محمد اعظم شاہد
گذشتہ سال کے اوائل میں کورونا وائرس کی مہلک وباء سے جو حالات رونما ہوئے اسکے اثرات گزرتے وقت کے ساتھ محسوس کئے جاتے رہے۔ پوری دنیا میں کسی مہلک بیماری سے اس سے پہلے ایسا واسطہ نہ رہا ہوگا۔ اب پھر سے ایک سال بعد تیزی کے ساتھ یہ وبا بڑھتی اور پھیلتی جارہی ہے۔ ویسے احتیاطی تدابیر پر قائم رہنا ، پاکی صفائی کا خیال اور چہرے پر ماسک لگائے رکھنے کی لوگوں میں عادت سی ہوگئی تھی۔ باوجود اسکے سماجی فاصلے بنائے رکھنے پر کم ہی توجہ دی گئی۔ زندگی جب معمول پر آنے لگی تو وہی پرانے ہجوم چاروں طرف عام ہوتے گئے، بڑے شہروں میں ماسک کے نہ پہننے پر جرمانہ لگنے کا خوف تو رہا۔مگر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں ماسک سے متعلق سنجیدگی نظر نہیں آئی۔ کورونا وباء سے متعلق ماہرین کی پیش گوئیاں سچ ثابت ہونے لگیں۔ گویا اس مہلک وباء کے اثرات اور دوبارہ اسکے نمودار ہونے اور لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے احکامات اور خدشات سچ ثابت ہونے گلے۔ گذشتہ سال اس وائرس کے علاج کیلئے سہولیات نہیں تھیں۔ اب ویکسن کی فراہمی ہوگئی ہے۔ اس ملک میں جہاں ارباب اقتدار کو مفاد عاملہ کے ہر کام میں اپنی تشہیر کی آرزو رہتی ہے۔ ویسے ہی کورونا ویکسن کو لے کر بڑے دعوے اور نعرہ بازیاں ہوئیں۔ الیکشن میں ویکسن کی سیاست بحث کا باعث بنی۔ اور اب ویکسن کا جشن ’’اتسو‘‘ منانے کی تحریک چل پڑی ہے۔ ویکسن کی فراہمی کو اپنے اقتدار کی کامیابی سے جوڑکر دیکھنے کی کوششیں ہورہی ہیں، یہ سیاسی بازیگری کا حصہ ہے۔دوسری جانب اب بھی عام لوگوں کا ایک بار طبقہ ویکسن کے تعلق سے غلط فہمیوں اور خدشات کا شکار ہے۔ کچھ شہروں سے یہ خبریں بھی آنے لگی ہیں کہ ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹانڈ اور شاپنگ مالس کے پاس محکمہ صحت کے کارندے لوگوں سے انکے ٹسٹ لئے بغیر کچھ معلومات لے کر اُنکے موبائل نمبر حاصل کررہے ہیں۔ اور پھر چند دنوں کے بعد اُنکے موبائل فون پر یہ اطلاع دی جارہی ہیکہ انکی کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ پازیٹیو آئی ہے۔ اس طرح کی کارستانیاں ہورہی ہیں یہ دکھانے کے لئے کے ٹیسٹ کئے جارہے ہیں، ان بدعنوانیوں پر روک لگانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے خدشات کو دور کرنے پر سنجیدگی کے ساتھ اقدامات پر توجہ دینے میں متعلقہ حکام ناکام اور نااہل ثابت ہورہے ہیں ، کورونا سے متاثر افراد کے علاج اور اسپتالوں میں داخلے اور بستروں کی قلت کی خبریں بھی عام ہونے لگی ہیں۔ پھر سے لاک ڈائون کے سائے منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔ کئی شہروں میں رات کا کورونا کرفیو جاری ہے۔ چند ریاستوں میں ویک اینڈ لاک ڈائون یعنی ہفتے کے آخری دو دنوں کا لاک ڈائون لاگو کیا جارہا ہے۔ مگر اقدامات سست رفتاری کے ساتھ چل رہے ہیں۔
گذشتہ سال کی طرح اس بار بھی رمضان المبارک کی آمد کورونا کے پھیلتے بڑھتے ماحول میں ہوئی ہے۔ ریاستوں میں امارت شریعہ اور پھر ریاستی حکومتوں کی جانب سے رمضان المبارک کے دوران احتیاطی تدابیر کی ہدایات جاری ہوئی ہیں ۔ ان حالات میں تحمل کے ساتھ احتیاطی تدابیر کی عمل آوری کے ساتھ پابند رہنا وقت کا تقاضہ ہے۔ جو حالات رونما ہورہے ہیں اور جس شدت کے ساتھ کورونا وائرس سے دوبارہ لوگ متاثر ہورہے ہیں اس کے خوف اور وحشت پھیل رہی ہے ۔ لاک ڈائون کے اشاریمل رہے ہیں، مگر نہ عوام اور نہ ہی حکومتیں مکمل لاک ڈائون کی حمایت میں ہیں۔ ایک غیر یقینی فضاء عام ہوتی جارہی ہے۔ مجموعی طور پر احتیاط ہی موثر علاج ہے اس پر ہر ایک کی توجہ ضروری ہے۔