عکس در عکس…… محمد اعظم شاہد
9986831777
گذشتہ سال کورونا کی خطرناک وباء کے درمیان قومی سطح پر لاک ڈائون لاگو رہا۔ اس دوران رمضان المبارک کا مہینہ اور عید آزمائشوں کے درمیان گزری۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے گذشتہ سال کے مقابلے میں کورونا کی وحشت ناک دوسری لہر انتہائی اندوہناک گزررہی ہے۔ ملک کے کئی ایک ریاستوں میں احتیاطی تدبیر کے طور پر لاک ڈائون نافذ کیا گیا ہے۔ اس صبر آزما ماحول میں ہم نے رمضان المبارک گزارا۔ اور ہماری عید بھی ہمیں انہی حالات میں مل رہی ہے۔ اس مہلک وباء سے متاثر ہونے والے احباب کی تعداد ہر روز بڑھتی جارہی ہے۔ اموات کی تعداد بھی تیز تر ہے۔ نہ جانے کتنے ہمارے شناسا اور ہمارے رشتہ دار اس وبا ء سے متاثر ہوکر ہم سے بچھڑ گئے، اور اس مبارک مہینے کی پرنور ساعتوں میں ابھی بھی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ہمارے اپنوں کے بچھڑنے کا غم ہے تو اس وبا کی زد میں آئے ہمارے احباب علاج کے درمیان کشمکش سے دوچار ہیں۔ بے چینی اور اضطراب اس قدر شدید ہے کہ دل بھر آتاہے۔ ہمارے بے بسی، لاچاری اور بے کسی کے عالم میں ہم سے جو کچھ بن پڑتا ہے وہ ہم کرپاتے ہیں۔ سب سے بڑا ہمارا عمل یہی ہیکہ ہم مرضیٔ مولا کے آگے سربسجود ہوکر دعائیں ہی کرسکتے ہیں۔ اور اس بار بھی ہم عید سے اپنی کیفیات میں ڈوبے خاموشی سے گزر جائیں گے۔ کیسے عجیب اور ان دیکھے حالات ہیں کہ ذہن و دل لرز جاتے ہیں۔ کسی شناسے میڈیا کے ساتھی نے رمضان کی رونقیں کی بات کی تو عجیب لگا کہ چاروں طرف پھیلی دہشت ، سناٹوں کی وحشت اور خاموشی کے درمیان ایمان افروز رونقیں تو ہمارے دلوں میں ہی روشن ہیں۔ مگر ہمارے وجود اللہ کی رضا کے آگے اُس کے حفظ و امان کے متمنّی بنے ہوئے ہیں۔ رمضان کی وہ بہاریں اور عید کی خوشیاں بس ایک سہانی یاد بن کر رہ گئے ہیں۔ علمائے کرام نے گھروں میں ہی عید منانے کی تلقین کرتے ہوئے ضروری ہدایات دی ہیں، سرکاری احکامات کے مطابق اجتماعی عبادات پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ صبر واستقلال کے ساتھ اِن آزمائشی حالات میں عید گزارنی ہے، اور جب اُن احباب کی حالتِ زار کا خیال آتا ہے جن کے عزیز اور جن کے گھروں کی رونقیں اس وبا کے درمیان اور رمضان المبارک کے دوران بجھ سی گئی ہیں۔ وہ لوگ عید کے دن تڑپ کے رہ جائیں گے۔ اُن کی تڑپ محسوس کرتے ہوئے ہمیں ربّ کریم سے اس وباء سے نجات، مرحومین کی مغفرت اور بیماروں کی جلد شفایاگی کے لئے دعا کرتے ہوئے سادگی کے ساتھ عید گزارنی ہے۔ وقت ٹھہرتا نہیں گزر جاتا ہے۔اس طرح یہ دور بھی گزر جائے گا۔ اندھیروں کے بعد روشن اُجالے یقینی ہیں۔ اس اُمید کے ساتھ اس عید سے ہم روبرو ہونگے۔
ملک اور ریاستوں میں حکومت کی نا اہلی کھل کر سامنے آئی ہے کہ کس طرح اس مہلک وباء سے نمٹنے میں وہ ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ چند سرکاری احکام بالخصوص محکمۂ صحت اور مقامی انتظامیہ کے افسران کی بے حسی ، بے ایمانی ، بدعملی کے باعث متاثرین کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اقتدار سے چپکے ہوئے عوامی نمائندے hopelessناکارہ ثابت ہوئے ہیں۔ کورونا سے متاثرین کے علاج سے لے کر اموات کے بعد آخری رسومات تک منافع خوری کاچلن عام ہے۔ اپنی ذمہ داریوںسے کوتاہی برتنے والے متعلقہ حکام بے حس ثابت ہوئے ہیں۔ بیماری سے بے بس اور لاچار حالات اس ملک میں اس پیمانے پر اس سے پہلے کبھی ایسے دیکھے نہیں گئے تھے۔ حکومتوں کی بدبختی نے مجموعی اعتبار سے ملک کے حالات کو عالمی سطح پر لائق رحم بناکر رکھدیا ہے۔ مرکز اور ریاستوں میں حکومتوں کی حکمت عملی بھی افسوسناک ہے۔ اپوزیشن کے اٹھائے سوالات پر اپنی بے شرمی سے خاموش رہ جانا اور اپنی کرتوتوں پر پردہ ڈالے رکھنا موجودہ حکومتوں کا شیوہ بن گیا ہے۔ گھوٹالے پر گھوٹالے کرنے والے ہمارے نام نہاد عوامی نمائندے قاتلوں کی طرح کھلے عام بے رحم اموات کا رقص شرر دیکھتے رہ گئے ہیں۔ ربّ کائنات سے دعائیں مانگتے اپنی اور اپنے متعلقین کی صحت اور اُس کی حفاظت کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا ہی ہماری اولین ترجیح ہے۔ باہر کے خاموش سنّاٹوں کے درمیان گھروں میں بند ہم عید اس
سال بھی سادگی اور خاموشی سے منائیں گے۔ دُکھ بھر دلوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ہم عید سے روبرو ہونگے۔ شاید یہی رضأ مولاٰہے۔