آزادی کی پچھتر ویں سالگرہ کا جشن اور چیلنج

0
0

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ملک آزادی کا "امرت مہوت سو” ہفتہ منا چکا ہے ۔ اس موقع پر مختلف پروگراموں کے ذریعہ ملک نے آزادی کے متوالوں اور ان کی قربانیوں کو یاد کیا ۔ ہر شخص اپنی سمجھ اور نظریہ کے مطابق آزادی کی کہانی کو بیان کرتا ہے ۔ کیوں کہ ہمارے بیچ اب ایسا کوئی نہیں ہے جو بتا سکے کہ کتنی محنت اور قربانی کے بعد آزادی ملی ہے ۔ ہزاروں، لاکھوں لوگ ہنستے ہنستے پھانسی کے تختے پر چڑھ گئے یا چڑھا دیئے گئے ۔ انگریزوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان 1857 میں بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں ہوا ۔ لیکن آزادی کی پہلی لڑائی 1757 میں نواب سراج الدولہ نے پلاسی کے میدان میں انگریزوں سے لڑی تھی ۔ میسور کے ٹیپو سلطان 1799 میں انگریزوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے سری رنگا پٹم میں شہید ہوئے ۔ سید احمد بریلوی اور اسمعیل شہید بالا کوٹ میں انگریزی فوج کے دانت کھٹے کرتے ہوئے1831 میں ملک پر قربان ہو گئے ۔ آزادی کی جو شمع 1857 میں روشن ہوئی اس نے دھیرے دھیرے پورے ملک کو اپنے آغوش میں لے لیا ۔ اسے رانی لکشمی بائی، تانتیا ٹوپے، اودھ کے نواب واجد علی شاہ اور نہ جانے کتنے آزادی کے سپاہیوں نے اپنا خون دے کر روشن رکھا ۔ کتنوں کو کالے پانی کی سزا ہوئی، کئی کو مالٹا کی جیل میں بند کیا گیا تو کئی کو ملک چھوڑنا پڑا ۔ ملک جلتا رہا، آزادی کی آگ سلگتی رہی اور بالآخر 1947 میں آزادی مل گئی ۔
گاندھی جی جب ساوتھ افریقہ سے بھارت آئے اس وقت آزادی کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی تھی ۔ ہر عمر کے لوگ تحریک آزادی میں شامل ہو رہے تھے سوائے ہندو وادی سوچ رکھنے والوں کے ۔ ریشمی رومال تحریک ناکام ہو چکی تھی لیکن بنگال کی تقسیم کا فیصلہ انگریزوں کو واپس لینا پڑا تھا ۔ دادا بھائی نوروجی، لالہ لاجپت رائے، گوپال کرشنن گوکھلے، بال گنگا دھر تلک، اروبندو گھوش، موتی لال نہرو، شیخ الہندؒ مولانا محمود الحسن، مولانا محمد علی، شوکت علی، مولانا آزاد، ڈاکٹر سید محمود، جواہر لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، اللہ بخش اور بہت سی نامور ہستیاں تحریک آزادی میں پیش پیش تھیں ۔ گاندھی جی نے آزادی کے لئے ملک کو عدم تشدد کا راستہ سمجھایا ۔ جبکہ گرم دل کے نوجوان انگریزوں سے لڑ کر آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ ان میں چندر شیکھر آزاد، بھگت سنگھ، سکھ دیو، اشفاق اللہ خان، رام کمار بسمل، سبھاش چندر بوس وغیرہ شامل تھے ۔ گاندھی جی نے سبھاش چندر بوس کو سمجایا تھا کہ انگریزوں کے پاس امریکہ کی طاقت ہے ۔ ہمارے پاس نہ ان جیسے ہتھیار ہیں اور نہ ہمارے لوگوں کی ان کے سپاہیوں جیسی تربیت ۔ سبھاش چندر بوس کہتے تھے کہ 38 کروڑ بھارتیوں پر ایک لاکھ انگریز حکومت کیسے کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کئی ممالک سے مدد مانگی، ملک کے عوام کے بیچ نعرہ دیا "تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا”۔ پھر اپنی آزاد ہند فوج بنا کر انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی ۔
سوال یہ ہے کہ ملک کے عوام نے اتنی محنت اور جدوجہد کیوں کی؟ کیا روٹی، کپڑا، مکان، بنیادی سہولیات کی کمی تھی؟ کیا انگریزوں کو ہٹا کر بھارت کے لوگوں کو اپنا حاکم بنانا چاہتے تھے؟ آزادی کی تحریک میں ملک کے جدید تعلیم یافتہ، صاحب حیثیت، باصلاحیت حضرات کیا کسی معمولی تبدیلی کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا کر آگے آئے تھے؟ اگر نہیں تو پھر وہ کیا چیز تھی جس نے بزرگوں، ادھیڑ عمر کے لوگوں اور نوجوانوں کو جان کا نذرانہ پیش کرنے کو مجبور کیا؟ دراصل انسان فطری طور پر آزاد رہنا پسند کرتا ہے ۔ اسے بندش اور بے جا پابندی منظور نہیں ۔ انسان پر عدل کا دوہرا معیار گراں گزرتا ہے ۔ انگریزی حکومت میں ہر حال میں انڈین ہی سزا کے مستحق تھے ۔ ان کے قوانین استحصال پر مبنی تھے ۔ پھر جان، مال، عزت، آبرو، زمین، جائیداد کچھ بھی محفوظ نہیں تھا ۔ ہر چیز پر انگریزوں کا قبضہ تھا، کھیتی تک کے لئے ان کی مرضی کا خیال رکھنا پڑتا تھا ۔ وہ کسی بھی چیز پر کتنا ہی ٹیکس لگا دیتے تھے ۔ ٹیکس اور لگان کی وصولی میں ظلم کی حد تک سختی برتی جاتی تھی ۔ اظہار رائے کی آزادی نہیں تھی، ان کے خلاف جو بولا اس کی زبان کاٹ دی گئی ۔ جس نے لکھا اس کا قلم ہی نہیں سر تک قلم کر دیا گیا ۔ مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز کو پولس کے ذریعہ دبا دیا یا خاموش کر دیا جاتا تھا ۔ انڈین کی انگریزوں کے سامنے کوئی اوقات نہیں تھی ۔ پورے ملک کو خوف و دہشت میں مبتلا کر رکھا تھا ۔ کام دھندہ، دست کاری، صنعت، زراعت، ہی نہیں کھانے پینے، رہنے سہنے تک کی آزادی پر پہرہ تھا ۔ الغرض سماج کا کوئی بھی طبقہ ایسا نہیں تھا جو ان کے ظلم و ستم سے محفوظ ہو ۔
گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک ملک کا آخری آدمی یہ محسوس نہ کرے کہ وہ آزاد ہے ۔ اس لحاظ سے آزادی کا جائزہ لیں تو 75 سال میں بھی ہم آزادی کا مقصد حاصل نہیں کر پائے ہیں ۔ حکومت کی پالیسی پر تنقید کرنے والوں پر پولس کا ظلم، مظلوم کے خلاف کارروائی، مذہب اور ذات کی بنیاد پر قانون کا نفاذ اور عدلیہ کا فیصلہ ۔ بھوک، غربت، بے روزگاری، مہنگائی، صحت اور تعلیم کے کمزور نظام کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے کسی کمزور، دلت، آدی واسی یا مسلمان کو نشانہ بنانا آزادی کے لئے جان دینے والوں کے خواب کی توہین ہے ۔ آزادی کے سپاہیوں کے خلاف ملک کے جو لوگ انگریزوں کے ساتھ کھڑے تھے، شاید انہیں دھیان میں رکھ کر برطانیہ کے پہلے وزیر چرچل نے کہا تھا کہ اگر برٹش بھارت سے چلے جاتے ہیں تو ان کے ذریعہ تیار کی گئی عدلیہ، صحت کا نظام، ریلوے، عوامی کاموں کے اداروں کا پورا نظام ختم ہو جائے گا ۔ بھارت صدیوں پہلے کی بربریت، قرون وسطی لوٹ کھسوٹ کے دور میں چلا جائے گا ۔ بھارت کے لوگ ملک کو چلا نہیں سکیں گے ۔ یہاں کے جاہل لوگ آپس میں لڑ مریں گے اور ملک کے سیکڑوں ٹکڑے ہو جائیں گے ۔
ملک آزاد ہونے کے بعد اس کی کمان نہرو نے سنبھالی ۔ وہ 17 سال تک ملک کی آزادی کو بچانے کے لئے کام کرتے رہے ۔ چرچل کی پیشین گوئی ہمیشہ ان کے سامنے رہی ۔ وہ جانتے تھے کہ یونین جیک اتار کر ترنگا پھیرانا آزادی نہیں ہے ۔ آزادی پانے سے زیادہ اسے بچانا مشکل ہے ۔ نہرو نے تمام چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے ملک کو جن بنیادوں پر کھڑا کیا اس نے چرچل کی پیشین گوئی کو غلط ثابت کر دیا ۔ بھارت نہ ٹوٹا، نہ بکھرا بلکہ ہر میدان میں آگے بڑھا اور مضبوط ہوا ۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارت نے دنیا کے باعزت، با اثر ممالک کی صف میں اپنا الگ مقام بنایا ۔ کھانے پینے کے معاملہ میں ملک خود انحصار ہے ۔ دنیا کے بڑی معیشت والے ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے ۔ آج بھارت جوہری طاقت رکھنے والا ملک ہے، اگنی اور چار میزائلوں کے ساتھ برصغیر کے آر پار مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ منگل یان بھیجنے والے ممالک میں سے ایک ہے وغیرہ یعنی ہمارے پاس ایسی کامیابیاں ہیں جو چرچل کی پیشین گوئی کو منھ چڑھاتی اور بھارت کی ایکتا کو طاقت دیتی ہیں ۔
آزادی کے ساتھ تقسیم کا زخم ملک کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ عام طور پر تقسیم کی ذمہ داری مسلم لیگ اور مسلمانوں کے سر مڑھ کر کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا حصہ لے چکے ہیں ۔ انہیں بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ تاریخ دان رام پنیانی کے مطابق حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے ۔ تقسیم میں دو قومی نظریہ نے اہم کردار ادا کیا تھا ۔ جس کے موجد ہندو مہاسبھا کے ساورکر ہیں ۔ ساورکر نے 1857 کی تحریک آزادی پر کتاب لکھی تھی ۔ جس میں انہوں نے انگریزوں کے خلاف اس آندولن کو ہندو مسلمانوں کی عیسائیوں کے خلاف مشترکہ لڑائی بتایا تھا ۔ اس کتاب کی وجہ سے انہیں کالے پانی کی سزا ہوئی تھی ۔ انہوں نے جیل سے رہائی کے لئے انگریزوں کو معافی کے کئی خط لکھے ۔ ایک خط میں انہوں نے خود کو برٹش کا بھٹکا ہوا بیٹا کہا ہے ۔ انہوں نے خطوط میں یہ بھی یقین دلایا ہے کہ رہائی کے بعد وہ برطانوی حکومت کے منصوبوں کی کامیابی کے لئے کام کریں گے ۔ انگریزوں نے نہ صرف انہیں جیل سے رہا کیا بلکہ ساٹھ روپے مہینے کا وظیفہ بھی مقرر کیا ۔ اس وقت ڈی ایم کی تنخواہ بھی اس سے کم تھی ۔ انگریزوں کی پالیسی اور فسادات کی وجہ سے مسلم لیگ نے دو قومی نظریہ کا فائدہ اٹھایا ۔ 1937 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو بنگال اور سندھ میں کامیابی ملی ۔ مسلم لیگ نے دونوں جگہ ہندو مہاسبھا کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی ۔ شیاماپرساد مکھرجی بنگال کی حکومت میں کابینہ وزیر تھے ۔ سندھ کی حکومت نے ملک کی تقسیم کا ریزولوشن پاس کرکے برٹش حکومت کو بھیجا تھا ۔ یاد رہے ہندو مہاسبھا اس حکومت میں شامل تھی ۔ واضح رہے کہ اس وقت سب کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا ۔
مسلم لیگ زمینداروں کی پارٹی تھی ۔ فسادات کی وجہ سے اسے کچھ کاروباری و دولت مند گھرانوں کی بھی حمایت حاصل ہو گئی تھی ۔ 1946 کے الیکشن میں اسے کئی علاقوں میں اکثریت ملی تھی ۔ عام اور غریب مسلمان تقسیم کے حق میں نہیں تھے ۔ 1940 میں پارٹیشن کی مخالفت کے لئے دہلی میں آزاد مسلم کانفرنس بلائی گئی تھی ۔ اللہ بخش اس کے بڑے لیڈر تھے ۔ انہیں انگریزوں نے کئی خطاب دیئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے وہ سب برٹش حکومت کو واپس کر دیئے تھے ۔ کانفرنس کے وقت بھی وہ سندھ کے وزیراعظم تھے ۔ کانفرنس میں پچاس ہزار لوگ شریک ہوئے تھے جن میں پانچ ہزار خواتین تھیں ۔ 1941 میں مومن کانفرنس تقسیم کے خلاف دہلی میں بڑا احتجاج کیا تھا ۔ وکی پیڈیا پر تقسیم ملک کی مخالفت کرنے والے افراد و تنظیموں کی طویل فہرست موجود ہے ۔ پاکستان جانے والوں میں مسلم زمیندار، صنعت کار، سرکاری ملازمین، پولس اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔ جو اچھی نوکری، بڑے کاروبار اور زمینداری کے لالچ میں وہاں گئے ۔ مگر اس تقسیم میں لاکھوں افراد کی جان گئی اور کروڑوں روپے کی املاک تباہ ہوئی ۔ 1857 سے لے کر 1947 تک ملک کا اتنا بڑا نقصان نہیں ہوا جتنا پارٹیشن میں ہوا ۔ مولانا آزاد، ڈاکٹر سید محمود، رفیع احمد قدوائی، عبدالقیوم انصاری، مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ نے تقسیم کے وقت عام مسلمانوں کی ہمت افزائی کی اور انہیں ملک نہ چھوڑنے پر آمادہ کیا ۔
بہر حال پچھتر سالوں میں تمام چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے ملک جس طرح آگے بڑھا یا بڑھ رہا ہے ۔ اس میں ایک ایک شہری کی حصہ داری اور حکومت کے فیصلوں کا دخل ہے ۔ لیکن اس وقت جو صورتحال ہے اس سے لگتا ہے کہ حکومت من مانی پر اتر آئی ہے ۔ ملک مختلف مسائل سے جوجھ رہا ہے لیکن عوام کا بڑا حصہ ہندو راشٹر کی افیم کے نشہ میں مست ہے ۔ کسان آٹھ ماہ سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں ۔ سو سے زیادہ کسانوں کی آندولن کے دوران جان جا چکی ہے ۔ مگر حکومت ان کی مانگ پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہے ۔ الٹے پولس کی طاقت کے دم پر انہیں دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کبھی گائے، کبھی چوری کبھی رام کے نام پر دلت، آدی واسیوں، مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اب تو رکشہ چلانے والے، چوڑی بیچنے والے، کباڑی، ٹھیلا لگانے، سبزی، پھل بیچنے اور کوڑا بیننے والوں تک کو نام پوچھ کر مارا پیٹا جا رہا ہے ۔ پولس الٹے مظلوموں، مقتولین پر ہی مقدمہ قائم کر رہی ہے ۔ پارلیمنٹ میں ممبران پارلیمنٹ تک کے سوالوں کا جواب نہیں دیا جا رہا ۔ بلکہ سوال کرنے والوں کو برخواست کرنے کی کاروائی کی جا رہی ہے ۔ ٹیلیفون ٹیپ کیس یعنی پیگا سس جاسوسی، رافیل جانچ معاملہ میں حکومت کچھ بتانے کو تیار نہیں ہے ۔ گرتی ہوئی معیشت، ریکارڈ توڑ مہنگائی، بھوک، غربت، بےروزگاری، قانون کے راج اور آئین کی پامالی کا کسی کو خیال نہیں ہے ۔ یہ حالات کب تک رہیں گے اور اس وقت تک کتنا نقصان ہو چکا ہوگا اس اندازہ لگانا ابھی مشکل ہے ۔ اب یہ ملک کو طے کرنا ہے کہ اس صورت میں آزادی کا جشن منائیں یا اسے بچانے کی فکر کریں ۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا