کالم نویس میاں محمد یوسف
مظفرآباد
برصغیر کے معروف بزرگ حضرت میاں جمال الدین ولی رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان گنھیلہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے سارا اعزاز عطا فرمائےکئی بڑے بڑے علما اور اولیا ان کے فیضان یافتہ ہیں اور بڑی بڑی ہستیوں نے ان کے مزارات پر چلے کئے جن میں حضرت احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ مولانا شاہ انور کاشمیری رحمتہ اللہ علیہ شامل ہیں لیکن آخری زمانہ ہے فتنوں کا دور ہے آپ روز دیکھتے کہ حضرات انبیا علیہم السلام کی توہین ہوتی ہے وہاں ولیوں کو کون معاف کرتا ہے گزشتہ دنوں آواز گجر فیس بُک پیج نے ایک خوبصورت سلسلہ برصغیر کے معروف ولی خاندان
حضرت میاں عبید اللہ لاروی رحمتہ اللہ علیہ کی سوانح پر قسط وار پروگرام حضرت بابا جی لاروی شروع کیا ہم سب نے اس کو یقیناً بہت بڑی کاوش سمجھا اس سلسلہ وار پروگرام کی چوتھی قسط میں محترم عبدالغنی عارف نے برصغیر کے معروف بزرگ خاندان گنھیلہ کے بارے کچھ نازیبا الفاظ میں باتیں کیں جن پر اس خاندان کے لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا تو غنی عارف صاحب نے اس پر معافی مانگنے کا وعدو کیا جس کا آڈیو ثبوت موجود ہے ہم اس انتظار میں رہے کہن غنی صاحب اس کی تردید کردیں گے اور یہ فتنہ ختم ہو جائے گا اگر انہوں نے سچ باتیں کی تھیں تو اعتراف کرنے کی ضرورت نہیں تھی اعتراف کر کے چُپ رہنے سے شکوک وشبہات میں اضافہ ہوا انہوں نے کوئی جواب نہ دیاتو کافی سوچ بچار کے بعد کچھ باتوں کا جواب دینا ضروری سمجھا غنی عارف کی اتنی اہمیت نہیں کہ انہیں جواب دیا جائے لیکن انہوں نے ہمارے خاندان اور متعلقین کے درمیان ایک ہیجان خلفشار پیدا کیا اس کو دور کرنے کے لئے جواب حاضر ہے جو روایات سینہ بسینہ ہیں اس پر سیکڑو ں کے حساب سے گواہ پیش کر سکتے ہیں اور جن کتابوں کے حوالے دیئے وہ آزاد کشمیر پاکستان کی لائبریریوں میں موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ حضرت میاں عبیداللہ لاروی کی قبر پر رحمت کی بارش کرے کہ وہ اسرار کبیری اور ملفوظات نظامیہ میں حقائق لکھ کر
مہر ثبت کر گئے ہمارے خاندان کے بڑے بزرگ بھی اس کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں لیکن
غنی عارف صاحب کی باتوں کا جواب کوئی بزرگ دے ہم اس کو اپنے بزرگوں کے شایان شان نہیں سمجھتے اس لئے سب نے مجھے یہ ذمہ داری دی میں اس پر اپنے خاندان کے سارے افراد کا شُکر گزار ہوں
انوار خضر یا دیگر کتابوں پر اعتراض کا جواب ان کے مصنفین دیں گے میں صرف چند باتوں کا جواب عرض کروں گا
میں نے گزشتہ ماہ مظفرآباد میں حضرت میاں بشیر احمد لاروی رحمتہ اللہ علیہ کا تعزیتی ریفرنس بھی کرایا ہے ہم تفریق کے قائل نہیں پہلی بات میں ں سمجھتا تھا کہ اس معاملے میں ادراہ آواز گجر روداد قوم کا کوئی کردار نہیں لیکن جب ادارے کے ذمہ داران سے بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ ادارہ اس سازش میں کسی نہ کسی صورت میں ملوث ہے کیونکہ
ہم نے یہ ان سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ آپ پیج سے ویڈیو ڈلیٹ کریں یا تردید کریں یہ ان کا فرض بنتا تھا کہ اعتراض ہونے کے بعد اس کا تدارک کرتے
جب میں نے کہاکہ اس کا جواب آپ آواز گجر پر اپلوڈ کریں تو اس کے جواب میً مختلف بہانوں کے ساتھ یہ کہا گیا کہ ہمارے ادارے کے بانی کے خاندان کی عزت کا مسئلو ہے اور فساد پیدا ہو جائے گا آپ کسی اور پلیٹ فارم سے جواب دیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس فساد کی ابتدا کر کے اب سائیڈ مارنے کی کوشش کی گئی وہ شاید خاندان گنھیلہ کو لاوارث سمجھتے ہیں اور
شاید انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ
ادارہ روداد قوم کے بانی کا دادھیال بجران لار شریف ہے اور ننھیال کھٹانہ گنھیلے وال ہے جب ادارہ کے بانی سے ہوئی تو وہ بھی حیل حجت کرتے نظر آئے تو مجھے سمجھ نہ آئی کہ یہ سارے خاندان گنھیلہ شریف کے بارے ميں توہین کے مرتکب کیوں بنے اس کے پس پردہ حقیقت کیا ہے اگر وہ اس تفریق یافساد کے قائل نہ ہوتے تو پھر ہمارا جواب بھی اپلوڈ کرتے اور اس ویڈیو کی تردید کرتے کہ ادارہ کا اس تفریق سے کوئی تعلق نہیں لیکن نہ تردید کی اور نہ ہی ہماری طرف سے جواب اپلوڈ کرنے کی حامی بھری جبکہ ادبی ادارہ تومشترکہ اور غیر جانبدار ہوتے ہیں وہ کسی گروپ کسی قوم کے نہیں ہوتے ان ساری باتوں کے ثبوت موجود ہیں
مجھے نہیں معلوم کہ عبدالغنی عارف صاحب کا لار شریف کے ساتھ کیا رشتہ ہے لیکن ایک بڑے خاندان کی شان میں گستاخی سے واضح ہوتا کہ آگ جلانے کے لئے چھوٹی لکڑیاں ہی استعمال ہوتی ہیں کردار کشی چھوٹے لوگ کرتے ہیں میں عبدالغنی عارف صاحب کو ایک بڑا آدمی پائے کا ادیب مانتا تھا منوں مگر ان کے خوبصورت الفاظ ان کی شخصیت کی عکاسی کر گئے اور ان کی تعلیم شعور بتا گئے
جد لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام پر اعتراض کیا کہ ان کا باپ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لہجے میں جواب دیا کہ سورہ العمران کی آیت کی تشریح تم عیسی کا باپ تلاش کرتے ہو پہلے اپنے باپ آدم کا باپ دکھاؤ تقابلی جواب کی ترغیب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دی کہ
بندے کی صلاحیت کے مطابق اس کو جواب دو
پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبدالغنی عارف صاحب کے پاس یہ پیمانہ کہاں سے آگیا کہ وہ جانچیں کون ولی ہے اور کون نہیں پھر سی حرفی کسی کی ولایت پرکھنے کے لئے میعار نہیں میاں قاسم صاحب کی سی حرفی کا حوالہ دے کر ان کی توہین کی
ہمارے لئے تو یہ تینوں خاندان کیاں شریف لار شریف اور گنھیلہ شریف اہم ہیں ہمیں لار شریف کیاں شریف سے کوئی گِلہ نہیں اور ہم ولی ہونے کے دعوے دار نہیں لیکن اس خاندان میں سے ہونے کے دعوے دار ہیں اس بات کی میں معذرت کرتا ہوں جو کمنٹ غلط کئے گئے یہ غلط ہے ہمارے منصب کا تقاضا بھی یہی ہے لیکن عمل کا رد عمل تو ہوتا ہے اور اپنی اور اپنے خاندان کی عزت ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے
دلیل کا جواب دلیل سے دینے کا قائل ہوں کتابوں میں تاریخ بدلنے سے شجرے نہیں بدلتے اور نہ سورج کے سامنے انگلی رکھنے سے حقائق چھپتے ہیں محترم عبدالغنی عارف ہماری کوئی کتاب نہ پڑھتے کم از کم ملفوظات نظامیہ جلد اول ہی پڑھ لیتے جس میں حضرت میاں عبیداللہ لاروی رحمتہ اللہ علیہ خود لکھتے ہیں سلسلہ قادریہ کے روحانی پیر میاں گل احمد صاحب کے صاحبزادے میاں اسحاق در طریقت سلسلہ قادریہ شامل حال تھے مگر مسکین غلام نے اول سلسلہ قدسیہ نقشبندیہ مجددیہ کے طریقت میں بیعت قبول کی ہوئی تھی مگر پھر بھی اُسی حالت میں تمام وظائف اوراد وغیرہ سلسلہ قادریہ کے بھی چند عرصہ مدت مزید گزشتہ تک آنحضرت قبلہ عالم سے حاصل کر کے طے کر لئے اور ہرقسم کی آرام و آسائش وتکلیفات برداشت کرتے ہوئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر رہنے سے بہت سے فائدے حاصل کئے اور سلسلہ قادریہ کے طریقت میں سخت دلی محبت سے اور وظائف میں چلہ کشی کرتے ہوئے بہت سخت مصیبت برداشت کرتا رہا اور سید عبدالقادر جیلانی خواب میں بشارت فرما کر میں عاجز، مسکین رو سیاہ کے حال پر بہت مہربانی سے پیش آ کر خاطر جمیعت فرماتے رہتے تھے زنانیہ حال میں گہڑا کھدوایا اور میں پانچ سال اس میں چلہ کرتا رہا اور کھانا پینا بھی ترک کیا ہوا تھا جب میں اس چلہ سے فارغ ہو کر گھر سے باہر نکلا تو بندہ نے پہلے ہی قبلہ عالم درطریقت سلسلہ قادریہ میاں محمد اسحاق کے حاضر ہو کر قدم بوسی حاصل کی
ایک اور جگہ لکھتے ہیں فصل پنجم دربیان بزرگوں کے حق میں نیک اعتقاد سے فائدہ حاصل کرنا ایک کمال بزرگ اھل اللہ صاحب کشف وکرامات کے مشہور و معروف تھے جو کہ ایک دفعہ آنحضرت صاحب موصوف قبلہ عالم محبوب سبحانی خواجہ میاں محمد اسحق صاحب قدس اللہ سرہ برائے چلہ کشی
ایک جگہ کوٹھڑی قیام پذیر رہی
مگر آپ نے لوگوں کی آمد ورفت کو بند کیا ہوا تھا جب آپ چلہ کشی سے باہر تشریف لائے تو آنحضرت کی طہارت کے لئے مٹی کا لوٹا تھا اس میں چلہ کشی کا طہارت شده پانی باقی تھا نیاز مند نے دست بستہ آپ کی خدمت میں عرض کی کہ یا حضرت آپ کی طہارت کا جو لوٹا تھا وہ مہربانی فرما کر مجھے عطا کر دیں تو عنایت ہو گی آپ نے فرمایا کہ اس میں جو پانی ہے اس کو زمین پر گرا دو کیوں کہ اس کو چلہ کشی کے آغاز سے آخر تک کسی نے دھویا نہیں ہے مسکین نے بہت ہی زاری کرتے ہوئے وہ لوٹا حاصل کر لیا اور اسے ایک طاق میں باادب رکھ دیا جب مسکین کو کوئی پریشانی ہوتی تھی تو فوراً پاک پانی
کوزہ میں سے ایک تولہ پانی ملا کر پیتا تھا تو خاطر جمعیت ہو جاتی تھی اور بطور روحانی بھی بہت فائدہ حاصل کرتا تھا جو کہ بیان عیان اوصاف حمیدہ سے باہر ہیں اس کوزہ کو پانی سمیت 24 سال سے سنبھال کر رکھا تھا پھر جب اپنے وطن اصلی سے ملک کشمیر سری نگر کو سدھارا اور رستے میں کسی قسم کی تکلیف نہ اٹھائی تو بفضل خدا بحرمت ان صاحبان کے بخیریت پرگنہ
لار وانگت نگری میں پہنچ کر قیام پذیر ہو گیا اور اس جگہ بھی بارہ برس بخانہ
خود کوزہ محفوظ رکھا ایک دن اچانک وہ کوزہ گر کر ریزہ ریزہ ہو گیا تو میں مغموم ہوا سخت چوٹ لگی اور تین دن تک کچھ نہیں کھایا پیا
یہاں بابا جی لاروی خود اعتراف کرتے ہیں میں نے گنھیلہ سے فیض حاصل کیا حضرت بابا جی لاروی کے اس خاندان کے بارے میں ادب میں انداز دیکھیں اور عبدالغنی عارف صاحب کی بازاری زبان دیکھیں تو صاف سب کچھ واضح ہو رہا ہے اگر ہم غنی عارف صاحب کو درست تسلیم کریں تو پھر ر حضرت بابا جی ملفوظات میں غلط لکھتےہیں اگر بابا جی غلط نہیں لکھتے توپھر عارف صاحب غلط کہتے ہیں حضرت نوح علیہ السلام اور کنعان کا قصہ شاید نظروں سے نہیں گزریا شاید زندگی ساری شاعری ہی میں گزارگئے اور اس کے ساتھ عارف صاحب قران مجید کی جس آیت کا حوالہ دے کر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی حق نہیں کے ہم رسولوں میں تفریق تلاش کریں اس آیت کی شان نزول کے مصداق ولی ہو ہی نہیں سکتے یہ نس قطعی کے خلاف ہے بلکہ گمراہی ہے
پہلے عبدالغنی عارف صاحب کسی عالم کے پاس جا کر دین سکھیں طریقت کا علم حاصل کریں پھر بحث کریں
جس کو ولی اور رسول میں فرق کا علم نہیں وہ ولیوں کا کیا احترام کریں گے
یہ آیت صرف رسولوں کے لئے ہے چلو اگر میں ان کی مان بھی لوں تو وہ اپنی گفتگو میں اس آیت کی نفی کرتے نظر آتےہیں تفریق بھی پیش کرتےہیں اور پر ساتھ ایک گل بات اور کہتے ہیں کہ گنھیلہ والے آج بھی کسی کو فیض کا شرف بخشیں اس جاہل کو اتنا علم نہیں کہ فیض کوئی آٹا چینی نہیں کہ ان کے گھر لا کر دیں اس کے لئے بڑی محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور جس کو طلب ہو وہی حاصل کرتا ہے ذرا اپنے بابا جی لاروی کی ملفوظات پڑھیں انہوں نے فیض حاصل کرنے کے لئے کتنی مشقت کی اور شرف لینے والے آج بھی لے لیتے ہیں لیکن جس کے ضرف کا برتن اُلٹا ہو وہ مدینہ سےبھی خالی لوٹتا ہے الغرض غنی صاحب اندھی تقلید میں اول فول مارتے ہیں یا کسی کی ایما خوشنودی کے لئے یا سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ایسی گمراہ باتیں کرتے ہیں عبدالغنی صاحب نے یہ بات ثابت کی کہ میاں عبیداللہ لاروی رح والئ سوات میاں عبدالغفور اخوند سے بیعت تھے شاید انہیں پتہ نہیں والئی سوات حضرت میاں عبدالغفور المعروف آخوند بابا حضرت میاں جمال الدین ولی حضری رحمتہ اللہ علیہ کے بھائی کی اولاد میں سے اور باجی اسحاق رحمتہ اللہ علیہ صاحب کو خواب میں اشارہ دیا کہ میاں عبیداللہ لاروی رح کو خلافت دی جائے میاں عبیداللہ لاروی رح نے گیارہ سال جبڑی شریف حضرت باجی میاں اسحاق صاحب رح کی خدمت کی اور سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے باجی صاحب رح اور مائی صاحبہ رح کے متعلق میاں عبیداللہ لاروی رح کے اشعار
ج. جاندیاں جانیاں قاصد وے میری طرف اُوت سلام کرنا
کریو یاد خدا دی دن راتیں باہجوں یاد نہ اور کج کلام کرنا
تیرے در تے نت چوکیدار ہاں میں تساں بیٹھکے خوب آرام کرنا.
مائی جی صاحبہ تسیں حوالے رب دے عبد طرف بھی
یہ اشعار گھنیلا شریف والوں نے نہیں لکھے بلکہ بابا جی عبیداللہ صاحب لاروی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ملفوظات نظامیہ میں لکھے ہیں جو کہ ملفوظات نظامیہ کی پرانی کتاب میں درج ہیں
عبدالغنی عارف صاحب
اگر تقابل کرتے ہیں تو گنھیلہ کے بے شمار قلندر گزرے ہیں ایک قبرستان میں نو مدفون ہیں اپنے متعلقین میں سے بھی کوئی دو چار دکھائیں خاندان گنھیلہ شریف انڈیا پاکستان کشمیر ہر جگہ ہے لار شریف کے مریدین پوری دنیا میں ہیں لیکن خاندان ایک ہی جگہ ہے اگر شخصی تقابل کرتے ہیں تو ہم ہر لحاظ سے جواب دینے کے حاضر ہیں
کسی صورت بھی ان دو خاندانوں کا تقابل نہیں ہو سکتا اس بات کے تناظر مانھ عبدالغنی عارف صاحب حضرت میاں جمال الدین ولی رحمتہ اللہ علیہ کی توہین کرتے ہیں پھر یہ واحد خاندان ہے جس کے معتقد سارے فرقے ہیں اور حضرت میاں نظام الدین کیانوی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے ميں بھی عبدالغنی عارف صاحب فرماتے ہیں کہ وہ گنھیلہ شریف سے بیعت نہیں اگر
ہم مان لیں کہ انوار خضر بھی غلط ہے جلوہ خضر بھی غلط ہے ہمارے لوگوں نے جو کتابیں لکھیں وہ ساری غلط ہیں لیکن ملفوظات نظامیہ تو غلط نہیں یا اس کا رد کریں یا پھر ر حقیقت مان لیں
میاں سرور خان کیانوی صاحب رح نے کوٹلی حضرت میاں باجی الف دین صاحب رح کے عرس مبارک کے موقع پر ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں یہ اعتراف کیا کہ ہم سارے کیاں والے گھنیلا شریف کے بچے بچے کے غلام اور خادم ہیں ناچیز کی حضرت میاں سرور خان کیانوی رحمہ اللہ سے ملاقات ہے اور میں نے خود ان کے مبارک منہ سے یہ بات سنی میاں لیاقت صاحب سے ملاقات رہی وہ بھی اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ ہم گنھیلہ سے فیضان یافتہ ہیں پھر اس حوالے سے سینہ بسینہ روایات اور دیگر کتب موجود ہیں چلیں بقول عارف صاحب ہمارے خاندان یا عقیدت مندوں کی کتابیں مستند نہیں ہیں دیگر کتابوں کرا حوالے پیش ہیں
کتاب تاریخ اولیائے کشمیر حصہ اول مصنف رشید شاہ فاروقی اس کتاب کے صحفہ نمبر 203 پر لکھتے ہیں حضرت میاں نظام الدین کیانوی نے لنگر جاری کرنے سے قبل اپنے والد گرامی سے فیضیاب ہونے کے بعد اس سلسلے میں اولیائے کاملین کی طرف سفر شروع کیا
تو ابتدا میں آپ گنھیلہ شریف کا سفر کیا جہاں سے آپ کو حکم ہوا کہ آپ کا حصہ ہمارے پاس نہیں ہے آپ چورا شریف تشریف لے جائیں تو آپ نے گنھیلہ شریف سے روانہ ہو کر چورا شریف پہنچے دوسری کتاب کشمیر جنت الاولیاء و مشائخ مصنف محمد ریاض عباسی صحفہ نمبر 366
پر لکھتے ہیں
حضرت میاں نظام الدین کیانوی رحمتہ اللہ علیہ اپنے والد گرامی سے فیوض وبرکات حاصل کر کے گنھیلہ شریف میں ایک ولی کامل حضرت میاں محمود ولی کی صحبت میں رہے اور ان کے ارشاد پر کشمیر کا سفر اختیار کیا اور اگر ہم مان لیں کہ حضرت میاں نظام الدین کیانوی گنھیلہ سے بیعت نہیں ہوئے تو پھر بھی شواہد موجود ہیں کہ وہ اپنا حصہ لینے گئے لینے وہ جاتا ہے جس کے پاس کم ہو یا نہ ہو حصے کی حاجت نہ ہوتی تو گنھیلہ شریف نہ جاتے اور انہوں نے بھی بتایا کہ تیرا حصہ فلاں جگہ ہے سبحان الله ولی کا کردار بولتا ہے
اگر انہیں خود نمائی کی ضرورت ہوتی تو کہتے کہ آپ کا حصہ میرے پاس ہے اور طریقت کہاہی اِسے جاتا ہے ولی راستہ بتاتے ہیں حضرت میاں نظام الدین کو راستہ گنھیلہ نے ہی دکھایا اگر اس پر میں ثبوت نہ پیش کر سکوں یا ان کتابوں میں یہ حوالے نہ ہوں تو میں ہر سزا کا مستحق ایک اور بات لقب میاں خاندان گنھیلہ شریف کو حضرت خواجہ خضر علیہ السلام نے عطا کیا اور ان کے فیضان یافتگان کو یہ لقب گنھیلہ شریف نے عطا کیا یہ دونوں آستانے گنھیلہ شریف کے فیضان یافتہ ہیں غنی عارف صاحب نے جو غلط تاریخی تقابل کیا کہ حضرت میاں جمال الدین ولی اور حضرت میاں نظام الدین کیانوی کا دورہ ایک ہے عارف صاحب کی دال پھر بھی گلتی نظر نہیں آتی ذرا اس تاریخی تقابل کا جائزہ لیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت میاں جمال ولی رح کا دور مبارک 16 ویں صدی آخر کا ہے اور میاں نظام الدین کیانوی رح کی تاریخ وفات 19ویں صدی کے قریب ہے انیسویں صدی میں میرے جد امجد حضرت بابا جی میاں محمد امین صاحب جو بالاکوٹ سے مظفرآباد گاؤں چکھڑیاں آئے
ان کا اور حضرت میاں نظام الدین کیانوی رح کا ایک دور ہے اس کے ثبوت موجود ہیں اس طرح میاں نظام الدین کیانوی کے دور میں حضرت میاں جمال ولی رح کی 7 ویں پشت چل رہی تھی حضرت میاں جمال ولی رح اور میاں نظام الدین کیانوی رح کے درمیان دو سو سال کا فرق ہے میاں نظام الدین کیانوی رح کے دادا میاں عبدالعزیز کیانوی رح حضرت میاں جمال ولی رح کے آخری پڑپوتے حضرت مولانا حافظ باجی میاں عبدالغفور صاحب رح کے ہاتھ پر سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے بحوالہ میاں شفیع محمود کیانوی سجادہ مرکزی دربار کیاں شریف میاں سلطان ملوک رح نے اپنے صاحبزادے میاں نظام الدین کیانوی رح جوکہ ابھی جوان بھی نہیں ہوئے تھے گھنیلا شریف خدمت کے بھیجا جہاں پہلے باجی میاں رحمت دین صاحب کی چار سال خدمت کی اور باجی میاں محمود صاحب رح اور مائی صاحبہ رح کی بھنیس چراتے رہے 16 سال خدمت کی اور گھنیلا شریف سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور موجودہ کیاں کا نام منگل دار تھا باجی صاحب رح نے کیاں رکھا
یہ دو خاندان اگر گنھیلہ سے فیضان یافتہ نہ ہوں تو ان کی شان میں فرق نہیں پڑتا لیکن یہ کوئی تُک نہیں بنتی کہ جس کو اپنے نسب کا پتہ نہ ہو وہ کسی بزرگ خاندان کی توہین کرے ظاہر بات ہے ولّی لوگ تو محبتوں کے بانٹے والے ہوتے ہیں یں مگر اگے چل کر ان کے کچھ عقیدت مند ہی ماحول خراب کرتے ہیں اور وہ اٹھ کر اپنے خاندان کی علمیت افضلیت کا پرچار کرنے لگ جاتے ہیں اور دوسرے کسی کو اپنے برابر نہیں جانتے یہ بات کسی صورتقابل قبول
نہیں ہوسکتی اتنا لاوارث بھی کوئی نہیں کہ اپنے خاندان کا تحفظ نہ کر سکے اور جواب نہ دے سکے کسی کی بدکلامی سے خاندان گنھیلہ کے عروج پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بولنے والوں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں آ کی اصلیت سامنے آتی ہے اور یہ سازشیں ان خاندانوں کے نسبتی تعلق کو ختم یا زائل نہیں کر سکتیں اور آپ کہاں کہاں سے حوالے مٹائیں گے بہتر ہے جے بات مان لیں محبت سے آپ اپنا کام کریں ہم اپنا کام کریں اگر نہیں بھی مانتے تو کم از کم کسی کی توہین نہ کرو حوالے بہت روایات بہت کسی عدالت میں چیلنج کریں اگر ہم یہ سب ثابت نہ کر سکیں تو جو سزا آپ تجویز کریں گے ہم قبول کر لیں گے لیکن یہ بھول جاؤ کہ تم بکواس کرو اور ہم خاموش رہیں اتنے بے حس اور بے غیرت نہیں ہیں