خطرہ ابھی منڈلا رہا ہے

0
0

 

محمد شاہد اعظم

 

ہندوستان میں کوروناکی دوسری لہر پہلی لہر کے مقابلے میں انتہائی ہیبت ناک ثابت ہوئی ۔متاثرہ افراد اور مرنے والوں کی بڑھتی تعداد نے دل دہلادیئے ۔چاروں سمت لوگوں میں خوف پھیلتا چلا گیا ۔اب جبکہ متاثرین کی شرح میں کمی واقع ہونے لگی تو لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی لانے کے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ملک کی کئی ریاستوں میں اَن لاک کا مرحلہ وار آغاز ہوگیا ہے ۔مگر عام طور پر دیکھا گیا ہے اور گزشتہ سال بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ جیسے ہی لاک ڈاؤن آہستہ آہستہ اٹھا یا جاتا ہے پھر سے معمولات زندگی وہی روش پر واپس چلے آتے ہیں ۔جہاں کاروبار پہلے ٹھپ پڑے تھے دوبارہ سرگرم ہونے کی عجلت میں اس قدر مصروف ہوجاتے ہیں کہ احتیاط اور اعتدال پسندی نہیں کے برابر رہ جاتی ہے ۔یہ خوش فہمی کہ خطرہ ٹل گیا ہے،اکثر غلط اور الٹا ثابت ہوتا رہا ہے ۔دراصل کورونا کی یہ ایسی مہلک وبا ہے کہ اس کا خطرہ پوری طرح ختم ہونے کے آثار ابھی تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔اس لئے خطرہ منڈلاتا رہتاہے ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یعنی عالمی ادارہ صحت نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پیشین گوئی کر دی ہے کہ کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے بعد کئی ایک لہریں نمودار ہوسکتی ہیں ۔یعنی کئی برسوں تک دنیاکو کورونا کے ستم سہنے ہوں گے۔ابھی دوسری لہر نے جو ستم ڈھائے اسی دوران تیسری لہر کے چند مہینوں بعد اٹھنے کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔جس طرح پہلی لہر میں معمرین اورپچاس سے زائد عمر کے لوگ عام طور پر متاثررہے ،دوسری لہر میں نوجوان بھی اس کی زد میں آئے ۔اب یہ تاثر عام ہے کہ تیسری لہر بچوں کو اپنا نشانہ بنائے گی ۔یہ اس لئے بھی کہا جاتا رہاہے کہ اب تک اس وبا سے متاثر ہونے والوں میں بچوں کی تعداد نہیں کے برابرتھی۔ابھی حال میں ممتاز بین الاقوامی میڈیکل جریدے لانسیٹ( Lancet)نے اپنے تجزیاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہندوستان میں کورونا کی تیسری لہر سے بچوں کے بُری طرح متاثر ہونے کے امکان کی کوئی ٹھوس سائنسی بنیاد موجود نہیں ہے ۔ا س لئے بھی یہ کہا گیا ہے کہ بچوں میں کورونا وائرس کے انفیکشن کی شرح عالمی سطح پر بہت کم رہی ہے ۔بتایا گیا ہے کہ پوری دنیا میں اوسطاً پانچ لاکھ متاثرہ بچوں میں سے صرف پانچ سو کو ہی اسپتال میں داخل ہونا پڑا جس میں سے دو فیصد بچے فوت ہوگئے ۔بتایا گیا ہے کہ اموات کے معاملے میں چالیس فیصد بچے دیگر سنگین بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باعث فوت ہوگئے ۔لانسیٹ کی رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب لوگ ہندوستان میں بچوں کی حفاظت کو لے کر گھبرائے سہمے ہوئے ہیں ۔واضح کیا جارہا ہے کہ تیسری لہر اگر نمودار ہوتی بھی ہے تو بچوں کی صحت کو لے کر گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔مگر ہندوستان میں دیگر طبی اہم اداروں نے بھی بچوں کی صحت کو لے کر فکر مندی جتائی تھی۔ تو ان حالات میں کئی ریاستوں میں اِن خدشات کے پیش نظر بچوں کے علاج کے لئے کئی احتیاطی تدابیر کی جارہی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ عالمی سطح کے معتبر جریدے یا ادارے کی رپورٹ رہی ہو یا قومی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کا تجزیہ سب وقت کے ساتھ بدلنے والے حالات پر ہی منحصر ہوتاہے ۔بیماری کی روک تھام ہی بہتر علاج تصور کی جاتی رہی ہے ۔ویسے ہمارے ملک میں جیسے ہی مصیبت کی گھڑی ذرا دیر کے لئے تھمی لوگ اپنے معمول پر آجاتے ہیں ۔احتیاط برتنے سے بے نیاز ہوجاتے ہیں ۔جب حالات پھر سے بگڑ نے لگتے ہیں ۔پھر کوئی اور لہر کا سامنا ہوجاتا ہے تو اس قہر آلود ماحول سے بچنے لاک ڈاؤن کا نفاذ شروع ہوجاتا ہے ۔پھر اَن لاک کے لئے تدابیر سوچی جاتی ہیں ۔یہ سلسلہ ظاہر ہے کہ ہر کسی کو پریشان رکھتاہے ۔زندگی گویا ایک طرح سے سمٹ کر رہ جاتی ہے ۔پابندیوں کا ماحول ہر طرف چھا یارہتا ہے۔کیوں نہ احتیاط اور اعتدال پسندی کو ہم اپنائے رکھیں ۔روزگار اورروزی روٹی کے مسائل میں الجھ کر ذراسی بھول بھی اس وبا کے دوران نئے ستم سے ہمیں روبرو کرے گی ۔شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جس نے اس وبا کے دوران اپنے کسی عزیز کو کھویا نہ ہو اور بے چین اور بے قرار نہ رہا ہو ۔صحت ہی ہزار نعمت ہے ۔کورونا ویکسین لگوانے میں ہی عافیت ہے ۔اس سچائی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں ہمارے احباب کو اس جانب متوجہ کرنا بے حد اہم اور ضروری اقدام ہے ۔چہرے پر ماسک پہننا ،پاکی صفائی کا اہتمام کرنا روز مرہ کا معمول بنا لینا وقت کی ضرورت

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا