محمد شاہد ا عظم
ہم سب کیلئے یہ باعث مسرت ہے کہ اس سال ہم حصول آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہورہے ہیں – 1947 سے 2021 تک طویل سفر ہم نے اس عظیم الشان ملک کی تعمیر میں تشکیل میں طے کیا ہے – کئی نشیب وفراز سے ہم گزرے ہیں – 1857 کی تحریک آزادی کے آغاز سے پہلے بنگال میں نواب سراج الدولہ اور میسورمیں حیدرعلی اور ٹیپو سلطان نے انگریزی سامراجیت کے خلاف جو مزاحمت کی اور جنگیں لڑیں – اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو وطن عزیز کو غلامی کی زنجیروں میں مقید ہونے کا امکان ہی نہیں رہتا- حصول آزادی ہر وطن پرست کا خواب تھا- ہر دل بے تاب کی آرزو تھی حصول آزادی اورہر سوچ کی جستجو تھی تمنائے آزادی -بلاتفریق مذہب ہر عمر کے ہم وطن حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تحریک آزادی میں جڑگئے- سب نے انمول قربانیاں دیں – تن من دھن نثار کردیا وطن عزیز کی آزادی کے لئے جو تنگ نظر اور خوشامد پسند گروہ کے لوگ تھے وہ انگریزوں کے آگے جھک گئے تھے – تحریک آزادی میں ان کی شمولیت دور دور تک نہیں تھی- آج اُسی گروہ کے پیروکار حکومتوں پر قابض ہیں- اس دورمیں بھی نفرتوں کے سوداگر اپنے مفاد کو عزیز رکھا کرتے تھے – آج وہی نفرتوں کے تاجرملک کی عظمت ووراثت کا سودا کررہے ہیں -آزادی کے مشن سے جو دور رہے آج اُن کے گن گائے جارہے ہیں- آہنساکے قاتلوں کی پوجا کی جارہی ہے – حصول آزادی کے وقت بدقسمتی سے ملک مذہب کے نام پر تقسیم ہوا-ہندوستانی مسلمانوں کو 1947 کے دوران جو قیمت کم ظرفوں کے ہاتھوں چکانی پڑی- وہ سلسلہ آج بھی دراز ہے- ہندوستانی مسلمانوں نے تحریک آزادی میں دیگر برادران وطن کے ساتھ شانہ بہ شانہ اپنا کارگرکردار نبھایا تھا-اس روشن ماضی اورتاریخ کے اس روشن باب کو فرقہ پرستی کی سازشوں کے تحت فراموش کرنے کی کوشش کی گئیں-یہ روش پچھلے دس برسوں سے زور پکڑ رہی ہے -جہاں ملک کی ترقی اور آزادی کی خوشیاں ہمیں محسوس ہوتی ہیں -وہیں سکیولرزم کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی مفاد پرستوں اورموقع پرستوں کی شرانگیزیوں سے دل ہمارے بے حدمغموم ہیں -ہندوتوا کے طرفدارآزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ مشکوک رویہ رکھتے ہیں -جوہرطرح سے قابل مذمت ہے -جہاں احساس ملال ہمیں محسوس ہوتا ہے وہیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ وطن عزیز میں آج بھی ایسے روشن خیال ہم وطن ہیں جو رواداری کو تقویت دیتے ہیں – مگر چند برسوں پہلے تک جو فرقہ پرستی کا زہر خاموشی سے اگلا کرتے تھے -اب ان کے حوصلے بلند ہوتے جارہے ہیں – وہ فرقہ پرست کھلے عام مذہب کے نام پر نفرت کی کھیتی کرنے لگے ہیں -ان حالات میں جشن آزادی کے موقع پر تلخ حقیقتیں بھی دلوں کومغموم کرتی ہیں –
حصول آزادی کے بعد آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی ہمارا ملک جمہوریت کا پاسدار بن گیا – منصوبہ بند ترقی کیلئے جو منصوبے بنائے گئے اور اس کے توسط سے جو ترقی وترویج ہر سطح پر ملک میں ہوئی وہ لائق رشک رہے-اب ترقی کے اس دھارے کو الگ موڑ دیا گیا ہے -غیرضروری امور پر حکومتوں کی توانائیاں صرف ہورہی ہیں -وطن میں اقلیتوں کے اندرعدم تحفظ کا احساس زور پکڑ رہا ہے -خواتین کو بااختیار بنانے کا ہدف کاغذ پر ہی چمک رہا ہے -جرائم کی بڑھتی شرح ،فرقہ وارانہ فسادات اور عدم رواداری Intolerance آزادی کی میراث کو اس کی حرمت کو بے وقعت کرنے کی جانب بڑھتی ہی جارہی ہے -امور تعلیم،امورصحت،روزگارکے مواقع پرگرفت جیسے فوری توجہ طلب مسائل پر اقدامات کرنے کی بجائے ارباب اقتدار گندی سیاست میں الجھ گئے ہیں – کھلے عام نفرتوں کو عام کرنے والے اکڑ کر آزاد گھوم رہے ہیں -وہ انسانی بم کی طرح ہر جگہ امن وامان میں خلل پیدا کرنے کے درپے ہیں – یہ اس لئے بھی کہ وہ بے لگام ہیں – قانون سے لاپرواہ ملک کی روایات کو داغدار کرنے میں ملوث ہیں -ان ہنگامہ آرائیوںکے درمیان اکڑ محسوس ہوتا ہے کہ ہماری آزادی کے وقارکو اوراس کی آبرو کو مذہبی جنون نے بہت حد تک متاثرکیا ہے -مجھے اپنی بات کہنے کیلئے طوالت چاہئے -مگر کم لفظوں میں کہیں تو ان 75 سال بعد فیضؔ نے اپنی نظم صبح آزادی میں حصول آزادی کے بعد جن احساسات کا تذکرہ کیا تھا وہ آج بھی ملک کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں-
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی