایک سائنسی اور جغرافیائی دریافت کے بارے میں شعر کہہ دیا کہ طبیعت عش عش کراٹھی۔
شاعری کے فن کو وہ ایک ودیعت سمجھتے ہیں اور فنکار کو اہم مقا م دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
فنکاروں کو کوزے میں دریا کو سمونا آتا ہے
دل کے درد کو شعروں کی لڑیوں میں پرونا آتا ہے
قدرت کی رنگین مزاجی بھی ان کے مشاہدے کا حصہ ہے۔
شبنم کے ننھے قطروں کو پھولوں پہ چمکنا آتا ہے
جب فصلِ بہار آجاتی ہے پھولوں کو مہکنا آتا ہے
جب سے نئے زمانے میں کھلونے پر شعر کہنے کا رواج پڑا ہے، شاعروں نے کیسے کیسے مضامین باندھے ہیں۔ رضاؔ بھی پیچھے نہیں رہے ۔
میرا بچہ ٹھنڈی سانسیں لے کر چپ رہ جاتا ہے
گلیوں میں بکنے کو جب بھی نیا کھلونا آتا ہے
رضاؔ کا یہ شعر مجھے سب سے حقیقی شعر محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسے شاعر کے دل کی آواز ہے جب وہ دن بھر اپنی مرضی سے زندگی گزارتا ہے اور جب رات میں احتساب اور تزکیۂ نفس کے حوالے سے غور و فکر کرتا ہے تو اسے اپنے کئے پر ندامت ہونے لگتی ہے۔
جیسے تیسے دن تو گزرجاتا ہے دنیا داری میں
رات کے سناٹے میں اکثر ہم کو رونا آتا ہے
رضاؔ نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ :
اک غمِ زیست دوسرا غمِ دل
یہی جینے کے دو سہارے ہیں
انھیں اپنے فکروفن کے تعلق سے جو خوش گمانی ہے وہ بھی توجہ کے لائق ہے۔
زمیں پر رہنے والوں پر ذرا تو دھیان دو لوگو
سجارکھا ہے میں نے فکر کو فن کی دوکانوں میں
لیکن فکر و فن کی دوکانوں میں رضاؔ کو یہ زعم اور یقین ہے کہ کئی فنکار بِک چکے ہیں لیکن اب تک ایسا ترازو نہیں بنا جس میں انھیں تولا جاسکے۔
بہت سے فنکار بک چکے ہیں زر و جواہر کی آرزو میں
رضاؔ ترازوئے زر میں لیکن ابھی تلک تو تُلا نہیں ہے
وفا اور خلوص کی قدر فی زمانہ کہیں نہیں ہے۔ رضاؔ بھی خلوص و وفا کے فقدان کے شاکی تھے۔ یہی بات انھوں نے اپنے اس شعر میں بھی بڑے سلیقے سے کہہ دی ہے۔
خلوص و مہرو وفا کے معنی لغت میں لکھے ہوئے ملیں گے
کہانیوں میں بھلے ہو لیکن جہاں میں مہر و وفا نہیں ہے
اقبال رضاؔ اپنے ہی مزاج کے شخص تھے۔ بہت کم لوگوں سے ان کا مزاج ملتا تھا۔ بڑے طمطراق اور کروفر والے شخص تھے۔ صوم و صلاۃ کی
پابندی کا ثبوت تو نہیں ملتا لیکن خدا پر ان کا ایمان راسخ ہونے کی گواہی ان کے اشعار بھی دیتے ہیں۔
خدا جب تک نہ چاہے آدمی سے کچھ نہیں ہوتا
مجھے معلوم ہے میری خوشی سے کچھ نہیں ہوتا
وہاں تیرا بھرم تیرا بھروسا کام آتا ہے
جہاں مجبور ہوکر آدمی سے کچھ نہیں ہوتا
رضا ؔ کے یہاں غزل کے روایتی موضوع بھی ہیں لیکن اس میں بھی ان کی انفرادیت برقرار رہتی ہے۔
حضورِ زاہد نظر سے پینا حلال ہے یا حرام کہیے
میں چشمِ ساقی سے پی کے آیا لبوں سے ساغر لگا نہیں ہے
محبوب کی بے نیازی اور تغافل اور حیلہ جوئی کی اس سے بہتر مثال کیا ہوسکتی ہے؟
جو نامہ بر نے کہا یہ جاکر ہے وقتِ آخر خدارا چلئے
وہ بولے ہنس کر ارے دیوانے ، قضا سے کوئی بچا نہیں ہے
اقبال رضاؔ کی زندگی ان کے اپنے الفاظ میں کچھ ایسی گزری جس پر ہمیں اس مضمون کا خلاصہ حاصل ہوجاتا ہے۔
زندگی کے روز و شب کچھ اس طرح گزرے مرے
ناصح سے نسبت رہی ساقی سے دلداری رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا