بی بی سی
انڈیا کی شمالی ریاست جھارکھنڈ میں ایک غیرسرکاری ادارے سے وابستہ پانچ عورتوں کو مبینہ طور پر اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔یہ واقعہ 19 جون کو ریاست کی راجدھانی رانچی سے تقریباً 80 کلومیٹر دور کھونٹی ضلع میں پیش آیا جہاں قبائلیوں کی اکثریت ہے۔ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اشونی سنہا کے مطابق پانچ عورتوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کے ساتھ اجتماعی ریپ کیا گیا ہے اور ان کا طبی معائنہ کرایا جا رہا ہے۔ان کے مطابق ان عورتوں کے بیانات کی بنیاد پر ملزمان کی شناخت کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ابھی کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔یہ خواتین ایک غیرسرکاری ادارے سے وابستہ ہیں جو اس علاقے میں انسانوں کی ٹریفکنگ کے خلاف بیداری پیدا کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ لوگ ایک نکڑ ناٹک کرنے کے لیے کوچانگ گاو¿ں گئے تھے کہ موٹر سائکلوں پر سوار کچھ لوگوں نےانہیں اغوا کر لیا۔حملہ آور انہیں قریب ہی ایک جنگل میں لے گئے جہاں ان کے ساتھ مبینہ طور پر اجتماعی ریپ کیا گیا۔پولیس کے مطابق کوچانگ جانے والی ٹیم گیارہ لوگوں پر مشتمل تھی۔پانچوں خواتین پولیس کی نگرانی میں ہیں اور قانونی پابندیوں کی وجہ سے ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جاسکتی۔رانچی کے ڈی آئی جی کے مطابق تفتیش کے لیے تین ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ڈی آئی جی کے مطابق اس واقعے میں ’پتھل گڑھی‘ تحریک سے وابستہ لوگوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔یہ تحریک مقامی قبائلی چلا رہے ہیں جس کے تحت وہ کسی حکومت کی فرمانروائی کو تسلیم نہیں کرتے اور صرف اپنی ’گرام سبھا‘ یا گاو¿ں کی پنچایت کو ہی مقتدر مانتے ہیں۔تحریک کے تحت ’باہر‘ کے لوگوں کے اس علاقے میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ڈی آئی جی اممول ہومکر نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’متاثرہ خواتین نے پولیس کو بتایا ہے کہ انہیں یہ دھمکی دی گئی تھی کہ وہ حکومت کی پالیسیوں کی تشہیر کے لیے مقامی لوگوں کی اجازت کے بغیر اس علاقے میں داخل نہ ہوں۔‘متاثرہ خواتین کے مطابق حملہ آوروں نے انہیں تقریباً چار گھنٹے اپنی تحویل میں رکھا اور پورے واقعہ کی موبائل فون پر ویڈیو بھی بنائی۔انڈیا کے قبائلی علاقوں سے لڑکیوں کے استحصال کی خبریں آتی رہتی ہیں اور انہیں اکثر معمولی رقم دیکر دلی جیسے شہروں میں کام کرنے کے لایا جاتا ہے۔ ان کے استحصال کو روکنے کے لیے کام کرنے والے اداروں کا الزام ہے کہ ان میں سے بہت سی لڑکیوں کو جنسی کاروبار میں دھکیل دیا جاتا ہے۔