ظلم کاسہنا ، مظلوم کی حمایت نہ کرنا:ظالم کی پشت پناہی ۔ ملک کی پریشانی کاداعی ہے!

0
0

از: ڈاکٹر آصف لئیق ندوی

عربی لیکچرار مانو وصدر رابطہ خیر امت ، انڈیا

[email protected]

موجودہ ہندوستانی ارباب اقتدار کو حکومت کرتے ہوئے اب سات سال مکمل ہو گئے ہیں، جس پر وہ بہت نازاں وفرحاں بھی ہیں اور ہر جگہ وہ اپنی تعریف کے پُل باندھ رہے ہیں! اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو بالکل نظر انداز کررہے ہیں، اسی طرح وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں، اپنے دور اقتدار میں شرپسند عناصر کو کھلی چھوٹ فراہم کرکے پورے ملک کی بدنامی کا ذریعہ بن رہے ہیں، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں، مظلوموں، بے سہاروں اور کمزوروں پر مسلسل ظلم و ستم کے واقعات سن کر اور دیکھ کر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ماتم کرنے کے بجائے اندر ہی اندر مسکرا رہے ہیں اورظالموں پر شکنجہ کسنے کے بجائے انکی حوصلہ افزائی کررہے ہیں ،اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے کا کھلے عام قانون بنا رہے ہیں، لگاتار انکے بہتے ہوئے ناحق خون کو دیکھ کر روکنے کے بجائے اپنے دلوں کو راحت وسکون پہنچا رہے ہیں یہاں تک کہ مریضوں پر بھی جانکنی کے عالم میں رحمدلی کا معاملہ نہ کرکے اپنی بزدلی اور گھٹیا پن کاواضح ثبوت فراہم کررہے ہیں، ان حقوق تلفیوں و ناانصافیوں سے نہ صرف حکومت وملک کی شبیہ خراب ہورہی ہے بلکہ عدالت کی بھی بڑی توہین ہورہی ہے،اسی لیےعوام کا اعتماد و بھروسہ ارباب حل و عقد سے مسلسل اٹھتا جارہا ہے، یہ ناحق خون وناانصافی کی داستانیں قوم و ملک کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے، جو کبھی نہیں دھلا جاسکتا! تاریخ گواہ ہے کہ حالیہ سات سالہ دور اقتدار میں کیا کیا ناانصافیاں اور سازشیں ہوئی ہیں!؟ طاقتور طبقے نے کمزور طبقوں کا کتنا استحصال کیا ہے، اقلیتوں کے خون کوکتنا ارزاں سمجھ کر انکاقتل و خون ہوتے ہوئےچھوڑ دیا گیا ہے، مظلوموں کو انصاف فراہم کرنے کی بڑی ذمہ داریوں سےارباب اقتدار نے کسقدر آنکھ مچولیاں کھیلی ہیں، انکے دین و شعائر کا کتنا مذاق اڑایا گیا ہے، انکی مساجد و مراکز کو اجاڑنے کی کیسی کیسی گندی تدبیریں اختیار کی گئی ہیں، حتی کہ انکے کھانے پینے، تعلیم و تربیت، دعوت و تبلیغ اور عبادت و ریاضت کے طریقوں پر کس کس طرح سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں، علما ومبلغین پر کیسے کیسے طعنے کسے گئے ہیں، کیسی کیسی مصیبتوں سےظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرنے والے مظلوم افراد و اشخاص ،طلباوطالبات اور مسلم قیدیوںکو گزارا گیا ہے، کیسے کیسے جھوٹے الزامات و اتہامات ان پرلگائے گئے ہیں،پورے ملک میں انکے خلاف سازشوں اور پروپیگنڈوں کا ایک جال پھیلا دیا گیا ہے، آخر ظلم کی بھی ایک حد ہوتی ہے؟ ظلم کاسہنا ، مظلوم کی حمایت نہ کرنا۔ظالم کی پشت پناہی اور ملک کی پریشانی وبدنامی کاباعث ہے، صبرکی انتہا ہوگئی اور ظالموں کے ظلم کا ٹھکانہ نہیں رہا! جس کی وجہ سے آج ہم لوگ طرح طرح کی پریشانی کے شکار ہو گئے ہیں،خدا کے قہر و عذاب سے ہنوز ہمیں چھٹکارا نہیں ، اگر ہم خاموش رہے تو کہیں انکی پکڑ اس سے زیادہ سخت نا زل نہ ہوجائے!۔کیوں کہ بقول شاعر: ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا۔۔۔۔خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح

چند سال قبل ہم لوگ کتنی آزادی کیساتھ اورپرامن و خوشگوار ماحول میں زندگی گزار رہے تھے اور آج اسی ملک میں ہم لوگ اپنے ظلم و زیادتی کی وجہ سے کتنی بدتر ین حالت میں پہونچ گئے ؟! آخر ان نحوستوں کا حقیقی ذمہ دارظالم اشخاص ہیں یامظلوم طبقہ ؟ یاد رکھئے!منحوس کردار کبھی میٹھا ثمر نہیں دیتا ! آج جن چیزوں کیوجہ سے ہمارے درمیان دوریاں پیدا کردی گئیں!؟ پھر بھی اسکے باوجود ہمارے درمیان نفرت و عداوت کا زہر گھولا گیا، ظاہر ہے نتیجہ ہمارے اعمال و کردار کے ہیں، جیسی نیت ویسا کڑوا مزہ! کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ نفرت و عداوت کی سرخ لکیروں کو مٹاتے ہوئے اسکی جگہ قومی یکجہتی، اخوت و مودت اور امن و امان کے ماحول کو پروان چڑھاتی اور آپسی اتحاد و اتفاق کو ہمارے درمیان قائم و دائم رکھتی، مگر انکے پاس تو اتنی بھی جرأت نہیں ہے کہ وہ اپنی ناکامی، تنزلی اور معاشی بدحالی سے قوم و ملک کوبخوبی واقف کرائے؟! جن وعدوں اور مدعوں کیساتھ اقتدار کی کرسی پر قابض ہوئی ہے، قومی ترقی اوررفاہِ عام کے ان تمام مثبت وعدوں کو پورا کرکے دکھاتی، مگر جب نیت میں ہی فطور ہے تو اعمال اور انکےنتائج سے پوری عوام جوچھ رہی ہے! ہمت ہے تو اپنے کاموں کی بدولت پرپبلک سے دوبارہ ووٹ مانگ کر دیکھے؟ دھرم کے نام پر تو فقیر و قلاش بھی بھیک مانگ کر اپناپیٹ بھر لیتے ہیں! جادو تو وہ ہے جو سر چڑھ کر بولے، مظلوموں کی آہ اور خدا کے درمیان کوئی دیوار حائل نہیں ہوتی ، خدا کے یہاں دیر ضرور ہے مگر انصاف کے لیے اندھیر نہیں ہے، ظلم کی ٹہنی کبھی نہیں پھلتی !نتیجہ یقیناً مظلوموں کے لئے خوش کن اور ظالموں کے لیےمایوس کن ہو گا!

کیونکہ جب ہم موجودہ حکومت کے سات سالہ دور اقتدار کا سرسری جائزہ لیتے ہیں! تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے کئے ہوئے ترقی کے تمام وعدوں سے نہ صرف انحراف کیا ہے بلکہ صرف منفی کارنامے، ہندو مسلم جھگڑے کی اعلی سرپرستی کی ہےاور مسلمانوں کیساتھ حق تلفی و ناانصافی میں اپنا ایک ریکارڈ قائم کیا ہے اور اپنے دور اقتدار میں صرف دھرم، ذات پات اور بھید بھاؤ کے ذریعے ملک کے خوشگوار ماحول میں زہر گھول کر تفریق و منافرت کا بیج بویا ہے اور اچھے دنوں کے نام پر قوم وملک کو نہ صرف گمراہ کیا ہے بلکہ معاشی بدحالی کیوجہ سے ملک کو ہی بیچنا شروع کردیا ہے، آج اسی لئے وہ ہر محاذ پر ناکام و نامرادہو گئے ہیں اور برادران وطن کو بھی گمراہی و نامرادی کا راستہ دکھا رہے ہیں! اپنے دور اقتدار میں انہوں نے عالمی پیمانے پر ملک کی بنی بنائی شبیہ کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے! اسکے علاوہ اور بھی کچھ ایسے دستور و آئین مخالف کارنامے انجام دئے ہیں! جن کو عوام نے نہ صرف احتجاج و مظاہرے سے دھتکار دیا ہے بلکہ خدائے ذو الجلال نے بھی انہیں ناپسند کر کے انکے منحوس ارادوں پرادنی تنبیہ فرمائی ہے اور معمولی مرض اور قہر وبا سے سبق حاصل کرنے کا موقع دیا ہے، متعدد تنبیہات ربانی اور لاک ڈاؤن کے طویل نفاذ نے پورے ملک کی معاشی و اقتصاد ی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، اگر اب بھی ہم راہ راست پر واپس نہیں آئے !تو خدا کی پکڑ اس سے کہیں زیادہ سخت و مضبوط نازل ہو سکتی ہے! خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے ہمیں سنبھلنے کی مہلت دی! یہ خدا کا احسان و انعام ہے، مگر جب ظالموں کا دل ہی اسطرح سیاہ ہو جائے کہ ان پر بے توفیقی کی سخت مہر لگ جائے تو ہدایت و توفیق کا کوئی معاملہ ایسے لوگوں کیلئے بہت مفید بخش نہیں ہوسکتا، یہی صورتحال ہمیں ملک میں آج دیکھنے کو مل رہا ہے کہ لاکھوں قیمتی جانوں کے ضیاع و نقصان کے بعد بھی اور دریاؤں میں بہتے ہوئے لاشوں کی غیر معمولی تعداد کے باوجود بھی ظالموں کی وہی رفتار بے ڈھنگی ہے جو قہر و وبا سے پہلے تھی اور وہی مکروہ کارنامے ہیں جو اب بھی بدستور انجام دئے جارہے ہیں یا اسکی گہری پلاننگ ہورہی ہے،ملک کے لیے ایسی فطرت و جبلت کی حامل تنظیم وپارٹی اورشرپسند عناصر واشخاص سب نقصان دہ ہیں،جن کے ناپاک ارادے کی کبھی تکمیل نہیں ہو سکتی! تنبیہات ربانی کے باوجود بھی اگر صحیح ہم نے صحیح رہنمائی حاصل نہیں کی،تو پھر خدا ہی اس قوم وملک پر خیر کا معاملہ فرمائے، تمام ذی شعور برادران وطن کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور اسے کم ازکم اپنے لئےشرمناک اور افسوسناک ٹریجڈی اور فتنہ سمجھتے ہوئےمتنبہ ہوجانا چاہیے!! مگر جب انسان کی زندگی سے حیا ہی رخصت ہو جائے تو پھر وہ جو چاہے کرے! ایسے ہی لوگوں کےلئے تو خدا کی پکڑ بہت شدید ہے، خدا ہمیں اپنی ہر پکڑ سے محفوظ فرمائے، افسوس تو یہ ہے کہ ظالموں کو اپنی خامیوں اور غلطیوں پر احساس ندامت بھی باقی نہیں بچی ، غالب نے ہماری بجا ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے۔ داغ دل گر نظر نہیں آتا!!! بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

کم ازکم ملک کے غیور و خوددار اشخاص وافراد کو کسی بڑے عذاب میں گرفتار ہونے سے پہلے ارباب اقتدار کی نیتوں کامحاسبہ ضرور کرنا چاھئے کہ خدا کے عذاب سے ہمیں موجودہ ارباب اقتدار ہرگز نہیں بچا سکتے جو ادنی مرض کورونا سے ہمیں نہیں بچا سکےبھلا وہ ہمیں کیاقدرت کےبڑے عذاب سے بچا سکیں گے!افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے انکی چکنی چپڑی باتوں اور دھوکے میں آکر زمام اقتدار انکے سپرد کردیا ہے، جسکے وہ کسی طرح سےبھی اہل نہیں تھے، اسی لیے کہ وہ اپنی غلط پالیسیوں، حرکتوں اور متعدد سازشوں سے نہ صرف ملک کا بلکہ پوری قوم و برادری کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں، پھر تو ہمیں بھولے سے بھی دوبارہ انکی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آنا چاھئے ورنہ ہم اس شعر کے سراپا مصداق بن جائیں گے! کہ "خود تو ڈوبے ہیں صنم، ہم کو بھی لے ڈوبیں گے”۔۔

پریشانی ومصیبت کے عالم میں شر پسندوں کا کمزوروں پر ظلم و زیادتی کرنا، انکو ڈرانا اور دھمکانا خود حکومت کی بھی بڑی توہین ہے، جس سے انہیں ہر حال میں گریز کرنا چاھئے، دیکھتے ہیں کہ کب تک وہ برادران وطن کی آنکھوں پر پٹیاں ڈال کر اپنے کالے کرتوت کو چھپاتے پھرتے ہیں، ایک نا ایک دن انہی کی قوم انکے محاسبہ کو ضرورکھڑی ہوگی اور معاملہ ارباب اقتدار کے دامن کی گرفت تک پہونچ جائے گا، مگر افسوس صد افسوس کہ اب بھی بعض اندھ بھکتوں نے ان سے یہی امید لگا رکھی ہے کہ ہمارا بیل ایک دن دودھ ضرور دے گا!؟ حالانکہ جو ملک کے خیر خواہ نہیں ثابت ہوئے بھلا وہ کیونکر ہمارے خیرخواہ ثابت ہوسکتے ہیں، انہوں نے تو قوم و ملک کی ترقی کا پورا بیڑہ ہی غرق کردیا ہے، اس کی پر امن و پرسکون فضا کو اپنی گندی اور اوچھی سیاستوں سے مکدر و متعفن بنا دیا ہے! اپنے متعدد حربوں اور پروپیگنڈوں سے ملک کی ملی و سماجی طاقت و قوت کو توڑ کر رکھ دیا ہے! قوموں میں طرح طرح سے پھوٹ ڈال کر رکھ دیا ہے، کہیں نفرت و عداوت کا ماحول پیدا کردیا ہے، حکمرانوں کی انہی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے بڑے بڑے مافیاؤں نے بینکوں کو ان کے دور اقتدار میں لوٹ کر راہ فرار اختیار کرلیا ہے! جن کی وجہ سے ملک ہر محاذ و میدان میں پیچھے ہو کر رہ گیا ہے اور اس کی ترقی و خوشحالی کا ظاہری و باطنی جو برا حال ہوا ہے، وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ ترقی کی جگہ تنزلی نے اور خوشحالی کی جگہ بدحالی نے لے رکھی ہے! ملک کا پورا اقتصادی نظام بالکل چوپٹ ہو کر رہ گیا ہے! ملک کی معاشی جی ڈی پی کا حال چالیس سال کے عرصے میں کسی کے دور اقتدار میں اس طرح خستہ اور برا نہیں دیکھا گیا! جو موجودہ ہندوستانی دور اقتدار میں دیکھا اور مشاھدہ کیا جارہا ہے، لاک ڈاؤن، جی ایس ٹی اور نوٹ بندی جیسے غیر مجرب فیصلوں کیوجہ سے اچھے بڑے تاجروں اور مالکوں کی وہ بری حالت ہوکر رہ گئی ہے کہ کل تک جو غنی و امیر تھے، آج وہ فقیر وقلاش ہو گئے ہیں! کل تک جو زکوۃ ادا کرنے والے تھے، آج وہ زکوۃ کھانے والے بن گئے ہیں! کل تک جو بانٹا اور راہ خدا میں لٹایا کرتے تھے، آج وہ دانے دانےکو ترس کر رہ گئے ہیں! کاروبار کا وہ برا حال ہو گیا ہے کہ لوگ بھکمری کے عالم میں پہنچ گئے ہیں! نوجوانوں کو کروڑوں نوکریاں فراہم کرنے کے بجائے انکی تقریبا تین کروڑ سے زائد نوکریاں ختم ہوگئی ہیں، مستقبل قریب میں جن کی بھرپائی کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے! کیونکہ یہ اصولی بات ہے کہ ظلم کی ٹہنی کبھی نہیں پھلتی! کھیت میں ہم جیسا اناج بوئیں گے، اسکا پھل بھی ہم ویسا ہی کاٹیں گے!!

ملک کے نوجوانو! حکومت وقت کے دور اقتدار میں ملک کا حال نہایت افسوسناک حد تک پہونچ گیا ہے، آخر اسکا ذمہ دار کون ہو سکتا ہے؟ سات سال اقتدار کی کرسی پر فائز رہنے والے ہی اسکے اصل ذمہ دار ہیں!؟ کہتے ہیں کہ امراء و حکمراں کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد جب انکی نیت خراب ہو جاتی ہے تو اسی کے بقدر قوم و ملک پر نحوست نازل ہوتی ہے! مگر افسوس کی بات تو یہ وہ خود ہی ہرجگہ اپنی تعریف کرتے پھر رہے ہیں اور گودی میڈیا سکھائے ہوئے طوطے کی طرح اپنے آقا کی باتوں پر خوب ڈھول بجا رہے ہیں اور اسی کی تبلیغ و اشاعت میں لگے رہتے ہیں، خود کی تعریف کرنے والا ایک نا ایک دن اپنی ناک کے بل ضرور گرتا ہے، اور اسکی علامات ہمارے سامنے ظاہر ہیں!۔بقول شاعر: لائے اس بت کو التجا کر کے۔۔۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شراب کا کاروبار سرکاری اعلامیہ کیساتھ تو جاری وساری ہے، مگر تعلیم و تربیت کے ادارے طویل عرصے سے بند پڑے ہیں، آن لائن سسٹم سے اسکی خانہ پری کہاں تک کی جاسکتی ہے؟ اس طریقے سے اچھی نسل وافراد کا پیدا ہونا بہت مشکل و محال ہے، ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل روز بروز تاریک ہوتا جارہا ہے، اور تعلیمی و تربیتی نظام ملک میں اتنا چوپٹ اور تشویشناک حالت میں پہونچ کر رہ گیا ہے کہ ہر گھر کا باشعور فرد اسے حکومت کی بڑی ناکامی تصور کررہا ہے، بہت افسوس کہ پھر بھی تعلیمی ادارے بند ہیں؟! اکثریت تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہوئی ہے!؟ اکثریت کی خاموشی کیوجہ سے ہم اچھے اخلاق و آداب سیکھنے اور سکھانے سے بھی محروم ہو کر رہ گئے ہیں، ہماری اولاد کی عادات و اطوار روز افزوں بگڑتے جارہے ہیں، فحش اور لغویات کے کاموں اور موبائل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال میں انکی قیمتی عمر و صحت ہماری آنکھوں کے سامنے اور موجودہ ارباب اقتدار کی سرپرستی میں ضائع ہورہی ہے، جب شراب کی دکانیں کھلا رکھنے کا فرمان جاری کیا جاسکتا ہے تو آدم ساز اداروں کا مسلسل مقفل رکھنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ادارے بند ہونے کی وجہ سے نئی نسل منشیات اور دیگر مہلک برائیوں کی طرف مائل ہورہی ہے بلکہ اسکی عادی بنتی جارہی ہے، ملک میں جہالت وضلالت اور رذالت و وقاحت کا ایسا دور دورہ ہو گیا ہے کہ بچوں کی طبیعت اور اس کا میلان غلط چیزوں کی طرف زیادہ مائل ہورہا ہے۔ غالب کا یہ شعر بہت صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد۔۔۔ پر طبیعت ادھر نہیں آتی!

ملک کی ترقی و خوشحالی سے ان ارباب اقتدار کو ایسی دشمنی ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر صرف دھرم کے سودا گر بن کر رہ گئے ہیں! ایسا لگتا ہے وہ صرف اسی کے لئے منتخب کئے گئے ہیں اور اسی کے پرچارک و مبلغ بنے بیٹھے ہیں، باقی انسانوں کے سارے مسائل انکے نزدیک ہیچ و کمتر ہیں! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مسلمانوں کے دین ومذہب اور شعائر و مراکز سے شدید نفرت اور اپنے دین وطریقے کی بڑی مدح سرائی! اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مسلمانوں کیخلاف ہمارے ملک میں ظلم و ناانصافی کو کیوں فروغ وترویج دیا جارہا ہے؟ ہزار مصیبتوں میں گرفتار ہونے کے باوجود ملک کو ہندو راشٹریہ میں تشکیل دینے کی راہیں کیوں ہموار کی جارہی ہیں؟ کیوں نئے نئے دستور مخالف قوانین کو عوام کی مرضی کے خلاف ان پر تھوپے جارہے ہیں؟ قوم وملک اور دستور کے خلاف غلط کارنامے کیوں انجام دئے جارہے ہیں؟ انسانیت کے اصول کے خلاف انسانوں کی جانوں سے ایسا گندہ کھیل کیوں کھیلا جارہا ہے؟ مریضوں کو جانکنی کے عالم میں بھی اور آکسیجن کی شدید ضرورت کے وقت بھی انہیں کیوں نہیں بخشا جارہا ہے!؟ آخر یہ سب کام کن کے اشاروں پر انجام دیا جارہاہے، اور کن کے دور اقتدار میں ہورہا ہے؟ جب کہ ہماری حالت تو یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ ہم قوم وملک کی پراپرٹی کو بیچنے کے ساتھ ساتھ اگر موقع ملے تو مردوں کے کفن کو بھی بیچ کر کھا جائیں؟!.

مہاماری اور لاک ڈاؤن کے برے اثرات کے درمیان ارباب اقتدار نے ملک اور اسکی متعدد پراپرٹی (مثلا: ائیر انڈیا، ایل آئی سی، ریلوے وغیرہ) کو بیچ دیا ہے، وبا سے متأثر مریضوں سے ہاسپیٹلوں میں خوب پیسے اینٹھے جارہے ہیں، علاج و معالجے میں بڑی ہیرا پھیری ہورہی ہے، ہاسپیٹل میں بڑے صرفے اور اخراجات کے باوجود بھی متعدد مریض شفایاب ہوکر نکلنے کے بجائے وہاں سے انکی لاشیں نکل رہی ہیں!! اورجان بوجھ کر مریضوں کو مارنے کی متعدد پلاننگ منظر عام پر آرہی ہے!! جانکنی کے عالم میں بھی ہمارے ملک میں اسطرح نفرت و عداوت!! بھید بھاؤ!! اور فرقہ پرستی!! آخر ملک کو دھرم کے سودا گر کہاں پہونچانا چاھتے ہیں!؟ مریضوں کا صحیح علاج بھی ملک کے ہاسپیٹلوں میں اب دستیاب نہیں رہ گیا ہے! لوگ ہاسپیٹل کی انسانیت سوز حرکت اور قتل و ہلاک کردینے کے خوف سے ہاسپیٹلوں کا رخ کرنے سے گریز کررہے ہیں اور گھر پر ہی علاج کرواتے ہوئے مر جانے کو بخوشی گوارہ کررہے ہیں۔ مگر ہاسپیٹل جانے سے کترا رہے ہیں، آخر ایسا کیوں ہورہا ہے کہ ایک ہی ملک میں دوائیوں کے الگ الگ دام ہیں اور اپنے ہی ملک کی اقلیتوں سے نفرت و عداوت بھی ہے؟!.

افسوس اور تعجب کا اظہار اسوقت کافی بڑھ جاتا ہے جب ان تمام مصیبتوں اور کمزوریوں کو جنگی پیمانے پر حل اور دور کرنے کے بجائے ارباب اقتدار ہی دستور و آئین سے کھلواڑ کرتے نظر آرہے ہیں، کہیں متنازع قانون سی اے اے (شہریت ترمیمی بل) کا نوٹیفکیشن جاری کیا جارہا ہے! تو کہیں گورکھ ناتھ مندر کے آس پاس سو سال سے آباد مسلمانوں کو سات دنوں کے اندر اپنا گھر بار خالی کرنے کا حکم دیا جارہا ہے! کہ نعوذ باللہ ان کا وہاں رہنا مندر کے لئے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے!؟ کہیں ملک کے ہندو آبادی کے درمیان اس تنگ نظر خیال اور غلط سوچ کو خوب پروان چڑھایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی بڑھتی آبادی اور انکے مدارس و مساجد کیوجہ ہندو آبادی خطرے میں ہے! بلکہ عنقریب پورا ملک ہی خطرے میں چلا جائے گا!؟ وغیرہ وغیرہ۔

حالانکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ان نااہل ارباب اقتدار کی گندی سازشوں کی وجہ سے صرف ہندو آبادی ہی نہیں! بلکہ ہمارا پورا ملک خطرے میں ہے، انکی ناپاک پلاننگ کی وجہ سے کفر و شرک، جہالت و ضلالت، رذالت و وقاحت اور ظلم وناانصافی کا یہاں ایسا دور دورہ ہے، جن کی نحوستوں کی وجہ سے تنبیہات ربانی اور متعدد قہر ووبا ہم پر نازل ہو رہی ہے اور ان کی گندی پالیسی کی وجہ سے ہندو آبادی کے بجائے ملک کا پورا معاشی نظام خطرے کے نشان سے بھی اوپر آچکا ہے، ملک کا بڑا بڑا بینکنگ سسٹم بھی خطرے اور مصیبت سے دوچار ہے، نوجوانوں کی نوکریاں بھی خطرے میں ہیں، تجارت و صنعت بھی خطرے میں ہے، پوری مسلم آبادی اور انکی تہذیب خطرے میں ہے، انکے مدارس و مکاتب خطرے میں ہیں، انکے مساجد ومراکز خطرے میں ہیں، سبھوں کے اچھے اخلاق و عادات خطرے میں ہیں، ملک کی گنگا جمنی تہذیب خطرے میں ہے، ملک کا پیارا دستور و آئین خطرے میں ہے، مذہبی اور معاشرتی رواداری بھی خطرے میں ہے، ہماری نئی نسل کا مستقبل خطرے میں ہے۔ جشن آخر کس بات کا منایا جارہا ہے۔ سوائے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور ہماری آنکھوں پر پٹیاں ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے!! البتہ ارباب اقتدار کو اچھی طرح یاد کر لینا چاھئے کہ مسلمانوں کی آبادی کو اگر اسی طرح خطرہ بتا بتا کر وہ اپنے سیاسی مفادات کو حاصل کرتے رہے تو ہم لوگ خاموش تماشائی بنے نہیں رہیں گے، بلکہ اس کے لئے ہم مسلم آبادی کو متحد کرتے ہوئے پورے ملک میں ان کی غلط پالیسیوں کے خلاف زوردار آواز اور وسیع علم احتجاج بلند کریں گے، اور ملک کے غیور و خوددار اشخاص و افراد کو ہم اپنا ہم نوا بنالیں گے اور اوچھی سیاست کرنے والوں کو ہی زمام اقتدار سے بے دخل کردیں گے۔۔

جب تک مسلم قوم اپنی اسلامی تشخصات، انسانیت کی خیرخواہی کے جذبات، اتحاد و اتفاق کی طاقت، علمی وفکری قوت، ملی و سماجی خدمات، اخلاقی و معاشرتی امتیازات کیساتھ متصف ہے، انکا صفحہ ہستی مٹادینا دنیا کی بڑی بڑی طاقت کے بس کی بات نہیں ہو سکی تو یہ کون تس مار خان آئے ہیں جو ہمیں مٹا دیں گے؟۔ مسلمان تو ہمیشہ ان اصولوں کیساتھ اپنی زندگی کا سفر طے کرتے ہیں۔

مذہب نہیں سِکھاتا آپس میں بَیر رکھنا۔۔ ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا!

یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے۔ اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری۔۔۔۔ صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا