جموں و کشمیر میں رواں سال اسمبلی انتخابات ہونا ناممکن: عمر عبداللہ

0
0

کہاآج نہ ہمارا آئین، نہ ہماراجھنڈا، نہ ہماری زمین، نہ ہماری نوکریاں اور نہ ہمارے افسر رہے
یواین آئی

کولگام؍؍نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر میں رواں سال اسمبلی انتخابات ہونا ناممکن نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس یونین ٹریٹری میں ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسل (ڈی ڈی سی) اراکین کو محض فوٹو سیشن کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ان باتوں کا اظہار عمر عبداللہ نے جمعرات کو یہاں دمحال ہانجی پورہ نورآباد میں پارٹی کے رہنما حاجی ولی محمد ایتو کی 27 ویں برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے سلسلے میں منعقدہ عوامی جلسے کے حاشئے پر نامہ نگاروں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا: ‘مجھے تو کم از کم فی الحال اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ حد بندی کمیشن کو مزید ایک سال کا وقت دیا گیا ہے۔ کیا پتہ ایک سال کے بعد مزید وقت دیا جائے گا یا نہیں۔ کم از کم یہ مان کر ہم چلیں کہ 2021 میں انتخابات نہیں ہوں گے’۔ان کا ایک اور سوال کے جواب میں کہنا تھا: ‘ڈی ڈی سی اراکین کو صرف فوٹو سیشن کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ باہر سے کوئی سفارتکار آتا ہے تو ان ڈی ڈی اراکین کو سامنے لایا جاتا ہے۔ ڈی ڈی سی انتخابات کا مقصد یہ نہیں تھا کہ منتخب اراکین کو سفارتی ٹول کے طور پر استعمال کیا جائے’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘ان انتخابات کا مقصد زمینی سطح پر ترقی کو یقینی بنانا تھا۔ ترقی تو فی الحال ہمیں کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔ شاید اگر ان ڈی ڈی سیز کو صحیح معنوں میں با اختیار کیا جائے تو ہم زمینی سطح پر ترقیاتی سرگرمیاں دیکھ سکتے ہیں’۔قبل ازیں عمر عبداللہ نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط نیشنل کانفرنس کے چلتے پانچ اگست 2019 کے فیصلے ممکن نہیں ہوپاتے، نیشنل کانفرنس کی کمزوری یہاں کے عوام کی کمزوری بن جاتی ہے، یہ حقیقت ہے اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اگر گزشتہ تیس سال کے دوران نیشنل کانفرنس کو کمزور نہ کیا گیا ہوتا تو پانچ اگست 2019 ممکن نہیں ہوپاتا۔انہوں نے الزام لگایا کہ نیشنل کانفرنس کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کمزور کیا گیا۔ ہماری جماعت کے لیڈران عوام کو بتاتے رہے کہ نیشنل کانفرنس کی کمزوری آپ کے لئے خطرناک ثابت ہوگی اور بالکل وہی ہوا، نیشنل کانفرنس کمزور ہوئی اور پانچ اگست 2019 ممکن ہوپایا۔ آج نہ ہمارا آئین، نہ ہماراجھنڈا، نہ ہماری زمین، نہ ہماری نوکریاں اور نہ ہمارے افسر رہے۔ لیکن اس کا علاج آج بھی ممکن ہے اور اس کا علاج نیشنل کانفرنس کو طاقتور اور مضبوط بنانا ہے۔اس موقعے پر پارٹی جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال، صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، سینئر لیڈر و سابق وزیر سکینہ ایتو، ضلع صدر کولگام ایڈوکیٹ عبدالمجید لارمی، ضلع صدر پلوامہ حاجی غلام محی الدین میر اور ترجمان عمران نبی ڈار کے علاوہ کئی لیڈران اور عہدیداران موجود تھے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کے عوام پانچ اگست 2019 کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو ہم سے چھینا گیا وہ ہمیں واپس دیا جائے اور ہم اس بات پر قائم و دائم ہیں اور رہیں گے۔ یہ پیغام میں آپ کے پاس اپنی جماعت اور بالخصوص اپنی جماعت کے قائد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی طرف سے لیکر آیا ہوں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ان دنوں ہم جیلوں، سب جیلوں اور گھروں میں نظر بند تھے، ہمیں عوام سے دور رکھا جا رہا تھا اور مقصد یہ تھا کہ ہماری جماعت ٹوٹ جائے اور بکھر جائے لیکن ہمارے ورکروں نے ثابت کر دیا کہ وہ دائیں بائیں جانے والے نہیں۔ نیشنل کانفرنس کی یہی طاقت ان کے گلے سے نہیں اترتی ہے۔انہوں نے کہا: ‘نیشنل کانفرنس نے ہمیشہ جموں وکشمیر کے عوام کا بھلا چاہا ہے اور اس کے لئے بیش بہا قربانیاں پیش کی ہیں۔ ہم ہمیشہ وکالت کرتے آئے ہیں اور آج بھی یہی کہتے ہیں جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ مشروط الحاق کے وقت جو وعدے کئے گئے اور جن وعدوں کو آئینی میں درج کرکے عملی جامہ پہنایا گیا اْن کوپورا کیا جانا چاہئے’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘جموں و کشمیر کے مسئلے کی بات آتی ہے تو اس کا حل بھی ہم بات چیت کے ذریعے نکالنے کی وکالت کرتے ہیں۔ لیکن ہماری یہ باتیں کچھ لوگوں کو پسند نہیں آتی اور ہمیں طعنے دیئے جاتے ہیں، ہمیں بکا? اور ملک دشمن کہا جاتا ہے لیکن آخر پر ان لوگوں کو ہماری باتوں پر ہی عمل کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک بار پھر خفیہ طور نے ہندوستان اور پاکستان نے بات چیت کے دروازے دوبارہ کھولے اور جنگ بند کے معاہدے پر من و عن عمل کرنے کا عہد کیا’۔عمر عبداللہ نے کہا کہ ہماری سیاست بدترین سیاست نہیں ہے، ہم وہ جماعت نہیں جو صبح ایک، دوپہر دوسری اور شام کو تیسری بات کرے۔ نیشنل کانفرنس یہاں کے عوام کی بنائی ہوئی ہردلعزیز جماعت ہے اور یہ وقت وقت پر ثابت ہوتا آیا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ڈی ڈی سی انتخابات میں نیشنل کانفرنس کے کسی بھی لیڈر نے انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی بڑی بڑی ریلیاں اور جلسوں کا انعقاد کیا۔ ہم نے اْمیدوار کھڑے کئے اور فیصلہ لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا اور عوام نے ہمیں جو تعاون اور اشتراک اْس سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے۔انہوں نے کہا کہ حکمرانو ں کو ڈی ڈی سی انتخابی نتائج کے بعد ڈی ڈی چیئرمینوں کے انتخابات کا انعقاد کرانے میں چھ ہفتے لگے اور اس دوران ہمارے ڈی ڈی سی ممبران کو مختلف حربے اپنا کر ڈرا اور دھمکایا گیا۔ کچھ ڈی ڈی سی ممبران کو بڑے بڑے افسران کے سامنے لیا گیا اور وہاں مذکورہ افسر ان ڈی ڈی سی ممبران کو دھمکی دیتا تھا کہ ‘ہم نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ پر پی ایس اے لگایا تم کون سے کھیت کی مولی ہو، اگر ہم تم پر پی ایس اے عائد کردیں گے تو کچھ وقت کے بعد لوگ تمہارا نام اور پتہ بھی بھول جائیں گے’۔انہوں نے دعویٰ کہ اگر دھاندلیاں نہیں کی گئی ہوتیں تو ہمارے 14 ڈی ڈی سی چیئرمین بن گئے ہوتے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا