بآوازقلم:- محمد احسان الاسلام، پورنیہ
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
میرےہمدم،میرےہمراز،میرے غمگسار، رینو کی دھرتی، عیسیٰ فرتاب کی سرزمین، علمی وادبی شہر”ارریہ” کے بہت ہی معروف ومشہور افسانہ نگار اور الشمس ملیہ ڈگری کالج کے لکچرر جناب رفیع حیدر انجم صاحب ارریہ کی اطلاع کے مطابق ہم سب کے دیرینہ دوست افضل خان عرف ننھے خان ارریہ، گزشتہ روز پورنیہ میں اس دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کر گئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون !
افضل خان سے میری دوستی ان دنوں پروان چڑھی، جب طالب علمی کے زمانے میں میرے ارریہ آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور وہاں کے مشاعروں اور ادبی نشستوں میں شرکت ہونے لگی تھی۔ افضل خان نہ شاعر تھے اور نہ افسانہ نگار، لیکن اردو زبان کا عاشق وشیدائی، ایک ادب نوازاور سخن فہم شخصیت کے مالک تھے۔ سینٹرل بینک ارریہ شاخ کے سامنےان کی کرانے کی دوکان تھی، جہاں سامنے نیم کا ایک بڑا سا پیڑ تھا۔ دوکان پختہ نہیں تھی لہذا انہیں پہرے داری کے خیال سے اکثر دوکان میں شب گزاری کرنی پڑتی تھی۔ دوکان میں ایک چوکی ہوا کرتی تھی جس پر دن بھر اس کے قلمدان، بیڑی کے بنڈلوں اور مختلف اشیاء کا قبضہ رہا کرتا تھا۔ ارریہ میں منعقد مشاعرے اور ادبی نشستوں کے اختتام پراکثر میری شب گزاری میرے ادبی وعلمی رفیق رفیع حیدر انجم کے گھر ہی ہوا کرتی تھی، لیکن کبھی کبھار افضل خان کی کرانہ دوکان میں موجود وہ چوکی بھی میرے اور افضل صاحب مرحوم کے مشاعرہ گاہ کے اسٹیج میں تبدیل ہو جایا کرتی تھی ۔ افضل خان اور میں دونوں چوکی پر لیٹے ایک دوسرے کو کبھی اپنے پسندیدہ اشعار سنایا کرتے، ادب پر گفتگو ہوتی اور ملازمت کی مختلف ویکینسیوں کے متعلق بھی بات چیت ہوا کرتی کیونکہ ملازمت کی ضرورت تو ہم دونوں کو ہی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ مجھے گرامین بینک میں ملازمت مل گئ اور افضل خان کو بہار سرکار میں اردومترجم(اردو ٹرانسلیٹر) کی۔ میری پوسٹنگ ارریہ کے آس پاس ہو گئ اور ننھے خان کی پورنیہ جہاں اس نے مادھو پاڑا محلے میں زمین خرید کر اپنا مکان تعمیر کر لیا, شادی کرلی اور گھنی داڑھی بھی رکھ لی،پھر ادب سے زیادہ مذہب کی جانب اس کا جھکاؤ ہو گیا۔ملازمت سے سبکدوشی کے بعد جب میں مستقل طور پر پورنیہ رہنے لگا تو اکثر محلے کی مسجد کے علاوہ مسجد رضوان بھی چلا جایا کرتا تھا، جہاں ان سے اکثر وبیشترملاقات ہو جایا کرتی تھی اور ہم ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہو جایا کرتے تھے۔
میں نے اپنے ایک مختصر افسانے "المیہ” ( مطبوعہ ‘ غالب ‘ کٹیہار ) ۱۹۷۷ ء میں اس کے نام کا استعمال بھی کیا تھا جو میرے افسانوی مجموعہ ‘ پیپرویٹ ‘ میں شامل ہے، کووڈ کے دوران عائد پابندیوں کی وجہ سے مسجد رضوان جانے کا سلسلہ کم ہو گیا اور مجھے اس کی علالت کی خبر موصول نہ ہو سکی اور آج اچانک یہ اندوہناک خبر موصول ہوئی اور خبر سنتے ہی دل پزمردہ ہوگیا اور تھوڑی دیر کے لئے یوں ہی درودیوار کو تکتا رہا،پھر کل نفس ذائقۃ الموت کے تحت میرے دل نے کہا:- تھوڑا آگے تھوڑا پیچھے جانا تو سب کا طے ہے،جسکی تصویر ہندوستان کے بہت بڑے شاعر مرزا شوق لکھنوی نے یوں کھینچی ہے:-
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری
لیکن اس کے باوجود فطرت انسانی کے تحت دل کے قریب رہنے والا کوئی دوست جب داغ مفارقت دے جاتا ہے توتکلیف ہوتی ہے، خاص طور پر تب جب آپ گھر سے تیرہ سو کیلومیٹر دور ہوں اور آخری دیدار سے بھی محروم رہ جائیں اور ان کے جنازے کو کندھا بھی نہ دے سکیں تودل مغموم اور آنکھیں اشکبار تو ہوتی ہی ہیں، کیوں کہ افضل خان صاحب نیک طبیعت کے انسان تھے، تواضع و خاکساری ان کی زندگی کا اٹوٹ حصہ تھا، ذی علم و ادب نواز شخصیت کے مالک تھے، ملی مسائل پر کا فی دلچسپی رکھتے تھے۔ میرا یہ یار بہت ہی جفاکش،محنتی، مخلص، ہمدرد، مہمان نواز، کرم گستر، اور متواضع انسان تھے، جب بھی ہم لوگوں سے ملتے تھے، محبت اور خندہ پیشانی سے ملتے تھے اور کافی دیر تک اردوزبان وادب اورملی مسائل پر گفتگو ہوتی تھی،اسی لئے زبان سے یکلخت ایک جملہ نکل آیا :-
"زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے؟
بروقت بندۂ ناچیز اور مجبور وبے بس یہ احقراس ملنسار،منکسرالمزاج اخلاق وتواضع کے پجاری اورنوع انسانیت کےخدمت گار کے لئے
اللہ رب العزت سے استدعا کرتاہے کہ میرے ہمدم اور میرے جگری دوست کی تمام لغزشوں کو معاف فرمائے،ان کی تربت پر رحمتوں کی بارش برسائے،ان کی لحد کو نور سے معمور ومنور فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام سے نوازے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ! اور:-
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نور رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
—