’فریڈم ہائوس‘ کی رپورٹ اور ہماری جمہوریت

0
0

(اختر جمال عثمانی۔ بارہ بنکی mb.9450191754, )
امریکی تھنک ٹینک ’فریڈم ہائوس ‘کا ہندوستان کو جزوی جمہوریت کی کٹیگری میں رکھنا ہمارے لئے شرم کی بات ہے یا تشویش کی۔ اس میں الگ الگ رائے ہو سکتی ہیں۔فریڈم ہائوس کی رپورٹ کہتی ہے ’’کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں موجودہ حکومت کے دوران ہندوستان جمہوریت کے معاملے میں پیچھے ہوتا جا رہا ہے۔ جمہوری آذادی میں نہ صرف ہندوستان پیچھے ہو رہا ہے بلکہ ہندوستان نے ایک عالمی جمہوریت کے قائد کا راستہ بدل کر ایک شدت پسند ہندو مفاد والے ملک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کی رپورٹ میں مسلمان شہریوں کے خلاف ہجومی تشدد، صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور عدالتی مداخلت کا ذکر ہے۔ اس رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ بھارت نے دنیا میں جمہوری عمل اختیار کرنے والے ممالک کے طور پر اپنا رتبہ بدل کر چین جیسے ممالک کی طرح تانا شاہی رخ اختیار کر لیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اب ڈکٹیٹر شپ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سب کے لئے برابری کے حقوق اور سب کی شمولیت کے بنیادی اصولوں کو چھوڑ کرہندوقوم پرستی کو آگے بڑھانے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں کرونا کے دوران بے ڈھنگے طریقے سے لاگو کئے گئے لا ک ڈائون کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس لاک ڈائون کے سبب لاکھوں مزدوروں اور محنت کشوں کے سامنے روزی روٹی کا بحران پیدا ہوگیا تھا بلکہ انہیں سیکڑوں میل پیدل چل کر اپنے گھروں تک جانا پڑا تھا۔ رپورٹ میں کورونا انفیکشن کو لیکر مسلمانوں کو غلط طریقے سے بلی کا بکرا بنانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ یہ رپورٹ 01 جنوری 2020 سے لیکر 31 دسمبر 2020 تک کے واقعات کے تناظر میں تیار کی گئی ہے
ایسا نہیں ہے کہ کسی باہری ادارے یا لیڈر نے ہمارے معاملات پر پہلی بار کوئی منفی تبصرہ کیا ہو، پچھلے سال دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پر الزام عائد کئے تھے کہ وہ انسانی حقوق تنظیموں کے خلاف مہم چلا رہی ہے ان کے بینک اکائونٹ بند کر دئے گئے ہیں اور انکو بے مثال ہراسانی کا سامنا ہے اس لئے وہ اپنا کام بند کر رہے ہیں۔ اس سے قبل 2019 میں ٹائم مییگزین نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ڈوائیڈر ا نچیف قرار دیا تھا۔ا س کے علاوہ حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ہیومن رائیٹ واچ اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق بھی ہندوستان پر سخت تنقید کر چکے ہیں۔
جیسا کہ ہر بار ہوتا آیا ہے حکومت اور حکمراں پارٹی کے ذریعہ اس رپورٹ کو مسترد کر دیا جائیگا۔ لیکن کیا ہم خود احتسابی سے آنکھیں چراتے رہیں گے۔
آ ذادی کے بعد ہمارے قومی رہنمائوں نے جو آئین تشکیل دیا اس کے مطابق ملک میں جمہوری نظام قائم ہوا۔آئین کی تمہید میں کہا گیا ہے’’ ہم بھارت کے لوگ متانت اور سنجیدگی سے عزم کرتے ہیںکہ بھارت کو ایک مقتدر سوشلسٹ ،سیکولر ملک اور اس کے تمام شہریوں کے لئے سماجی معاشی اور سیاسی انصاف اظہار خیال ، عقیدہ مذہب اور عبادت کی آذادی ،سب کاوقار ،برابری کے مواقع حاصل کرہونگے اور ان سب مین بھائی چارے فروغ دینگے جس سے فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد اور سا لمیت کو یقینی بنایا جا سکے۔‘‘
آذادی کے بعد جمہوری نظام قائم ہوا ۔ یوں تو جمہوریت کی ابتدا میں1935 ہی گورنمنت آف انڈیا ایکٹ کے تحت کچھ جمہوری ادارے قائم کر کے ہو گئی تھی، لیکن آذادی کے بعد 26 جنوری 1950 سے نئے آئین کے نفاظ کے بعد اصل جمہوریت قائم ہوئی۔ ٓبادی کے لحاظ سے اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا شرف حاصل رہا۔ ۔ دنیا کے لئے مثال مانی جانے والی جمہوریت لگاتار ترقی کرتی گئی ۔ اداروں کو آذادی حاصل رہی۔ چند ماہ کے مختصر وقفے کے علاوہ جب کہ اس وقت کی وزیر اعٰظم مسز اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافظ کر کے بنیادی حقوق سلب کئے تھے باقی وقت جمہوریت کے لئے اچھا گزرتا رہا۔ عوام اپنے ووٹ کی طا قت سے حکومتیں تبدیل کرتے رہے۔1947 کے بعد آذاد ہونے والوں میں بھارت وہ واحدملک ہے جہاں عوام کے مختلف زبانیں بولنے اور مختلف مذاہب پر عمل پیرا ہونے کے باوجود ایک مستحکم اور کامیاب جمہوری حکومت قائم ہو ئی دنیا میں ہندوستان کا ڈنکا بجنے لگا۔ ڈنکا تا تو اب بھی بج رہا ہر مگر ذرا محتلف انداز میں۔ ۔
آج ملک میں جمہوریت کو جو خطرات لا حق ہیںوہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ہندوستان کی آذادی اور جمہوریت کو اس سے بڑھ کر کیا خطرہ ہو سکتا ہے کہ آئین کا حلف لے کر اقتدار میں آنے والے لوگ ہی آئین کی توہین کے مرتکب ہوں۔ اس کو ما ننے سے انکار کریں اور اس کو بدلنے کی در پے رہیں۔ ایوانوں میں اکثریت کے زعم میں من مانے قوانین پاس کریں۔ جب سے نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل ہوئی ہے آئین کو نئے سرے سے لکھنے کی مانگ شروع ہو گئی ہے۔ ایک ملک، ایک کلچر اور ایک زبان کا نظریہ لاگو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کو بھی ثقافتی شناخت کے بہانے ہندو قرار دیا جا رہا ہے۔آئین میں درج سیکولر سوشلسٹ جیسے الفاظ کو خارج کرنے کی مانگ اٹھائی جاتی ہے اس دلیل کے ساتھ کہ ’ سیکولر‘ لفظ آئین کے اصل مسودے میں شامل نہیں تھا۔ اسے مسز گاندھی کے دور میں آئین میں ترمیم کر کے شامل کیا گیا تھا۔ کثرت میں وحدت کا فلسفہ ہی ہندوستان کی عظمت کی دلیل رہا ہے۔ آذادی جیسی عظیم دولت برقرار رہنے کی بنیادی شرط ہی سیکولر آئین اور جمہوریت ہے۔ جمہوریت کو کچھ مزید خطرات لا حق ہیں جیسے کہ ،آج کی سیاست میں ایمانداری کو اہمیت حاصل نہیں ہے۔ نظریہ بھی ثانوی چیز ہے پاٹی کے عام کارکوں کی اب اہمیت نہیں ہے بیچاروں کی زندگی خدمت گذاری میں ہی گذر جاتی ہے۔ الیکشن میں ٹکٹ وہی پانے کے لائق ٹہرتے ہیں جو کروروں روپے خرچ کرنے کے متحمل ہوں ۔ یا ان کی ذات کا بڑا ووٹ بینک ہو، یا وہ با اثر لیڈر جو اپنی پارٹی کسی لالچ میں چھوڑ کر آئے ہوں۔ مجرمانہ رکارڈ کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس کی وج سے ایوان کے ممبران کی بڑی تعداد خواہ کسی بھی پارٹی کے ہوں مجرمانہ رکارڈ والے ہوتے ہیں۔مذہب اور مذہبی علامات کا استعمال جس کی سب سے بڑی مثال موجودہ حکمراں پارٹی ہے جس نے مذہنی سیاست کی بنیاد پر اتنا عروج حاصل کیا ہے۔ بہر حال ہم فریڈم ہائوس کی رپورٹ کو جانب دار بتا کربھلے ہی مسترد کر دیں ۔ لیکن ہماری جمہوریت جس سمت جا رہی ہے اس سے آنکھیں موندنے سے نہ ملک کا بھلا ہوگا اور نہ جمہوریت کا۔ آج ملک کی تکثیریت کو خطرہ ہے۔ حکومت کے خلاف آواز اٹھانا نا ممکن ہوتا جارہا ہے صرف حکومت سے الگ نظریہ کی بنیاد پر ملک کا غدار قرار دیا جارہا ہے ، میڈیا کا بڑا حصہ حکومت کی چاپلوسی پر آمادہ ہے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ غیروں کی انگلیاں نہ اٹھیں تو ہم اپنے ملک میں جمہوریت کی روح کو بحال کرنا ہو گا۔ ٭٭ ٭
اختر جمال عثمانی، دیوہ روڈ، رفیع نگر۔ بارہ بنکی
یو پی۔ انڈیا۔۲۲۵۰۰۱
. +919450191754 mbموبائیل۔۹۴۵۰۱۹۱۷۵۴
Email: [email protected]

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ٓٓ

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا