جموں یونیورسٹی میں یو جی سی کے فنڈز کا غلط استعمال

0
0

100کروڑ کاسنسنی خیز گھوٹالہ،جموں یونیورسٹی بدنظمی اوربدعنوانی کااڈہ بن چکی ہے:ایس کے بھلہ
نریندرسنگھ ٹھاکر

جموں؍؍یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کی جانب سے جموں یونیورسٹی کو راشٹریہ اچھتم شکھشا ابھیان (آر یو ایس اے) کے تحت منظور شدہ 100 کروڑ روپے فنڈز کے استعمال پر کیمپس کے تعلیمی حلقوں کی جانب سے سخت تنقیدکی جا رہی ہے۔ وہیں معروف سوشل ایکٹیوسٹ وپروفیسر ایس کے بھلہ نے ایل جی سنہاسے جموں یونیورسٹی کے 100کروڑ کے مبینہ گھوٹالے کی جانچ کی مانگ کی ہے۔ذرائع کے مطابق یو جی سی کے سب سے مشہور فلیگ شپ ویب پر مبنی ایجوکیشن پروجیکٹ – ایم او او سی ایسز (جامع اوپن آن لائن کورس بذریعہ سویام( SWAYAM) نوجوان خواہش مند ذہنوں کے لئے ایکٹو لرننگ کے مطالعہ ویبزکی بدقسمتی کا حوالہ دیتے ہوئے ، پی جی انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ایک پروفیسر نے کہا ، کہ "فنڈز کیمپس میں اعلی تعلیم میںبہتری کے فروغ کیلئے دیئے گئے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکام کی توجہ صرف اخباروں میں سرخیاں حاصل کرنے کی طرف ہے‘‘۔ذرائع نے انکشاف کیا ، کہ”ایم او او سی ایس پروجیکٹ کی سہولت کے لئے 100 ایل ای ڈی اسکرینوں کی خریداری پر 65 لاکھ روپے کی رقم خرچ کی گئی ہے۔” یہ ایل ای ڈی تقریبا ڈیڑھ سال قبل خریدی گئیں لیکن اسکامعنی خیز استعمال نہیں ہوا ہے کیونکہ ان میں سے 95فیصدفیکلٹی کے کئی شعبوں کے اسٹور ز میںبند پڑے ہوئے ہیں۔ تاہم ، فیکلٹی کے کچھ شعبہ، جہاں کلاس روم کی دیواروں پر یہ ایل ای ڈی اسکرینیں لگائی گئی ہیں،وہ فقط سجاوٹ کے ایک حصے کی حیثیت سے ہی کام کرتی ہیں ، کیوں کہ یہ ابھی بھی ڈش اینٹینا سے جُڑے ہوئے نہیں ہیں۔ یونیورسٹی کے اندرونی ذرائع نے بتایاکہ ڈ ین اکیڈمک معاملات کے پروفیسر نریش پادھا کی سربراہی میں پرچیز کمیٹی کی پوری توجہ ایل ای ڈی اسکرینوں کی خریداری پر تھی جبکہ اس کے کام کے لئے معاون سامان مہیا کرنے پرانہوں نے کبھی بھی غور نہیں کیا ۔ جموں یونیورسٹی کے ذرائع کے مطابق جموںیونیورسٹی میں ایم او او سیئزپروجیکٹ کی حقیقت جاننے کے لئے جے کے گلوبل نیوز ٹیم نے جموں یونیورسٹی کے تمام 41 پی جی شعبوں میں سے ہر دو فیکلٹی ممبروں کے ساتھ ٹیلیفون کے ذریعہ یونہی بات چیت کی،جن میں سے بیشتر نے جانکاری کے حقائق فراہم نہیں کئے اور حیرت کی بات ہے کہ ان میں سے اکثریت نے نہ صرف MOOCs بلکہ توجہ مرکوز کے اہم شعبوں جیسے کہ ریسرچ لیبز ، آلات کی خریداری ، نصاب کی اپ گریڈیشن ، بزنس انکیوبیشن اور اختراعی مراکز ، انٹرپرینیورشپ اینڈ اسکل ڈیولپمینٹ سنٹر ، اور صنعت ، اکیڈمیہ انٹرفیس سنٹر کے ساتھ ساتھ خصوصی مقصد والی وہ گاڑی جس کے لئے RUSA کے تحت ایچ آر ڈی کے ذریعہ 100 کروڑ روپے منظور کئے گئے تھے،جموں یونیورسٹی کی خراب حالت کی عکاسی کرتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ جموں یونیورسٹی کے NAAC ایکریڈیشن پر مبنی اے + گریڈ (3.51 پوائنٹس) کے ساتھ جموں یونیورسٹی کی تعلیمی قابلیت ، تحقیقی کام اور اینٹر پرینئورشپ اینڈ سکل ڈیولپمینٹ سے متعلق نصاب کے فروغ کے لئے ، ایچ آر ڈی نے مئی 2018 میں 100 کروڑ روپے کی منظوری دی ہے۔اس رقم کی پہلی قسط دسمبر 2018 کو جاری کی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بائیوٹیکنالوجی اور ہیومن جینیٹکس کے پی جی شعبوں میں ، جن کے سربراہ کوئی اور نہیں وی سی پروفیسر منوج دھرہیں ، ان ایل ای ڈی اسکرینوں کی کارکردگی پر بٹ گئے تھے۔ بائیوٹیکنالوجی کے ایک پروفیسر نے طلبہ کے لئے MOOCs پروگرام کی سہولت کے لئے ایل ای ڈی اسکرین کے وجود سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جموں یونیوسٹی نے امتحان میں چار کریڈٹ ویذٹ کے ساتھ اپنے طلباء کو SWAYAM ( سویام) کے ذریعے پیش کئے گئے 46 پی جی MOOCs کورسز کی نشاندہی بھی کی اور ان کی منظوری بھی دیدی ہے۔جموں یو نیورسٹی میں RUSA فنڈز کے استعمال کے طریقے کار پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ، رجسٹرار آفس کے ایک افسر نے کہا ، "جب فنڈز کے بے دریغ استعمال پر ترجیح دی جاتی ہے تو ماہرین تعلیم کو اسکی کوئی علمیت نہیں دی جاتی ہے ۔ افسر نے مزید کہا کہ وی سی کی ٹولی نے تقریباً 100۔ ایل ای ڈی بغیر کسی ٹینڈر عمل کے خریدے تھے۔ "یو جی سی نے یونیورسٹی سطح پر تعلیم اور ریسرچ کے شعبے میں بہتری کو فروغ دینے کے مقصد کے لئے جموں یونیورسٹی کوکافی فنڈز دینے کا انتخاب کیا تھا۔ اُس نے زور دیکر کہا کہ ، وائس چانسلر کے چاپلوسوں کی ٹولی بے ثمر سرگرمیوں کی نمائش میں مصروف ہیں جسکی یونیورسٹی کے تعلیمی نصاب کے ساتھ کوئی مطابقت نہیںہے۔شعبہ پی جی اکنامکس کے ایک پروفیسر نے اپنا نام چھُپانے کو ترجیح دیکر کہا کہ’’ جموں یو نیورسٹی میں چاپلوسوں کی ایک ٹولی کے ذریعہ سب کچھ چلایا جارہا ہے ، جہاں تقریبا ً 2 سال قبل منظوری کے باوجود 100 کروڑ روپے کے فنڈز کی ایک بڑی رقم بامقصد منصوبوں کے لئے استعمال نہیں کی گئی ہے‘‘۔ اس طرح کی متعدد سرگرمیوں پر RUSA کے فنڈز کی لاپرواہی کے استعمال، جو یونیورسٹی کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جموں یونیورسٹی میں فیکلٹی کی ایک بڑی تعداد نے موجودہ وی سی پروفیسر منوج دھر کی مدت پوری ہونے کے بعد کسی غیر مقامی وائس چانسلر کی تقرری پر زور دیا ہے۔ اس معاملے پرپروفیسر نریش پادھا کے رد عمل ظاہر کرنے کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئی ہیںکیونکہ انہوں نے ہماری بار بار کی جانے والی کالوں پر خاموش رہنے کو ترجیح دی ہے۔معروف سماجی کارکن وپروفیسر ایس کے بھلہ نے ’لازوال‘کیساتھ ایک خصوصی بات چیت میں کہاکہ جموں یونیورسٹی بدنظمی اوربدعنوانی کااڈہ بن چکی ہے۔اُنہوں نے کہاکہ ہماری بات صاف گوئی کی ہونی چاہئے،ہم شفاف اورجوابدہ ہونے چاہے۔اُنہوں نے کہاکہ یونیورسٹی میں100کروڑ کاگھوٹالہ ایک سنسنی خیز اسکینڈل ہے جس کی جانچ ہونی چاہئے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا