جنگ بندی معاہدہ،سرحدی عوام کے مستقبل کا خوش آیند فیصلہ!!

0
0

سلمیٰ راضی
منڈی پونچھ

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک بار پھر جنگ بندی معاہدہ پر سختی سے عمل کرنے کے قدم کے بعد جہاں اسکولوں میں بچوں کی تعداد میں اضافہ ہواہے۔ وہی عوامی حلقوں میں خوشی پائی جارہی ہے۔ایسا لگتاہے کہ اب سرحد پر بسنے والے لوگ اپنے فصل بغیر کسی خوف اور اندیشہ کے کاٹ اور بو سکیں گے۔اس سے قبل بھی کئی ایسے معاہدے عمل میں لائے گئے جن کی بڑی مشہوری تو تھی لیکن ان پر عمل آوری بلکل بھی نہیں ہو سکی۔ تاہم اب امید قوی ہے کہ جب مرکزی حکومت کی قیادت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔مستحکم حکم پر مستحکم عمل ہوا تو دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں پر بسنے والی عوام راحت کی سانس لے سکیں گیے۔

جموں کشمیر میں متعدد سماجی تنظیمیں ہمیشہ سے ہی ریاست میں امن وامان اور سرحدوں پر موت کے سلسلہ پر مکمل روک لگانے کی وکالت کررتی رہی ہیں۔چونکہ ان کا مانناہے کہ سرحدوں کی عوام بھی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ اور ان کا بھی خون خون ہوتا ہے،پانی نہیں۔ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے لورن میں قائیم فلاحی اور سماجی تنظیم امدادالمستحقین کافی عرصہ سے جنگ بندی معاہدہ پر عمل آوری کے لئے آواز بلند کرتی رہی ہے۔ آج جب اس آواز کو وجود ملاہے۔ ہندوستان اور پاکستان حکومت نے دونوں جانب سے جنگ بندی معاہدہ پر سختی سے عمل کرنے کی یقین دھانی کروائی ہے۔اور گزشتہ ایک ماہ سے سرحدوں پر گن گرج کی آوازیں بند ہونے سے سرحدی عوام نے چین کی نیند لی ہے۔ ان باتوں کا اظہار کرتے ہوے تنظیم کے صدر ریٹائرڈ پرنسپل محمد یوسف شیخ جن کی عمر 65سال ہے،نے مزید کہاکہ جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی سے سرحدی عوام کو جن مشکلات سے دوچار ہوناپڑتاتھا۔ اب اس پر سختی سے عمل آوری ہوگی تو دونوں جانب کے سرحدی مکین راحت کی سانس لیں گے۔ اسکولوں میں مکمل تعلیم ممکن ہوسکے گی۔ اموات اور ملکیت کا نقصان نہیں ہوگا۔ سرحدی دیہاتوں میں بھی ترقیاتی کام ہونگے۔ کم سے کم سرحد کے مکین راحت کی سانس لے سکیں گے۔ انہوں نے دونوں ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ دنوں جانب سے افواج کے اعلیٰ قیادت کا بھی اس قدم کی سرہانہ کی ہے۔ لیکن یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ اس جنگ بندی معاہدہ پر دونوں جانب سے سختی سے عمل کیاجائے۔

چونکہ اس سے قبل جتنے بھی معاہدے ہوے وہ صرف میز تک ہی محدود رہے۔ سرحدوں پر کچھ دن یا کچھ دیر وقفہ کے علاوہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ سرحدی علاقہ ساوجیاں کے ایک مقامی باشندہ اور وارڈ پنچ بشیر احمد بھٹ جن کی عمر 50سال ہے،اور اپنی پوری زندگی سرحد پر گن گرج میں گزاری ہے، ان کا کہناتھاکہ اس بار کا جنگ بندی معاہدہ کا جو عزم دہرایاہے، گزشتہ ایک ماہ سے اس پر عمل بھی ہوتا نظر آرہاہے۔ سرحدی عوام اب چین کی نیند سوتی ہے۔ پہلے جب یہاں کسی کے ہاں شادی ہوتی تھی تو سرحدی گولہ باری کے ڈر سے مختصر وقت میں چند لوگ ہی اس شادی کی تقریب میں شامل ہوکر رسم پوری کیا کرتے تھے۔نہ دعوت،نہ ہجوم ہوتا تھا۔اکثر تو شہر پونچھ میں ہی اپنی شادیاں انجام دیتے تھے۔ اس لئے کہ یہاں ہر وقت گولہ باری کے ڈر نے زندگی اجیرن بنادی تھی۔ کئی سالوں کے بعدلگتا ہے کہ اب پھر سے خوشیاں لوٹ آئیں ہیں۔ شادیوں میں پھر سے شادمانیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ساوجیاں کے ہی گنتڑ علاقع جو کہ پاکستان چوکی کے بلکل سامنے ہے۔یہاں کے ایک نوجوان پیر شہر از گیلانی جن کی عمر 35سال ہے، ان کا کہناتھاکہ ہم لوگ سرحد پر بستے ہیں۔مقامی اور مکین ہوتے ہوے بھی نہ ہی وقت پر گولہ باری کی وجہ سے فصل بو سکتے تھے اور نہ ہی وقت پر کاٹ سکتے تھے۔ اپنا گھراور کھیت ہوتے ہوے بھی ہر وقت موت کے سائے میں رہتے تھے۔ گزشتہ دوسال قبل گھاس کاٹتے ہوے پاکستانی گولہ لگنے سے ایک نوجوان موقع پر ہلاک ہو گیا تھاجبکہ دوسرے دو شدید زحمی ہوگئے تھے۔

قریب چھ ماہ قبل ساوجیاں میں بازار کے قریب گولہ شیل لگنے سے ایک بچے اور ایک خاتون سمیت چار افراد شدید زحمی ہوگئے تھے۔ 2016/17 میں دونوں جانب شدید گولہ باری ہوئی جس کی وجہ سے گلی میدان میں پندرہ دوکانیں جل کر راکھ ہوگئی تھی۔ اس طرح پندرہ نوجوانوں کے روزگار خاک میں ملنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں مالیت تباہ و برباد ہوگئے تھے۔ ان دوکانداروں کی تمام رکھی پونجی اور کمانے کے ذریعے ختم ہوگئے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اکھنور سے لیکر ساوجیاں تک عوام کی کروڑوں مالیت تباہ و بربادہو گئی، سینکڑوں لوگ جسمانی معذور ہو گئے،کئی لوگ موت کا نوالہ بن چکے ہیں۔عوامی املاک کی تباہی و بربادی کے ساتھ ساتھ سرکاری املاک کو بھی کھربوں مالیت کا نقصان ہواہے۔ غرض گزشتہ 70سالوں سے  سرحدوں پر قیامت برپاہے۔ ایسے میں اگر تازہ جنگ بندی معاہدہ پر سختی سے عمل ہوتا نظر آتا ہے تو یہ سرحدی عوام کی زندگی کی نئی شروعات ہوگی۔ تنویر احمد جو ایک سماجی کارکن ہیں اور سرحدی عوام کی فریاد سن کر ان کے مسائیل اجاگر کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں،انہوں نے اس جنگ بندی معاہدہ کو اس سے قبل ہونے والے معاہدوں سے مختلف بتایاہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر چہ اب اسکول کرونا وائرس کے پیش نظر بند کردئے گئے ہیں۔ مگر اس بار بچوں کی اسکول میں حاضری زیادہ دیکھنے کو ملی ہے۔ اب بچوں کو اسکول بھیجتے والدین بھی جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ تازہ جنگ بندی معاہدہ کے بعد سرحد پر دونوں جانب کی خاموشی سے لگتاہے کہ اب یہ ڈر ختم ہوگا۔اور ہم اپنی فصل وقت پر بواور کاٹ سکیں گے۔

مقامی لوگ، سماجی کارکن و دیگر لوگوں میں تو خوشی ہے ہی لیکن یہاں طلباء و اساتذہ میں بھی خوشی اور امید جاگ اٹھی ہے۔لیکن کب تک یہ جنگ بندی کارگر اور سود مند ثابت ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ البتہ کیا بس جنگ بندی معاہدہ سے ہی سرحدی عوام کی زندگی بہتر ہو جاے گی؟ کیاگزشتہ کئی سالوں سے سرحدوں پر گولہ باری اور شیلنگ سے اپاہج لوگوں کی داد رسی کا بھی کوئی لائحہ عمل بنایا گیاہے؟ کیا گولا باری کی وجہ سے سرحدی علاقوں میں بنے سرکاری عمارتیں بلخصوص اسکولوں کے ڈھانچوں کو بھی ازسر نو تعمیر کی ضرورت نہیں ہے؟ جب جنگ بندی ہو گئی ہے تو اب ترقی کی رفتار تیز ہونی چاہیے۔اب اس کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے،کیونکہ منصف آپ ہیں!!!!!  (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا