پس پردہ وہ سہتی ہیں ستم، اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ وہ شادماں ہے گھروں میں

0
0

وادی چناب میں خواتین گھریلو تشدد کی شکار ، حقوق نسواں کے علمبردار خواب خرگوش کے مزے لوٹنے میں مشغول
محمد اشفاق

کشتواڑ ؍؍حقوق نسواں کے کے علمبردار جہاں اس وقت پوری دنیا میں عورتوں کی آزادی کے لئے آوازیں بلند کر رہے اور خواتین کی خودمختاری کے لئے مختلف قسم کی تنظیمیں تشکیل دے رہے ہیں وہیں دوسری جانب جموں و کشمیر کے پسماندہ علاقوں سمیت خطہ چناب میں چند وحشی عناصر خواتین کو بچے پیدا کرنے مشین اور کمتر مخلوق سمجھ کر انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانے میں مشغول ہیں۔ لیکن ان خواتین کی نا خواندگی اور لا علمی کی وجہ سے دنیا ان کے اوپر کئے جانے والے انسانیت سوز تشدد سے نا واقف ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق وادی چناب کے اکثر دیہات میں تیس فیصدی خواتین آج بھی وحشیانہ تشدد کی شکار ہو رہی ہیں، اور اوسطاً ہر تیسرے روز انہیں مختلف حیلے اور بہانے بنا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے میں وہ مرد پیش پیش رہتے ہیں جو یا تو شراب کے نشے میں دھت رہتے ہیں یا پھر ان کے والدین بچپن سے انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ عورت ایک کمتر چیز ہوتی ہے اسے سر پہ نہیں چڑھایا جانا چاہیے۔لازوال کی ایک تحقیق کے مطابق حقوق انسانی کے علمبردار اس پسماندہ خطے میں خواتین کو ان کے حقوق فراہم کرنے انہیں تشدد سے بچانے اور انہیں ایک اچھی زندگی فراہم کرنے میں ابھی تک ناکام ہیں۔ آج سے دو دہائی قبل ڈوڈہ کے ایک علاقے سے ایک لڑکی پر اسرار طور پر غائب ہو گئی تھی لیکن سرکاری ایجنسیاں اور دیگر ادارے بیس سال سے زائد عرصہ گذر جانے کے باوجود ابھی تک تلاش نہیں کر پائے ہیں اور اس کے والدین آج بھی اس کی آہٹ کے منتظر رہتے ہیں۔ ایک اور خاتون جس کا تعلق ضلع کشتواڑ کی تحصیل درابشالہ سے تھا شادی کے روز بعد ہی سسرال سے غائب ہو گئی تھی، والدین نے اس کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھائیں ، لیکن تیرہ سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد ابھی تک اس لڑکی کا پتہ ابھی تک معلوم نہیں ہو پایا اور اس کی ماں اپنی بیٹی کی یاد میں لگ بھگ نیم پاگل ہو چکی ہے اور ہر اجنبی سے اپنی بیٹی کا پتہ پوچھتی ہے۔ ان دونوں خواتین کی طرح اور بھی نہ جانے کتنی دوشیزائیں اور خواتین گھروں سے پر اسرار طور پر غائب کر دی گئیں لیکن ابھی تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔گھریلو تشدد کی ایک اور وحشت ناک داستان چند روز قبل دنیا کی نوٹس میں آئی، جس میں ایک یتیم لڑکی آٹھ برسوں سے لگاتار وحشیانہ تشدد کی شکار ہو کر ادھ موئی ہو چکی تھی، اور اپنے لیے انصاف طلب کرنے کے با وجود بھی اسے ہر دروازے سے دھتکار کر باہر کا راستہ دکھایا گیا۔ بالاآخر پولیس نے مجبور ہو کر اس کے شوہر کے خلاف کیس درج کر لیا۔علاؤہ ازین بہت سی ایسی خواتین بھی یہاں سماج میں موجود ہیں جنہیں لگاتار وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن لا علمی کی وجہ سے دنیا ان کے زخموں سے لا علم ہے۔ اور یہ سلسلہ شد و مد کے ساتھ جاری ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا