مضمون نگار :-
سرمد یاسین بٹ
ریسرچ اسکالر ۔یونیورسٹی آف جموں
یو جی سی ۔
نیٹ جے آر ایف
[email protected]
۰۰۰
مکمل اور پرسکون زندگی جینے کے لیے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا ضروری ہے انسان چاہے کتنا ہی مال و دولت جمع کیوں نہ کر لے ۔ جب تک وہ تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہو گا وہ جاھل ہی کہلائے گا۔ لیکن تعلیم حاصل کرنے کے لیے معیاری استاد کا ہو نا بھی اتنا ہی ضروری ہے ۔
جارج برنارڈ شا کے مطابق "ہم میں سے جو بہتر ہیں وہ استاد بنیں باقی جہاں جانا چاہیں جائیں "۔ ایک استاد کا کام صرف طلبہ کو چند حقائق سے آگاہ کرانا یا معلومات کی ترسیل کرنا ہی نہیں ۔بلکہ بحیثیت فرد انہیں پروان چڑھانا اور ان کے اندر ایک ذاتی فکر پیدا کرنا ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی طریقے سے سماج میں اپنی حصہ داری نبھاتا ہے۔ لیکن سماج کو وہی لوگ بہتر بنا سکتے ہیں جن کی اچھی تربیت اور اچھی شخصیت سازی ہوئی ہو۔
اچھی شخصیت سازی میں سب سے بڑا رول استاد کا ہوتا ہے۔ استاد کی حیثیت ایک مالی جیسی ہوتی ہے جو باغ میں پودے لگاتا ہے ضرورت وقت ان کی آبیاری کرتا ہے اور ایک تناور درخت بننے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ جب وہ درخت بن جاتا ہے پھر اس کی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی ہے وہ گرمی ، آندھی، طوفانوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اگر اس کی کچھ ٹہنیاں کاٹ بھی دی جائیں تو بھی وہ مضبوطی سے کھڑا رہ سکتا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں دیتا رہتا ہے۔ یہی حال انسان کا بھی ہے جب اس کی اچھی شخصیت سازی ہو جائے تو وہ نہ صرف مشکلات کا مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ اپنے ساتھ کہیں دوسرے لوگوں کی مشکلیں بھی آسان کر سکتا ہے اس کے لیے معلم میں چند ایسے اوصاف ہونا ضروری ہیں۔جو معلم کو وا قعاّ معلم کہلانے کے حق دار بنائیں۔
جس طرح سیاسی نظام کو چلانے کے لیے ایک سنجیدہ لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے ۔اسی طرح تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے بھی اچھے اور معیاری معلم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ معلم تعلیمی عمل کا روح رواں ہوتا ہے اگرچہ اس کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک معلم اپنے طریقہ تدریس کو کس طرح موثر بنائے؟ ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے طلبا کو جانے اور سمجھے اپنے طلباء کی ذہنی صلاحیتوں، ان کی عمر، جماعت، دلچسپیوں اور طبیعت کے رجحانات کی بخوبی تفہیم کرتے ہوئے ان کی سیرت کو سنوارنے کی کوشش کرے۔
معلم کا پیشہ دوسرے تمام پیشوں سے ممتاز ہے ۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ معلم کا پیشہ تمام دوسرے پیشوں کو پیدا کرتا ہے۔
ایک موثر معلم کی مطلوبہ خصوصیات درج ذیل ہیں:-
شفقت سے لبریز:- ایک وقت تھا جب پنشمنٹ کو بچے کی زندگی سنوارنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ لیکن وقت بدلتا گیا حالات بدلتے گئے اور ہمارے تعلیمی نظام میں بھی بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اب یہ سمجھا گیا ہے کہ بچہ ڈرو خوف سے نہیں بلکہ پیار اور محبت سے زیادہ سیکھتا ہے ۔ شفیق استاد سے بچے جلد مانوس ہوتے ہیں ۔ طلبہ معلم کی ذات وصفات سے متاثر ہوتے ہیں ۔ معلم کی سخت مزاجی لب و لہجہ سے طلباء کی ذہنی صحت منفی طور پر متاثر ہوتی ہے۔ معلم کے خوف سے بچہ صرف تعلیمی میدان میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے دوسرے مرحلوں میں بھی ناکامی حاصل کرتا ہے ۔معلم کی سخت مزاجی سے طلباء میں خوف غصہ اور نفرت کے جذبات قوی ہو جاتے ہیں۔ جن مضامین میں طلبہ گھبراتے ہیں اس کے لیے کہیں نہ کہیں معلم کا مزاج ذمہ دار ہوتا ہے۔معلم طلبہ کے لئے ایک معمار ثابت ہو مسمار کرنے والا نہیں ۔
ڈاکٹر ذاکر حسین لکھتے ہیں” کہ استاد کی کتاب زندگی کے سرورق پر علم کی جگہ محبت کا عنوان ہونا چاہیے”۔
اعلیٰ کردار و سیرت کا حامل:- طلبہ پر استاد کی شخصیت کی گہری چھاپ پڑتی ہے۔ ایک استاد کو اعلی سیرت و کردار کا مالک ہونا چاہیے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ طلبہ اپنے استاد کے افعال دلچسپیاں اور معیار کو اپناتے ہیں۔ موجودہ وقت میں طریقہ تدریس آف لائن سے آن لائن ہو چکا ہے ۔ پہلے جو چیزیں طلباء اپنے معلم کو دیکھ کر سیکھتے تھے ۔ اب ان پہلوؤں سے بچے محروم ہوچکے ہیں۔ جب ایک معلم کمرہ جماعت میں داخل ہوتا ہے ۔ اس کے چلنے کا طریقہ ، انداز گفتگو ، پڑھانے کا انداز ، بلیک بورڈ پر کام لکھنا،۔ بچوں سے سوال کرنا ۔سوالوں کے جواب دینا غرض یہ تمام پہلوؤں طالب علم کو متاثر کرتے ہیں۔ لیکن اب وقت بدل چکا ہے اب یہ تمام چیزیں بچے کو دیکھنے کو نہیں ملتی ہیں ۔اب صرف استاد کا چہرہ نظر آتا ہے ۔ اور آواز سنائی دیتی ہے- باقی تمام حرکات بچہ دیکھ نہیں پاتا ہے-اب یہاں پر یہ بات ضروری ہو جاتی ہے کہ استاد کے چہرہ مبارک اور استاد کے انداز گفتگو سے وہ تمام پہلو اجاگر ہو جانے چاہیے جو بچہ دیکھ نہیں پاتا ہے ۔
چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سزا:-
ایک اچھے معلم میں قوت برداشت اور تحمل کا ہونا ضروری ہے- اکثر بچے شرارتی ہوتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں لیکن معلم کو کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بچہ اپنے لڑکپن کے دور سے گزر رہا ہے اور اس کی غلطیاں دراصل غلطیا ں نہ ہوکر تجربات ہوتے ہیں۔ اس لیے بچے کو ایسے ہدایت کرنی چاہیے تاکہ وہ آئندہ ان سے پرہیز کرے ۔ نفع اور نقصان کو سمجھ جائے۔ معلم کو طلبہ کے ناقص جوابات بھی تحمل سے سننا چاہیے۔ کیونکہ طالب علم کا مضمون پر اور زبان پر پوری طرح عبور حاصل نہیں ہوتا ہے ۔
مسکراتا ہوا چہرہ :-استاد کا چہرہ ہمیشہ مسکراتا ہوا، خوش مزاج اور خوش کلامی والا ہونا چاہیے۔ جس سے بچہ دیکھ کر نہ صرف خوش بلکہ پڑھائی کرنے پر آمادہ بھی ہو جائیں ۔ جب ایک کسان زمین میں اناج اگانا چاہتا ہے وہ بیج لگانے سے پہلے زمین کو تیار کرتا ہے۔ حل جوتتا ہے ۔زمین کی صفائی کی جاتی ہے۔ پتھر اٹھائے جاتے ہیں ۔ تاکہ زمین میں بیج بویا جاسکے ۔مکمل طور پر سنچائی کی جاتی ہے پھر جا کر زمین سے اناج اگتا ہے ۔ اسی طرح جب ایک انسان ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے ۔ ڈاکٹر جاتے ہی سب سے پہلے اس سے دوائی نہیں دیتا بلکہ سب سے پہلے ڈاکٹر اس کی پوری صحت کا معائنہ کرتا ہے اور پھر جاکر ایک مخصوص بیماری کی دوائی دی جاتی ہے ۔
ایک معلم کا کام بھی یہی ہونا چاہیے بچے کو پڑھانے سے پہلے بچے کو ذہنی طور پر اس سبق کے لئے تیار کرنا چاہیے۔ جب بچہ ذہنی طور پر سبق سیکھنے کے لیے تیار ہوجائے جب ہی وہ سبق کو اچھے سے سمجھ پائے گا ۔ اپنی حقیقی زندگی سے جوڑ پائے گا اور اس سے فائدہ اٹھا پائے گا۔
۰۰۰
مزہ تو تب ہے کسی خاک کے ذرے کو منّور کر دو
صرف اپنی ذات کو روشن کرنا کمال تھوڑی ہے
(شاعر نامعلوم)
۰۰۰