"قرآن عظیم میں ترمیم کے لئے سپریم کورٹ آف انڈیا میں پٹیشن دائر ، سازش کیا ہے”

0
0

 

 

 

 

محمد ارشد چوہان

کتاب اللہ کی دوسری سورۃ ‘سورہ بقرہ’ کی دوسری آیت میں قرآن عظیم کو’ لاریب’ کہا گیا ہے-لاریب کا مطلب کہ اسمیں کوئی شک کی گنجائش موجود نہیں ہے – فرقان حمید اللہ کی کتاب ہے جو انسانوں کی راہنمائی کے لئے نازل فرمائی گئی ہے – قرآن کی منفردیت یہ ہے کہ اس کتاب کو تا قیامت اپنی اصل صورت میں بر قرار رہنا ہے – ایک لفظ کا ہیر پھیر تو دور کی بات یہاں علامات کے رد و بدل کی سعی بھی نا ممکن ہے – حجتہ الوادع کے خطبہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ قرآن میں تمہارے پاس چھوڑ کے جا رہا ہوں – اس کتاب کا لفظ لفظ سچائی اور حقیقت پر مبنی ہے – حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مخالفین نے کہا کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسا کلام ہم میں سے کوئی بھی بنا سکتا ہے – جب ان کے دانشوروں نے متبادل دینے کی کوشش کی تو خود انہیں کے لوگ(مخالفین) اپنے بنائے ہوئے جملوں پر ہنسے جو قرآن کے طرز پر بنانے کی کوشش کی گئی تھی – وسیم رضوی نامی شخص نے 12 مارچ کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک پٹیشن دائر کی کہ قرآن میں 26 آیتیں ایسی ہیں جو اسکے بقول انتہا پسندی کو بڑھاوا دیتی ہیں – یہ شخص حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور نرینندر مودی کا بہت بڑا فین ہے – 1995 تا 2020 تک یہ بھارت کی ریاست اتر پردیش میں شیعہ وقف بورڈ کا چیرمین بھی رہ چکا ہے – اس نے مؤقف اپنایا ہے 26 آیتیں قرآن عظیم میں مصنوعی طور پر پہلے تین خلفائے اسلام حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان نے ایڈ کی ہیں – یہ خبر سن کر رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ کتاب اللہ میں ترمیم کے لئے سپریم کورٹ آف انڈیا میں کوئی عرضی دائر کی گئی ہے – یہ عرضی نہ صرف مضحکہ خیز بلکہ حقوق برائے مذہبی آزادی جنکو آئین ہند میں بنیادی حقوق کی حثیت حاصل ہے کے ساتھ کھلا کھلواڑ ہے – آئین ہند میں چھ طرح کے بنیادی حقوق ہیں جن میں حقوق برائے مذہبی آزی آرٹیکل 25 تا 28 بھی شامل ہیں –

اس بابت مسلمانوں کو بردباری اور تحمل سے کام لینا ہے – ایک دوسرے پر الزام تراشی سے پرہیز ضروری ہے – یہ سب ایک سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت ہو رہا ہے تاکہ مسلم کمیونٹی آپس میں ہی دو دو ہاتھ ہوں اور ایکدوسرے کے گریبان پکڑیں – یہ ٹھیک اسی طرح کا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے جیسا پہلے ہوتا آیا ہے – یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ 2014 کیبعد تسلسل سے چلا آرہا ہے -بھارت میں بے روزگاری عروج پر ہے – جی ڈی پی میں بتدریج گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے – ادھر کسان اندولن کو سو پلس دن سے زیادہ ہو چکے ہیں اور حکومت ان کو راضی کرنے میں ابتک مکمل ناکام ہے – دیش کے اصل مدعوں سے توجہ ہٹانے کے لئے ایسے کارندے میدان میں چھوڑ دیئے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ کر ایسی چیزوں پر ہو جن کا حکومت سے کچھ لینا دینا نہ ہو-اس بد قسمت شخص کو یہ معلوم نہیں کہ مسلمان چاہے اسکا تعلق کسی بھی مکاتب فکر سے ہو حرمت قرآن کے لئے اپنی جان کی بازی دینے سے بھی نہیں ڈرتے – یہ کوئی طلاق ثلاثہ جیسا ایشو نہیں کہ جس پر مختلف مکاتب فکر میں الگ الگ آرا – یہ ایسا حساس معاملہ ہے جس پر امت متفق ہے اور چودہ سو سال میں کبھی زیر بھی نہیں آیا اور نہ ہی آ سکتا ہے – ملک بھر کے مسلمان اس چھچھوری حرکت پر اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں –

قرآن کسی ایک مخصوص علاقے یا ملک تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کے بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے – عرضی دائر کرنے والے کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ ایک مخصوص علاقے میں اسمیں ترمیم کیسے ہو سکتی ہے – یہ مسئلہ امت کا ہے اور خدانخواستہ پوری دنیا کے مسلمان بھی اگر ایسی کوئی کوشش کریں تو نہیں کر سکتے – اسلامو فوبیا اس دور میں سر چڑھ کے بول رہا- یہ حرکت بھی اسی کی ایک کڑی ہے – ایسے مفتن صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک لابی جو اسلام کیخلاف ہرزہ سرائی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے – اس ذہنیت کے بقول دین متین دہشت گردی پھیلاتا ہے – اس لابی کے نام نہاد دانشور ہمیشہ جہاد کی غلط ملط تشریح کر کے لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں کہ دیکھو جی اسلام تمہارے خلاف ہے وغیرہ – اس اشتعال انگیزی کا رزلٹ مختلف ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہے مثلاً فرانس میں دیکھا کہ کسطرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون اور خاکے بنائے گئے اور سرکاری عمارت پر لٹکائے گئے – نیوزی لینڈ کی مسجد میں نمازیوں کو گولیوں سے بھن دیا گیا، چین کے ایغور میں مسلمانوں کیساتھ کیا ہو رہا ہے، میانمار کے مسلمانوں کی نسل کشی، اور حال ہی کی تازہ خبر ہے کہ سری لنکا میں حجاب پر پابندی لگائی گئی ہے -مخصوص اسلام مخالف لابی جو اسلامو فوبیا نامی بیماری کا شکار ہے نے ایسے حالات بنا دیئے ہیں کہ مسلمان کو داڑھی رکھنا اور کرتا پاجامہ زیب تن کرنا اجیرن بنتا جا رہا ہے –

آئینی پہلوؤں سے یہ کیس بالکل کمزور ہے- ابھی تک تو سپریم کورٹ نے اسے سماعت کے لئے بھی منظور نہیں کیا – عدالت عظمیٰ کو اس کیس کو ناقابل سماعت قرار دے کر عرضی گذار کیخلاف عدالت کا قیمتی وقت ضائع کرنے پر جرمانہ بھی عائد کر نا چاہیے – اس پٹیشن سے نہ صرف مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں بلکہ یہ ایک طرح کی نفرت انگیزی ہے جو مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے مترادف ہے -مسلمانوں سے گزارش ہے کہ صبر کا دامن تھامیں رکھیں – ڈھنگ سے انٹیلیکچول لیول پر ایسے لوگوں کو لاجواب کریں اور سازش کو ناکام بنائیں –
ای میل : [email protected]

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا