’ہند۔طالبان مذاکرات پرکچھ بھی کہنا جلدبازی ہوگی‘

0
0

افغانستان کی زمین ہندوستان کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہو: وزارت خارجہ
یواین آئی

نئی دہلی؍؍ہندوستان نے طالبان سے واضح طور پر کہا ہے کہ اس کی ترجیح اور فوری تشویش اس بابت ہے کہ افغانستان کی زمین کا استعمال ہندوستان کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے آج یہاں سوالوں کے جواب میں کہا کہ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ کے ساتھ ہوئی بات چیت میں ہندوستانی سفیر دیپک متل نے ہندوستان کا موقف واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس پر طالبان کی جانب سے مثبت موقف کا مظاہرہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس کے ساتھ ہوئی اس بات چیت کو محض ایک میٹنگ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور ابھی اس بارے میں کچھ بھی کہنا جلدبازی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ابھی انھیں اس بات کی اطلاع نہیں ہے کہ طالبان کے ساتھ مستقبل میں کوئی اور میٹنگ بھی ہوگی۔مسٹر باغچی نے کہا کہ طالبان کی درخواست پر یہ میٹنگ دوحہ میں ہندوستانی سفارتخانے میں ہوئی اور اس دوران کلیدی طور پر افغانستان میں پھنسے ہندوستانی شہریوں کی محفوظ اور جلد واپسی پر بات چیت ہوئی۔ افغانستان کے اقلیتی عوام جو ہندوستان واپس آنا چاہتے ہیں‘ ان کے بارے میں بات چیت ہوئی۔وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے نمائندے نے سفیر کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ہندوستان کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کا مثبت حل کیا جائے گا۔مسٹر باغچی نے کہا کہ ہماری سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ افغانستان کی زمین ہندوستان کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں استعمال نہیں ہونا چاہیے۔آگے کے روڈ میپ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ دیکھتے ہیں؛ چیزیں کیسے آگے بڑھتی ہیں۔یہ پوچھے جانے پر کہ اس ملاقات کی تصویر کیوں نہیں لی گئی، ترجمان نے کہا کہ یہ اس نوعیت کی میٹنگ نہیں تھی جس میں تصویر کشی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی اور مجھے نہیں لگتا کہ دونوں فریق میں سے کسی نے اس دوران تصویر لی ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اس میٹنگ کا مطلب یہ مانا جائے کہ طالبان کو ہندوستان نے منظوری دے دی ہے‘ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی توجہ اس بات پر ہے کہ افغانستان کی زمین کا استعمال ہندوستان کے خلاف نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابھی اس مسئلے پر اپنی توجہ رکھیں گے۔ ابھی اس ملاقات کو محض ایک میٹنگ کے بطور دیکھا جانا چاہیے اور اس سے آگے کچھ بھی کہنا جلدبازی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے طالبان کو اپنی تشویش سیا حگاہ کر دیا ہے اور اس پر مثبت رد عمل ملا ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں باقی بچے ہندوستانی جن کی تعداد تقریباً 20 بتائی جا رہی ہے، افغانی سکھ اور ہندوئوں کی واپسی اس بات پر منحصر ہے کہ کابل ایئرپورٹ سے کمرشیل پرواز کتنی جلد شروع ہوتی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا