_____
نتیجہ فکر
__________
علامہ اقبال نے ایک موقع پر فرمایا کہ
جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو صبح اُٹھ کر روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا والد مرحوم درود شریف اور وظائف سے فرصت پا کر آتے اور مجھے دیکھ کر گذر جاتے٫
ایک روز صبح میرے پاس سے گذرے تو مسکرا کر فرمایا کہ
کبھی فرصت ملی تو میں تمہیں ایک بات بتاؤں گا
میں نے دو چار دفع بتانے کا تقاضا کیا تو فرمایا کہ
جب امتحان دے لو گے تب
جب امتحان دے چکا اور لاہور سے واپس آیا تو والد صاحب نے فرمایا
جب پاس ہو جاؤگے تب
جب پاس ہو گیا اور پوچھا تو فرمایا کہ : بتاؤں گا ۔
ایک دن صبح صبح جب حسبِ دستور قرآن کی تلاوت کر رہا تھا تو وہ میرے پاس آ گئے اور فرمایا
"بیٹا ! کہنا یہ تھا کہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قرآن تم ہی پر اُترا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے”
علامہ اقبال علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ والدِ محترم کا یہ فقرہ میرے دل میں اُتر گیا اور اس کی لذت دل میں اب تک محسوس کرتا ہوں
علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے اپنے مشفق باپ کی فاضلانہ اور حکیمانہ بات کو اس ایک شعر میں بڑی خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف!
دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ دستور حیات اورآئین زندگی جو ایک مذہبی ، قومی یا وطنی نوشتہ کی صورت میں ہمارے پاس ہے یہ وہی منشور حیات جسکو اس کائنات کے پیدا کرنے والے خالق نے ہمارے لئے بھیجا تاکہ ہم اس تیرو وتار (متفرق) دنیا میں اسکے نور سے اچھی اور بری راہوں میں تمیز کرسکیں یہ وہ دستور ہے جس میں کسی چیز کا اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی کسی چیز کو اس سے کم کیا گیا ہے یہ ہر طرح کے نقص و عیب سے مبرا ہے ٫
یہ وہ منشور زندگی ہے جسکی روشنی میں اقوام عالم ترقی کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتی ہیں ،
یہی وہ دستور حیات ہے جسکی پاپندی بنی نوع بشر کو اس ڈگر پر لا کر کھڑا کر سکتی ہے جو کامیابی و فلاح کی منتہیٰ ہو:
یہ حق صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ وہ یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ وہ کتاب جس پر انکا یقین اور ایمان ہے وہی کتاب ہے جسے خدا وندِ قدوس نے اپنے آخری رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ پر نازل فرمایا نزول قرآن کے ابتدائی دور میں قرآن کے مخالف سرتوڑ کوششیں کرنے لگے انکی ہر کوشش ناکام ہوئی کبھی صاحبِ قرآن کو ساحر اور کبھی مجنون تک کہا گیا لیکن قرآن نے اپنا لوہا یوں منوایا کہ انہیں یہ چیلنج دیا کہ اگر اس قرآن مجید کی حقانیت پر آپ کو شک ہے اس جیسی دس سورتیں لے آؤ خوب طبع آزمائی کی گئ منکرین کی طرف سے لیکن خالق کائنات نے انکی رسوائی اسی میں رکھی تھی دس تو در کنار ایک سورت اور ایک آیت کا چیلنج بھی پورا نہ کرسکے قرآن عظیم کے اس معجزہ نے انکو انسانی تاریخ میں تاصبح قیامت ذلیل ورسوا کرکے کلامِ ربانی ہونے کا ثبوت دیا جب قرآنی آیات کے مقابلے سے عاجز ہوئے تو بدروحنین احدو تبوک جیسے معرکہ میں اپنی بدقسمتی کانظارہ چشم فلک کو دکھایا آج بھی اگر اغیار کے ایجنڈے پر رضوی ورشدی قرآنی حقانیت کو اپنے حقیر مفاد کی خاطر طبع آزمائی کریں ” تو” دشمنان قرآن چہ جائے کہ کسی بھی روپ میں ہوں وہ خاکستر ہو جائیں گے !
لیکن قرآنی معجزات جگمگاتے رہیں گے آخر ہم دشمنان قرآن اور دشمنانِ صاحب قرآن کا مقابلہ کس طرح کریں جلوس جلسے احتجاج سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا پر احتجاج اور بریفنگ ہمارے ایمان کا تقاضا ضرور ہے لیکن کافی نہیں ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کا آفاقی پیغام کیا ہے اسے سمجھا جائے اور وہ پیغام پیغامِ وحدت امت ہے جسکاپہلازینہ وحدانیت ربانی پر ایمان جو تمام مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے پھر رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت ہے قرآن کریم دعوت دیتا ہے اللہ کی رسی کو تمام مسلمان مضبوطی سے پکڑو آپس میں فرقے فرقے مت بنو آج مسلمانوں کی تفرقہ بازی نے اغیاراور اپنے اندر چھپے منافقین کو یہ موقعہ دیا ھے کہ جب چاہیں قرآن کریم اور مقدساتِ اسلام کی توہین کریں آئیـــے قرآن کریم کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں عہد کریں قریہ قریہ بستی دربستی قرآنی حلقوں کا اہتمام کرینگے تفہیم قرآن کو عام کریں گے ماہانہ درسِ قرآن ہفتہ واری دروس یومیہ دروس کا اہتمام ہی نہیں بلکہ زندگی کا جزلاینفک بنائیں گے اور افسوس اسوقت ہوتا ہے کہ جب معترض اعتراض کرتا ہے لیکن مسلمان خود قرآن سے نا آشنا ہوتا ہے جسکا عملی مشاھدہ مختلف ٹی وی چینلز پر دفاع قرآن کرنے والے مسلمانوں سے عیاں ہوتا ھے قرآنی علوم ومعارف کو درسگاہوں سے باہر اسی فیصد عوام تک پہچانے کا جدید زمانے کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نظم بنایا جائے تب جاکر سستی شہرت کے بھوکے شاتمانِ قرآن کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ورنہ چند نعرے قراداد یں بیانات وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جذبات ماندہ پڑجاتے ہیں اگر حقیقی دفاع مطلوب ہے پیغام قرآن کو ہرادمی تک لازما پہنچائیں یہی ہم مسلمانوں کی اصل ذمداری ہے
محمدفاروق ضیائی ریاض