فہیم اختر
[email protected]
www.fahimakhter.com
انسان کھانے کے لیے جیتا ہے یا جینے کے لیے کھاتا ہے۔دراصل دونوں ہی باتیں اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ اگر انسان کے لئے کھانا کھانا ضروری نہ ہو تاتو پھر کیوں انسان دن رات محنت کرتا اور گھر آکر کھانے کے لیے پکانے کی تیاری کرتا یا غذا کا استعمال کرتا ۔گویا دونوں ہی صورتوں میں غذا انسان کے لیے اہم ہے۔
بیشتر ممالک میں اب بھی عورتیں لذیز پکوان بنا کر اپنے شوہر کو خوش رکھتی ہیں بلکہ اپنی بیویوں کے ہاتھ کے بنے ہوئے لذیز پکوان کو کھاکر زیادہ ترشوہر بھی اپنی بیویوں پر خوب ناز کرتے ہیں۔اس کے علاوہ بچے بوڑھے بھی گھر کی بیوی، بہن ، بیٹیوں سے کھانے کھا کر ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہیں اور اکثر محفلوں میں اس بات کا چرچا بھی ہوتا ہے۔ وہیں اکثر کھانا بنانے میں اگر کوئی چوک ہوجاتی ہے یا پسند ناپسند جب بحث ہوتی ہے تو بات طلاق تک بھی پہنچ جاتی ہے۔
اسی طرح جینے کے لیے بھی کھانا بہت اہم ہے۔ اگر درست غذا نہ دستیاب ہوں تو انسان طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جس سے اس کی جسمانی اور خد و خال پر برا اثر پڑتا ہے۔ غذا سے کمی یا کھانے کی خرابی کے باعث ان کی طبیعت اتنی بگڑ جاتی ہے کہ انہیں یا تو ہسپتال میں بھرتی کرنا پڑتا ہے یا ان کی موت بھی ہو جاتی ہے۔
یورپ اور برطانیہ میں کھانے سے دلچسپی نہ رکھنے کی باعث کئی نوجوان یا تو ہسپتال میں زیر علاج ہیں یا ان کی حالت گوں نا گوں ہیں۔ داکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ مریضوں میں دماغی تناؤ اور دماغی صحت کی وجہ سے ہوتا ہے۔تاہم اس کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ ڈاکٹر ایسے مریضوں کو یا تو ناک سے ٹیوب ڈال کر غذا فراہم کرتے ہیں یا پیٹ میں سوراخ کر کے بھی غذا پہنچائی جاتی ہے۔دونوں ہی صورت میں (Eating Disorder)یعنی کھانے کی خرابی یا نا دلچسپی ہونے کی وجہ سے مریضوں کی شکل و صورت بدل جاتی ہے اور اس کا وزن بہت کم ہوجاتا ہے۔
ایک بات یہ بھی غور کرنے کی ہے کہ بہت سارے لوگ اپنی بیویوں کی عمدہ پکوان سے اتنے مگن ہو کر کھاتے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا پیٹ ان کے سینے کی چوڑائی سے بھی بڑا ہوچکا ہے۔ ایسے لوگ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ جیسے ذیابیطس ، بلڈپریشر، سانس کا پھولنا، دل تک پہنچنے والے نسوں کا بلاک ہونا وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو کر انہی لذیز کھانوں سے محروم ہوجاتے ہیں اوران غذاؤں سے پرہیز شروع کر دیتے ہیں۔
ایک بات اور اہم ہے کہ ہم لوگ کس قدر غذا کو برباد بھی کررہے ہیں۔ بیشتر امیر ممالک میں آئے دن سوشل میڈیا پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ بڑی مقدار میں خوراک کو پھینک رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان ممالک میں بڑے بڑے سوپر اسٹور میں بے حساب طرح طرح کی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں ۔جسے لوگ شاپنگ کرتے ہوئے بنا سوچے سمجھے اسے گھر لے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ آبادی کی کمی اور چھوٹے چھوٹے کنبہ والی فیملی میں اتنی مقدار میں غذا نہیں استعمال نہیں ہوتی۔ لہذا بڑی تعداد میں خوراک کو پھینک دی جاتی ہے۔
ایک عالمی رپورٹ کے مطابق ہر سال 900ملین ٹن سے زیادہ خواراک پھینکی جاتی ہے۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے فوڈ ویسٹ انڈیکس (Food Waste Index)نے انکشاف کیا ہے کہ صارفین کو دستیاب دکانوں، گھریلو اور ریستوراں کے 17% فی صد کھانے سیدھے کوڑے دان میں پھینک دیے جاتے ہیں۔تاہم حیران انگیز طور پر برطانیہ میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کم غذا کوڑے دان میں پھینکی گئی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ممکن ہے اس کی ایک وجہ لوگوں کی اچھی سوچ اور حالات کے مد نظر ایسا ہوا ہو۔
ایسا قیاس کیا جارہا ہے کہ اس سال کے آخر میں عالمی آب و ہوا اور حیاتیاتی تنوع کانفرنس سے پہلے زیادہ تر ممالک پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ 2030ء تک خوراک کو ضائع کرنے کو آدھا کیاجائے۔یونیپ کے ڈائریکٹر انگر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ’ اگر ہم آب و ہوا کی تبدیلی ، فطرت کو نقصان، اور آلودگی اور فضلہ سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو دنیا بھر کے کاروبار ، حکومتوں اور شہریوں کو خوراک کا ضیاع کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے کا ضیاع کم کرنے کے لیے ، اپنے حصے کی منصوبہ بندی کریں اور صحیح مقدار میں چیزوں کو خریدیں۔فریج کو زیادہ ٹھنڈا نہ کریں۔ کھانے کی تاریخ اگر گزر چکی ہے تو اسے فریزر میں رکھ دینا چاہیے۔ان باتوں کا احساس برطانیہ میں لاک ڈاؤن میں ہوا۔ لیکن ایسا اندیشہ ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد خواراک کا ضیاع بڑھ جائے گا۔
(Wrap)ریپ ریسرچ کے مطابق اگر صرف وہی کھاناخریدا جائے جس کی ضرورت ہے توبرطانیہ میں اوسطاً ہرگھرانہ ہرسال £700پونڈ کی بچت کر سکتا ہے۔ریپ کی اس تحقیق کے مطابق ، لاک ڈاؤن کے دوران اسٹوریج کوکنگ نے 2019ء کے مقابلے میں لوگوں کے کھانا ضائع کرنے کی سطح کو 22فی صد کم کر دی۔ لیکن ریپ چیریٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ ’ تازہ ترین بصیرت سے پتہ چلتا ہے کہ جب ہم لاک ڈاؤن سے نکلے گیں تو غذا ضائع کرنے میں اضافے کا امکان ہے‘۔
ایک رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کووڈ سے مرنے والوں میں زیادہ وزن والے افرادکی تعداد زیادہ ہے۔کووڈ سے برطانیہ اور امریکہ میں زیادہ وزن رکھنے والے افراد میں موت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ورلڈ اوبیسیٹی فیڈریشن نے حکومتوں کو فوری طور پر موٹاپا سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ کورونا ویکسن جلد دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ورلڈ اوبیسیٹی فیڈریشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میںکوویڈ سے ہونے والی 25لاکھ اموات میں زیادہ تر لوگوں کا وزن زیادہ یا موٹاپا تھا۔ برطانیہ ، امریکہ ، اٹلی وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاںزیادہ تر کووڈ سے مرنے والوں کا وزن زیادہ تھا۔جبکہ اس کے بر عکس ویتنام ایک ایسا ملک ہے جہاں کم وزن کی وجہ سے کووڈ سے سب سے کم اموات ہوئی ہے۔
بیسویں صدی کے معروف ڈراما نویس ، نقاد، ناول نگار، افسانہ نگار ، اور نوبل انعام یافتہ جارج برنارڈ شا نے کیا خوب کہا ہے کہ ، ’کھانے کی محبت سے زیادہ محبت کرنے والا کوئی نہیں‘۔میں جارج برنارڈ شا کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ کھانے کی محبت ایک ایسی محبت ہے جس کا مجھے اعتراف ہے۔ کیونکہ میں نے دنیا بھر کا سفر کیا ہے اور اُن ممالک کی غذاؤں کے ذریعہ، میں وہاں کی تہذیب اور ثقافت سے اچھی طرح متعارف ہوتاہوں۔
خواراک کی اہمیت اور اس کے ضائع ہونے کی موضوعات اورموٹاپے کے حوالے سے جو بات آج ہم نے آپ تک پہنچائی ہے، مجھے امید ہے کہ ہم سب غذا کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے خوامخواہ ضائع کرنے سے گریز کریں گے۔ اس طرح ممکن ہے دنیامیں بڑھتی ہوئی آلودگی سے ہمیں اور آپ کو کچھ حد تک نجات ضرور ملے ۔ ہم سب کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ خوراک کے ضائع کرنے سے ہمارے ماحول پر اس کا اثر کتنا برا پڑ رہا ہے۔اس کے علاوہ ہمیں اپنی صحت کا خیال رکھتے ہوئے موٹاپے پر نظر رکھنی چاہیے ۔کیونکہ مقدار سے زیادہ کھانا اور موٹاپا بھی ایک آفت ہے جو کسی بھی بیماری کی وجہ بن سکتی ہے۔