اردو کا ایک ناقابل فراموش شاعر: راحت اندوری

0
0

 

 

 

 

جاوید
راحت اندوری اردو غزل گوئی کے لیے پوری اردو دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ غزل گو شاعروں کی بھیڑ میں اپنی شناخت قائم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ راحت اندوری نے اپنی کوششوں سے ایک الگ پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ان کی غزلیں اپنی زمین، اپنے عہد اور اپنی تہذیب سے جڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں علامتیں اور استعارے اپنی زمین سے حاصل کی ہیں۔ منظر نگاری ، فطرت کی عکاسی اور چرند پرند کے بیان میں انہوں نے اپنے ماحول کا پورا خیال رکھا ہے۔ ڈاکٹر بشیر بدر نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’آج کی نئی غزل میں راحت اندروی کی شاعری منفرد انداز کا خوبصورت اظہار ہے کہ غزل کی روایت ہماری تہذیب کی مضبوط روایت ہے۔ اردو غزل کی ابتدا سے فیضؔ و فراقؔ تک ہر اہم اور سچے شاعر نے غزل کی مقررہ لفظیات میں اپنی انفرادیت کے نقش ابھارے ہیں۔ غزل کے مخصوص الفاظ، مخصوص تلازمہ اور مخصوص استعاروں کو اپنے نئے تخیل اور نئے تجربات کو اہم شاعروں نے اس طرح برتا ہے کہ روایت کے بطن سے تازہ کار جدتیں پید اہوتی ہیں۔ راحت اندوری انہیں میں سے ایک ہیں۔ ‘‘
(راحت اندوری شاعری اور شخص۔ لمحے لمحے اندور، ص:۱۰۹)
راحت اندوری کی غزل میں زندگی کی قوت ، اصلی حقیقتوں کا ادراک، اپنی تہذیبی اور مذہبی روحانیت کا ایسا خوبصورت امتزاج ہے کہ اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے:
ہم نے دو سو سال سے گھر میں طوطے پال رکھے ہیں
میر تقی کے شعر سنانا کون بڑی فنکاری ہے
٭٭
زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر
راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر
٭٭
میں پتھروں کی طرح گونگے سامعین میں تھا
مجھے سناتے رہے لوگ واقعہ میرا
٭٭
ہم زمین ناپنے والوں کو سب کچھ ہے خبر
کس جگہ پانی رکھا ہے اور کہاں کوہسار ہے
٭٭
ہم فقیروں کے لیے تو ساری دنیا ایک ہے
ہم جہاں جائیں گے اپنا گھر اٹھالے جائیں گے
راحت اندوری نے اپنی غزلوںمیں سورج اور پرندے کا بار بار استعمال کیا ہے۔ ان کی شاعری میں سورج ایک بلیغ استعارہ ہے۔ پر ند اور سورج کے استعارات میں راحت اندوری نے ایسے ایسے مضامین ادا کیے ہیں کہ ان کے تخلیقی ذہن کی ہمہ گیریت کا احساس ہوتا ہے۔ ’سورج‘ روشنی کا استعارہ ہے اور ’پرندہ‘ پرواز کی علامت ہے۔ وہ استعارے کے ذریعہ کہنا چاہتے ہیں کہ مجھے خدا کے گھر میں بھی وہ مقام نہیں ملا جو ملنا چاہئے ۔ معاشی بدحالی کا اظہار بھی وہ ’کبوتر‘ کے حوالے سے کرتے ہیں۔ پرندوں سے گہرا لگائو اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پرواز کے امکانات سے محروم نہیں رہنا چاہتے ہیں۔
اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں
ایسے ضدی ہیں پرندے کہ اڑا بھی نہ سکوں
٭٭
طاق میں بیٹھا ہوا بوڑھا کبوتر رو دیا
جس میں ڈیرہ تھا اسی مسجد میں تالے پڑ گئے
٭٭
دھوپ اور چھائوں کے مالک میرے بوڑھے سورج
میرے سائے کو میرے قد کے برابر کردے
غزلیہ اشعارکہہ دینا جتنا آسان ہے حقیقی معنوں میں غزل کہنا اسی قدر دشوار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غزل تلوار کی دھار پر چلنے کا نام ہے۔ غزل پل صراط پر سے صحیح و سالم گزر جانے کا آرٹ ہے۔ غزل کی دروں بینی اس کی لطیف رمزیت، حسن اشاریت اس کا منفرد لہجہ، اس کا شائستہ انداز ، اس کی تہہ داری، اس کے اعجاز کا صحر اور اس کے اختصار کی فسوںکاری سے واقف ہوئے بغیر غزل کو غزل بناکر پیش کرناممکن نہیں ہے۔
زندگی کے دوسروں شعبوں کی طرح افراط و تفریط اور شکست و ریخت کا عمل شعر سخن میں ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ راحت اندوری عصری آگہی کی روشنی میں وقت کے ساتھ چلتے رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں خلیل احمد صدیقی فرماتے ہیں:
’’راحت نے اردو غزل کو اس قدر سہل اور جذباتی بنادیا ہے کہ کسی کو یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ اس لفظ کے کیا معنی ہیں یا اس شعر کا کیا مطلب ہے۔ اس کے شعر پڑھنے کا انداز بھی نرالا ہے۔ وہ اپنے اشعار اس طرح پڑھتے ہیں گویا ہر شعر خود بول رہا ہو، یا ہر احساس خود جاگ اٹھا ہو یا جوش دل خود ابل رہا ہو۔ یا غزل کا نازک بدن جوشِ غم سے پھٹ پڑا ہو ۔ یہ بھی سچ ہے کہ راحت کی غزلوں میں نامانوس الفاظ یا عمل اصطلاحات کی بھرمار نہیں۔ ان کے کلام کی زبان عام بول چال کا مہذب اور سنجیدہ روپ ہے۔ ‘‘
(زندگی کی تلخیوں کا شاعر۔ خلیل احمد صدیقی، مشمولہ ’’لمحے لمحے‘‘ ، ص:۱۶۶)
کاغذوں کی خموشیاں بھی پڑھ
ایک اک حرف کو صدا بھی مان
٭٭

دنوں کے بعد اچانک تمہاری یاد آئی
خدا کا شکر ہے کہ اس وقت باوضو ہم تھے
٭٭
روشنی ہی روشنی ہے ہر طرف
میری آنکھوں میں منور کون ہے
٭٭
مجھ سے ملنے ہی نہیں دیتا مجھے
کیا پتہ یہ میرے اندر کون ہے
راحت کی شاعری حیات کا وہ نغمہ ہے جس میں انسانی کرب چھپا ہے۔ وہ زندگی کی تلخی اور اس کے رد عمل کو بڑی ذہانت اور فنکارانہ مہارت کے ساتھ پیش کردیتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ حالات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اور اس تبدیلی کے بطن سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ شاعر کس عہد سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا بھی جائزہ لیا جائے۔ شاعر جس عہد اورجس دور سے تعلق رکھتا ہے اس عہد میں پیدا شدہ مسائل سے بھی اس کا براہ راست تعلق ہوتا ہے اور ان مسائل کی عکاسی بھی اس کی تخلیق میں رونما ہوتی ہے۔ راحت اندوری اپنے دور سے اچھی طرح واقف تھے اور اس دور کے مسائل سے بھی۔ اس لیے ان کی غزلوں میں اس عہد کے مسائل کا ذکر بار بار کیا جاتا رہا ہے:
طوفاں سے آنکھ ملائو، سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کر دریا پار کرو
٭٭
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زدمیں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
آج جو صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرایے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
راحت اندوری کی شاعری انسانی درندگی کی شاعری ہے، ہوسناکیوں کی شاعری ہے۔ اقتدار کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی شاعری ہے۔ عصمت ملیح آبادی نے کتنا درست فرمایا ہے:
’’ان کی شاعری عوام کے دل کی آواز ہے وہ قاری کا دل دھڑکانے اور اسے اپنی جانب متوجہ کرانے کا فن خوب جانتے ہیں۔ ان کی زبان اور قلم سے نکلنے والے اشعار سیدھے دل میں اتر کر روح کو جھنجھوڑتے ہیں اور غور و فکر کے در وا کر دیتے ہیں۔‘‘
(غزل کا جیون ساتھی، عصمت ملیح آبادی، مشمولہ ’’لمحے لمحے‘‘ ص:۱۶۹)
ہے دھواں چاروں طرف بینائی لے کر کیا کروں
صرف آنکھیں ہی نہیں منظر بھی ہونا چاہئے
٭٭
فیصلے لمحات کے نسلوں پہ بھاری ہوگئے
باپ حاکم تھا، مگر بیٹے بھکاری ہوگئے
٭٭
کسی کنیز کی قسمت چمک بھی سکتی ہے
سویرے صاحب عالم کی واپسی ہوگی
٭٭
راحت اندوری کی غزل کا بنیادی مزاج عصری صداقتوں اور سفاکیوں کابے باکانہ اظہار ہے۔ اردو زبان کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر راحت اندوری کی غزل کا خطیبانہ آہنگ اردو سے محبت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جس کے لئے وہ ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے۔ اللہ کرے کہ ان کے کلام کو بقائے دوام حاصل ہوجائے:
چراتا ہوں اب آنکھیں آئینے سے
خداکا سامنا ہونے لگا تھا
٭٭
جانمازوں کی طرح نور میں اجلائی ہے
رات بھر جیسے فرشتوں نے عبادت کی ہے
٭٭
ببول آنگن میں بویا جارہا ہے
پہاڑوں پر صنوبر لگ رہے ہیں
راحت اندوری دوسروں کے دکھ درد سے بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔ ان کی غزلوں سے ان کا اندرونی کرب و انتشار ظاہر ہوتا ہے۔ غزل ایک ایسی صنف ہے جس کا تعلق اندرونِ بینی اور داخلیت سے ہے۔ شاعر و ادیب جب کسی حادثے اور واقعے کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے تو پہلے اسے اپنے دل کی بھٹی میں تپاتا ہے۔ جب وہ خون جگر کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو خود بخود غزل کے پیکرمیں ڈھل جاتا ہے۔ راحت اندروی کی فکرمیں گہرائی اور گیرائی ہے۔ انہیں اپنے گرد و پیش کی دنیا کا احساس ہے۔ دراصل وہ خود سماجی، سیاسی ، اقتصادی اور تہذیبی بحران سے گزر چکے ہیں۔ اس لیے ان کی غزلوں میں عصر حاضر کی روح رچی بسی ہے:
ابھی غنیمت ہے صبر میرا
ابھی لبالب بھرا نہیں ہوں
وہ مجھ کو مردہ سمجھ رہا ہے
اسے کہو میں مرا نہیں ہوں
راحت اندروی اجتماعی دردکے شاعر ہیں۔ ان کے شعر میں ان کی اپنی زندگی کا عکس کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ ان کا ذہن ایک ایسا ہمہ جہت پرندہ ہے۔ جو صرف ایک رخ پر اڑنے کا قائل نہیں ہے۔ وہ اپنی پرواز کے دوران اتنی اونچائی تک پہنچ جاتے ہیں جہاں سے ماضی کے خوش رنگ آثار نظر آتے ہیں اور وہ قلعہ بھی دکھائی دیتا ہے جو ملک و ملت کی شکست و ریخت کے بعد بکھرا ہوا ہے:
ستاروں آئو میری راہ میں بکھر جائو
یہ میرا حکم ہے حالانکہ کچھ نہیں ہوں میں
٭٭
ہم لوگوں سے جھک کر ملتے رہتے ہیں
قامت کی پیمائش ہوتی رہتی ہے
٭٭
سپنے بانٹتا پھرتا ہے ہر طرف سورج
کبھی جو ہاتھ لگا تو نچوڑ دوں گا اسے
٭٭
مزہ چکھا کے مانا ہے میں نے بھی دنیا کو
سمجھ رہا ہے کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اس کو
راحت اندوری آسمان پر اڑنے کا ہنر جانتے ہیں وہ کسی کی حوصلہ شکنی سے گھبرانے والے بھی نہیں ہیں۔ وہ کسی کی پرواہ کیے بغیر آسمان کو چھونے کی بے خوف و خطر کوشش کرتے ہیں لیکن اپنے قدم زمین سے بھی جمائے رکھتے ہیں۔
مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ راحت اندوری کی غزلوں کے موضوعات گونا گوں ہیں۔ روایتی ترقی پسندی اور جدیدیت کا اثر انہوں نے قبول تو کیا ہے لیکن کسی کو پوری طرح اپنایا نہیں ہے بلکہ اپنے لیے انہوں نے خود ایک نئی راہ نکالی ہے۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا