معاشرے میں برائی پھیلانے کا ذمہ دار کون

0
0

کالم نویس
میاں محمد یوسف مظفرآباد
وضع میں تم ہو تمدن میں نصاریٰ وہنود
یہ وہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

ہمارے معاشرے میں جدت کے دور میں بےحیائی اس حد تک سرایت کر گئی
انسانیت سوز واقعات اور پھر ظلم کے نام پر ان کی اشاعت ایک روایت بنتی جارہی ہے وہ معاشرہ جو اسلامی کہلاتا ہے
اللہ تعالیٰ نے قران مجید کی سورہ فرقان میں ارشاد فرمایا کہ نیک لوگ بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے اور کسی جگہ برائی دیکھیں تو خاموشی سے گزر جاتے ہیں اور سورہ نور میں ارشاد فرمایا بےشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بےحیائی کا چرچا ہو ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
بے حیائی فحاشات کی اشاعت ایک جامع بات ہے جس میں زنا تہمت زنا بے حیائی کی باتوں کا چرچا کرنا اور انسان کو زنا کی طرف مائل کرنے وا لی باتیں اور حرکتیں کرنا سب شامل ہیں موجودہ زمانہ میں اشاعتِ فحش کے ماڈرن طور طریقے ایجاد ہوگئے ہیں مثلاً نائٹ کلب عشق بازی کا جنون پیدا کرنے وا لی فلمیں، جنسی بے راہ روی پیدا کرنے والے اور اخلاق سوز گانے ذہنوں پر عورت کا بھوت سوار کرانے والے اشتہارات، حسن کے مقابلے ٹی وی پر عورتوں کے بے ڈھنگے پن کے مظاہرے ہیجان انگیز ناول اور افسانےاخبارات و رسائل میں عورتوں کی برہنہ اور نیم برہنہ تصویریں اور ڈانس کے پروگرام وغیرہ کے ساتھ میڈیا کا کردار بھی شامل ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاجو شخص ہدایت نیکی کی طرف بلائے اسے ہدایت نیکی پر چلنے والوں کا بھی ثواب ملے گا اور چلنے والوں کے ثواب میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی اور جو شخص گمراہی کی طرف بلائے اس کو گمراہی برائی پر چلنے والوں کا بھی گناہ ہوگا اور ان چلنے والوں کے گناہ میں بھی کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی
اس حدیثِ مبارکہ کو سمجھنے کے لئے ”انٹرنیٹ ” ایک بہترین مثال ہے یعنی جو لوگ اپنی اور لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لئے اسلامک پیجز ویب سائٹس وغیرہ بنا کر دین کی تبلیغ کے لئے کوشاں ہیں وہ بھی ثواب کے مستحق ہیں اور جو لوگ اسلامک پیجز ویب سائٹس وغیرہ سے منسلک ہیں اور دینی پوسٹ شئیر کرکے اللہ کا پیغام آگے پھیلاتے ہیں تو ثواب کے حقدار وہ بھی ہیں اسی طرح جو لوگ ”انٹرنیٹ ” کے ذریعے لوگوں میں فحاشی پھیلا رہے ہیں تو ان پر گمراہ ہونے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کا گناہ ہوگا اور جو لوگ بھی ایسے پیجز سے منسلک ہیں وہ بھی برابر کے گناہ گار ہو رہے ہیں اسلام معروفات کی اشاعت کا اور منکرات پر پردہ ڈالنے کا حکم دیتا ہے اور موجودہ معاشرے میں برائی کی اشاعت ایک وطیرہ بن گیا ہے جو کہ برائیوں کو عام کرنے کے مترادف ہے کسی جگہ کوئی زیادتی ہو جائے تو میڈیا اپنے چینل کی پرموشن کے لئے اس کو عام کرتا ہے مثلاً باپ نے سوتیلی بیٹی سے زیادتی کر لی گزشتہ روز ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ بھائی نے بہن سے نکاح کر لیا اب یہ کوئی طریقہ نہیں ہے
اور بیٹے نے فائرنگ کر کے ماں کو قتل کر دیا وغیرہ روز ایسی بھیانک خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں. اور میڈیا کے لوگ ہمدرد بن کر ان خبروں کو نیکی کے جذبے سے پھیلاتے ہیں اور ایسی نیکی بجائے باعث ثواب بننے کے عذاب بنتی ہے
یہ علامت قیامت ہیں کہ جب برائی کو نیکی کے جذبے سے پھیلایا جائے ہمارے ملکوں میں اس کے سدباب کا کوئی قانون نافذ نہیں ہے بس چند دن کی گرفتاری اور پھر زمانت پر رہائی ہو جاتی ہے جس سے لوگ اس کو برائی نہیں سمجھتے بلکہ یہ تاثر لیتے ہیں کہ فلاں نے یہ جُرم کیا تھا اُسے کچھ نہیں ہوا تو مجھے بھی کچھ نہیں ہو گا
یا تو یہ ہو کہ ایسے کرداروں کو سر عام پھانسی کی سزا دلوا کر میڈیا خبر دے کہ فلاں جگہ بیٹے نے ماں کو قتل کیا تھا اج وہ بدبخت بیٹا پھانسی پر لٹک گیا تو سمجھ آتی ہے مگر ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس ہوتا ہے اور یہ برائی بجائے بند ہونے کے پھیلتی ہے اسلام نے حدود اسی لئے رکھی ہیں جو اس طرح کے افعال کے مرتکب ہوں انہیں ایسی سزا دی جائے کہ دوسرے لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور نمبر دو یہ واقعات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں رشتوں کے احیا اور تقدس اخلاقیات کا علم ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ حیوانیت عام ہے ایک آدمی کو ماں بہن بیٹی بیوی کی تمیز ہی نہیں ہے تو ا یسے جانور سے کیا گلہ کیا جائے ورنہ مسلمان تو اس کے تصور سے لرزتا ہے ضرورت ہے کہ ہمارے علماء کرام معاشرے میں رشتوں کی اہمیت پر لوگوں کو درس دیں انہیں دین سکھائیں
معاشرت سکھائیں کوئی بریلوی ہے دیوبندی ہے الحدیث ہے ہندو ہے عیسائی ہے اس کا جواب وہ خود دے گا مگر معاملات پر ہم سب نے جواب دہ ہونا ہے
میاں بیوی کا جنسی تعلق جائز اور پاک تعلق ہے لیکن اسلام نے تو اس کی بھی حد رکھی کہ ایسے وقت میں یہ تعلق قائم کیا جائے کہ گھر میں کسی کو پتہ نہ چلے تو پھر ایسے واقعات سر زد ہوں جن سے مسلمان نہیں انسانیت شرمسار ہو تو اس کا ذمہ دار کون ہےاس سلسلے میں مظلومیت کے نام پر جو چینل اس فعل کا مرتکب بنتے ہیں حکومتی سطح پر ان پر بین لگنا چاہیئے اور اس کے ساتھ علاقوں کی مساجد میں رشتوں کے تقدس اور اہمیت پر درس دئیے جائیں اور اس کے ساتھ حکومتی سطح پر ایسی برائیوں پر شرعی سزائیں مقرر کریں نافذ کی جائیں ایک سازش کے تحت علما کرام کی جگہ ہمیں وہ طبقہ دین اسلام کی تعلیم دیتا ہے جس کو خود دین کا علم نہیں ہوتا نہ اس کی شکل صورت اور لباس اسلام کے خلاف ہوتی ہے اس کے لئے مجھے دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے رمضان المبارک آ رہا ہے ٹی وی چینل پر ہماری خواتین کے لباس اور دیگر افعال دیکھ لیں جب یہ سب ہمارے بچے دیکھیں گے تو وہ اس کو اسلام سمجھیں گا اور پھر جیسی روح ویسے فرشتے جیسے مبلغ ایسے ہی عمل کرنے والے
گوبر کے اوپر مکھن کا لیپ کرنے سے وہ مکھن نہیں بنتا جو لوگ قران و حدیث کی شرح سے واقف نہیں ہیں وہ کیا دین سکھائیں گے
دین اسلام کی اشاعت کے لئے دین دار ہونا ضروری ہے اب تو ہم قران و حدیث کے معانی بھی اپنی مطلب کے نکالتے ہیں
گزشتہ دنوں ایک حدیث فیس بُک پر وائرل ہوئی اس حدیث کی سند میں کوئی شک نہیں جس کا مفہوم ہے کہ وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جو اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے
لیکن اس کی شرح کیا ہے مسلمان چُغل خور نہیں ہوتا مسلمان بدگمان نہیں ہوتا مسلمان خائن نہیں ہوتا مسلمان زانی نہیں ہوتا جو یہ سب فعل کرے اور پھر اپنے آپ کو مسلمان سمجھے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے اور ضرورت ہے کہ ہمیں اسلامی تعلیمات کی مکمل تعلیم ہو اور نیکی اور برائی کی اشاعت کی تمیز ہو ورنہ دوسرے لفظوں میں ہم انسانیت اور فلاح کے نام پر برائیوں کو فروغ دیتے ہیں اور مظلوم کی آواز بننے کا ڈھونگ رچا کر اپنی تشہیر کرتے ہیں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا