مفتی عین الحق امینی قاسمی*
خواتین سماج کا اٹوٹ حصہ ہیں ،اس لئے سماجی تحفظ کی ذمہ داری جس طرح مردوں پہ ہے ،عورتوں پر بھی ہے ،بل کہ متعددجہتوں سے ان خواتین کی ذمہ داریاں بڑھی ہوئی ہیں ،مگر سوال یہ ہے کہ ان کا طریقہ کار کیا ہو ،سماج پر ہونے والے ظلم وزیادتی کا دفاع ،خواتین کس طرح کریں ؟ آئے دن خواتین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ناروا سلوک ،تعصب پرستی ،ظلم وزیادتی کے واقعات لگاتار سامنے آرہے ہیں ،ان کی آنکھوں کے سامنے ،ان کے گھر مکان کو نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے،ان کے بچوں اور شوہروں کو گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے،خود خواتین کو زیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے ،خواتین پر فقرے کسے جاتے ہیں ،کبھی پیٹ پھاڑ نے تو کبھی جنسی استحصال اور کبھی لو میرج کر بھگالے جانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور صرف یہی نہیںخواتین کو برہنہ کر ظلم وتشدد کے ذریعے قتل تک کردیا جارہا ہے۔ کیاگھروں میں محفوظ ان خواتین کو زندگی جینے کا حق نہیںہے ،کب تک زخموں کو سہتی رہیں گی ، طعنے سن سن کر اپنے آبرو کو نیلام کرتی رہیں گی،خود کو بیوہ ،شوہروں کورانڈ اور بچوں کو یتیم بناتی رہیں گی ،سماجی تحفظ کے لئے وہ کب بیدار ہوں گی ،ضرورت ہے کہ وہ اپنے اورسماج کے بچاؤ کے طریقوں کو سمجھیں ،دفاعی طریقہ کار کو جانیں ، بزدلی ،کم ہمتی اورخوف وہراس کو دور کر عزم وتوانائی اپنے اندر لائیں ،رستے میں حائل کوہ گراں کو رستے سے ہٹا نے کی جرئت اپنے اندر پیدا کریں ،حضرت خولہ اورصفیہؓ وسمیہ ؓ کی سنتوں کو زندہ کرملت کے تحفظ کے لئے سراپا کفن بردوش،جرئت وبہادری کے ساتھ مقابلے کا راسخ عزم رکھیں۔خواتین نے ہردور میں تاریخ رقم کی ہے ،زندگی جینے کا سلیقہ پیش کیا ہے ،بے خوفی اور عزیمت کی راہوں پہ چل کر بزدلوں ،امن کے دشمنوں تعصب پرستوں اور بلوئیوں کو سبق سکھانے کا کام کیاہے۔ ماؤں نے جب جب سرسے کفن باندھا ہے، ایک نئے انقلاب نے جنم لیا ہے انسانیت کے سوداگروں کو منھ کی کھاپڑی ہے اور اپنے ناپاک ارادوں میں الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہونا پڑا ہے ،بہنوں نے جب بھی مورچہ بندی کی ہے ،امن کے لٹیرے ناکام ہوئے ہیں ،بیبیوں نے جہاں کہیں بھی اپنی غیرت و حمیت کا حقیقی مظاہرہ کیا ،سرپھروں کا حوصلہ پست ہوا ہے ،اور جب بیٹیوں نے ظلم کے خاتمے کا ارادہ کیا تو بدر بھی برپا ہوا ،احد بھی وجود میں آیا اور حنین کی تاریخ بھی رقم ہوئی ہے۔سماجی تحفظ کا کام یقینا اہمیت کا حامل ہے ،انسانیت کا کام ہے ،اور خواتین ،سماجی تحفظ کے تئیں زیادہ حساس بھی ہوتی ہیں ،مگر نفسیاتی طور پر ڈر اور خوف کے احساس سے مغلوب ہوکر وہ رہزنوں ،بلوائیوں سے مقابلے اور اس سمت میں تیاری کی ہمت نہیں جٹا پاتی ہیں،حال آں کہ خواتین کے پاس ایسے بے شمار مواقع ہیں ،جہاں وہ اپنی جرئت ،اور انسانیت پر مبنی ذمہ داری کا بھلے طریقے سے احساس کرا کر قابل فخر تاریخ رقم کرسکتی ہیں۔خواتین گھروں میں رہ کرتحفظ کے گن بہتر طریقے سے سیکھ سکتی ہیں ، دشمنوں کو یہ سراغ پانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا کہ کن گھروں میں عورتیں دشمنوں کے خلاف کیا داؤ سیکھ رہی ہیں ،اسی طرح وہ دشمنوں کے خلاف آلات حرب کی ٹرینگ بھی وہ بھلے طریقے سے پاسکتی ہیں اسی طرح خواتین کے لئے ایک سب سے بہترین چیز اپنے بچوں کی انقلابی تربیت ہے ،جس سے وہ دیر تک بہت سے معرکے سرکرسکتی ہیں ، بچوں کی تربیت منظم طریقے پر انہیں کرنی چاہئے , تاکہ وہ کیڑے مکوڑوں سے ڈرنے کے بجائے سماجی دشمنوں کو مکڑی کے جالوں میں پھانس کر عبرت ناک سزا دینے کی جرئت اپنے اندر جٹا سکیں۔
بچوں کی تربیت بامقصد ہو ، مجبوری اور لاابالی روش کے ساتھ قطعاً نہ ہو ،دوران تربیت جہاں وہ علم معاش انہیں سیکھائیں ،وہیں ان بچوں کو تیر اندازی ،گولہ باری ،گھڑ سواری ،تیراکی سیکھانے کے ساتھ ہی عصری آلات حرب و ضرب کا بھی پاٹھ پڑھائیں ،تا کہ بچیبزدل نہ بن کر سماج کے کام آسکیں ،وہ چوہے بلی سے ڈرنے کی بجائے ، ایک حوصلہ مند رضاکار بن کر قوم وسماج کی حفاظت کے لئے خود کو پیش کرنے میں اپنی سعادت سمجھیں ،نسل کی ایسی تربیت نہ کریں کہ اسے خود سے بھی وحشت سی ہونے لگے ،بل کہ اس کے مزاج میں جرئت ،شجاعت ،بہادری اور سماجی تحفظ کے لئے جانوں پر کھیلنے کا جذبہ پروان چڑھنا چاہئے ۔تربیت کے زمانے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ ،ہمارے یہ بچے بڑھ کر خالق کی اطاعت اور مخلوق کی خدمت کریں گے ،اس کے لئے ان میں ابھی سے یہ احساس جاگزیں کرنے کی ضرورت ہوگی کہ خالق کی اطاعت کے بغیر ،مخلوق کی خدمت، بے معنی ہے ،بل کہ خالق کی مانتے ہوئے مخلوق کے کام آناعبادت ہے ،جب یہ جذبہ ہوگا تو سماج کی گود میں پلنے والا ہر بچہ آئڈیل ہوگا ،جس پر قومیں فخر کریں گی۔یقین جانئے کہ جب بچہ مذہبی ہوگا تبھی وہ والدین کے حقوق بھی پورا کرسکتا ہے اور سماج کے کام آسکتا ہے ،اس کے بغیر تربیت ناقص وادھوری ہوگی ،تربیت کا مرحلہ ہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے سماج و معاشرے کو سنجیدہ ،فہیم ، برد بار ،قوی الجثہ اور شجاع وبہادر افراد سماج کو ملتے ہیں ،حالات اور میدانوں کے رخ پر چٹان کی طرح جمنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور ﷺنے فرمایا تھا کہ ،الرجل القوی خیر من الرجل الضعیف یعنی مید ان کار زار میں طاقت ور افراد کی ضرورت رہا کرتی ہے جو کمزور وں سے بہرحال بہتر اور اہم ہوتے ہیں۔مائیں اگر چاہتی ہیں کہ سماج اپاہج اور بزدل بننے سے محفوظ رہے ،تو ماؤں کو بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دے کر اسے مجاہدے کا عادی بنانا چاہئے ، مائیں دوڑورزش کے ذریعے اس کو قوی الاعصاب بنانے کا شعور اپنے اندر لائیں ،ڈر اور خوف کا عادی نہ بنائیں ،سنجیدہ تربیت کے ذریعے فولادی قوت اور دور سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ان میں پیدا کرنے کی فکر کریں ،تا کہ زندگی کے بڑھتے قدم کے ساتھ ہی اسے یہ احساس بھی ہوکہ : ہم کو مٹا سکے ،یہ زمانیمیں دم نہیں ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
بیتے دنوں کے ساتھ ہی جس طرح کے حالات ہورہے ہیں ،جگہ جگہ مآب لیچنگ ،چھوٹے بڑے فسادات اور جذباتی نعروں کے ذریعے سماج کے بعض طبقوں میں خوف وہراس پیدا کر نیکی کوششیں ہورہیں اور ان افراد کے دلوں میں عدم تحفظ کا احساس بٹھانے کی سازش رچی جارہی ہے ،ایسے میں سنجیدہ ،انصاف پسند ،سمجھدار ماؤں کو تربیت کا وہ انداز اپنا نا ہوگا جو قابل تقلید انداز، فلسطین کی ماؤں نے گزشتہ سوسال سے اپنایا ہوا ہے ،فلسطین اور قدس کی ماؤں کی گود میں پلنے والا ہر بچہ خواہ بیٹی ہو یا بیٹا وہ فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی بازیابی کے جذبے سے ہی پروان چڑھتا ہے ،اپنے ملک وسماج کے تحفظ کے لئے اس کے ایک ہاتھ میں دودھ کی بوتل ہوتی ہے تو دوسرے ہاتھ میں دشمنوں کی کھوپڑی ڈھیلی کرنے کے لئے پتھر ہوتا ہے،ان لوگوں کے پاس آخر ی ہتھیار کے طور پریہی وہ جذبہ ہے جس کے سہارے وہ پچھلے سوسال سے غاصب صیہونیوں کے ساتھ معاشی دشواریوں کے باوجودتنہا ٹکرا رہے ہیں ،ان کے ایک ایک بچے نہ صرف ان کے کام آرہے ہیں ،بل کہ غاصب یہودیوں کے لئے سرکا درد بھی بنے ہوئے ہیں ، وہاں کی بیٹیوں کی جرئت کو دس توپ کی سلامی دی جائے کہ وہ نہ صرف گھر اور خاندان کی خدمت کرتی ہیں ،بل کہ دشمنوں سے مقابلے کے لئے آلات حرب وجنگ بھی تیار کرتی ہیں ،دشمنوں سے مقابلے کے لئے مذہبی جنون بھی پیدا کرتی ہیں اور ان دشمنوں کے ٹھکانوں کو ٹھکانے لگانے کی خاطر خفیہ راستوں سے جان کا نذرانہ بھی مسکرا کر پیش کرتی ہیں۔قدسی ماؤں کی تربیت کا کمال ہے کہ مذکورہ امور کو انجام دیتے ہوئے ان بچوں کے چہروں پر نہ خوف وہراس ہوتا ہے اور نہ افسوس وملال۔ وہ دشمنوں کو مارتے ہوئے مرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ،وہ جانتے ہیں کہ مومن کے لئے موت معراج ہے اور اپنے محبوب سے ملنے کا ایک عظیم راستہ ہے ،مومن کبھی بھی موت سے نہیں گھبراتا ،وہ ظلم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا ،مگر ظلم کو دیکھتا رہ جائے ،سماج کواس کے سامنے قسطوں میں صاف کیا جائے ،مومن یہ سب کہاں برداشت کرسکتا ہے ،مومن کبھی بھی ضمیر کا سودا نہیں کرسکتا ،وہ اپنے ایمان وملک کے تقاضوں کے لئے سوجانیں قربان کرنے کو ہر پل تیار رہتا ہے ،مومن خوب جانتا ہے کہ یہ دنیا قید خانہ ہے ،وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس دنیا کی حقیقت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ،وہ جانتا ہے کہ دنیا مردار کی طرح ہے ،اس کو ٹوٹ کر طلب کر نے والے اور اسی دنیا کو حیات جاوداں سمجھ کر آخرت کی منزلوں کو بھول جانیوالے کتے ہیں ،انسان نماکتوں سے مومن نہیں ڈرا کرتے۔ماؤں نے اگر فلسطینی خواتین کو آئڈیل بنا کر اپنے بچوں کی تربیت شروع کردی ،یقین جانئے ! سارے کے سارے برساتی مینڈک اور انسانیت کے دشمن بلوائی ، شتر مرغ کی طرح پناہ گاہ تلا ش کرتے پھریں گے ، تب اللہ کی زمین بھی پناہ دینے سے انکار کرے گی اور ہماراملک بھی امن وامان کا گہوارہ ہوگا ،شانتی اور پرانی سنسکرتی کا بول بالا ہوگا ۔ بہنوں!! آخر اندازہ تو کرو کہ معاذ و معوذ کس گود میں پلے تھے ، حضرت عمیر ؓ،عبدؓ اللہ بن عمر ،زید ؓبن ثابت ،اسامہؓ بن زید ،زید ؓبن ارقم ،براء ؓبن عازب ،عمرؓبن حزم،اسیدؓ بن ظہیر ،عرابہؓ بن اوس ، سعیدؓ خدری ،سمرہ ؓبن جندب ،رافعؓ بن خدیج ،معاذ ؓبن عمرو ،معوذؓ بن عفراء اؓور انسؓ بن مالک ، آخران سب کی تربیت کیسی ہوئی کہ اللہ کے راستے میں جانے کے لئے حضور سے سفارش کر واتے پھرتے تھے ، ان میں سے بعض تو وہ تھے جو پنجوں کے بل ابھر ابھرکر حضور ﷺسے اجازت طلب کررہے ہوتے۔ ہمارے بچوں کو کیا ہوگیا کہ وہ جان کی امان کی بھیک مانگتا پھررہا ہے ،اسے موت سے ڈرلگنے لگا ہے ، زندگی عزیز ہوگئی ہے ،وہ کسی بھی کامیاب منزل سے بیپرواہ ،بالکل آوارہ بے مقصد زندگی جینے کا عادی ہوتا جارہا ہے ،کل ہمارے صحابہؓ کے بچے پیادہ پا ا وجہل کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے ،تب وہ گھوڑے پر سوار تھا ،بالآخر انہوں نے ابو جہل کو مار گرایا۔
کل ہماری مائیں جب پچاس پلس کی عمر میں تنہا یہودیوں کو تہہ تیغ کردیاکرتی تھیں ،تب ان کے بچے ابوجہل جیسے بہادر اور سردار وقت کو موت کے گھاٹ اتار دیا کرتے تھے ،آج ہماری مائیں جوانی میں دشمنوں سے خوف کھا رہی ہیں ، ظلم وتشدد کا شکار ہورہی ہیں،تب بچے بزدلی اور خوف کے سائے میں پروان چڑھ رہے ہیں۔آج کیا ہماری ماؤں کی کوکھ بانجھ ہوگئی ہے ،کیا انہوں نے سلطان صلاح الدیں کو جنم دینا بند کردیا ہے ؟ کیا ہمارے بچے معاذ ومعوذ کا سبق نہیں دہرا سکتے ،کیا ہمارے اندر سے جرئت وبہادری ختم ہوچکی ہے ،کیا ہمارے بچے موسی ؒبن نظیر ،طارق ؒبن زیاد ،صلاح الدین اؒیوبی اور ویر عبد الحمیدؒ بن کر دشمنوں کے گھروں میں گھس کر تہہ تیغ کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتے ؟ بس اس کے لئے ماؤں کو بھی کفن بردوش ہونا ہوگا ، خوف وہراس اور احساس کمتری کے خول سے نکل کر بلوائیوں اور انسانیت کے دشمنوں سے نپٹنے کی قوت اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی ،یہی ایک راستہ ہے سماجی تحفظ کا اور یہی دفاعی طریقہ ہے خواتین کے لئے سماج کے بچاؤ کا۔
نائب صدر جمعیۃعلماء ہند ،بیگوسرائے
[email protected]
9931644462