80 فیصد خواتین پنچایت راج کی ابجد سے بھی نا واقف!،حقوق نسواں کی دھجیاں اڑانے میں سرکاری ملازمین بھی پیش پیش
محمد اشفاق
کشتواڑ؍؍ ضلع کشتواڑ میں پنچائیتی اداروں میں خواتین کی با اختیاری اور خودمختاری آج بھی ایک حسین اور نا قابلِ تعبیر خواب ہے۔ حکومت خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے پنچائتی اداروں میں کئی نشستیں مخصوص تو رکھتی ہے لیکن اس کا فایدہ بھی مرد اٹھا لیتے ہیں۔ یعنی کہ خواتین پنچائتی نمائندگان کے شوہر، بھائی یا پھر والد اپنے ذاتی مفادات کے لئے خواتین کے کندھوں پر بندوق رکھنے سے بھی باز نہیں آتے۔اس سلسلے میں وادی چناب کے ضلع کشتواڑ میں خواتین کی با اختیاری اور حقوق نسواں کی کشتیاں پوری طرح سے ڈوب چکی ہیں۔ ضلع کشتواڑ جہاں درجنوں گرام پنچائتیں اور ان سے ملحقہ وارڈ خواتیں کے لئے مخصوص رکھے گئے تھے مرد زہریلے سانپوں کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ چکے ہیں اور ہر ستم رسیدہ اور غریب شخص کو ڈسنے کے لئے تیار بیٹھے ہوئے ہیں۔ خواتین کی جگہ خود کو سرپنچ اور پنچ تصور کرنے والے مردوں نے گرام پنچایتوں میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا بازار گرم کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سرکاری خزانے کو لوٹنے اور غریبوں پہ مظالم روا رکھنے کے لئے وہ کسی بھی قانون کا پاس و لحاظ نہیں رکھتے۔73 وین قانونی ترمیم کے مطابق پنچائت راج کے تحت خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے ان کے لئے نشستیں مخصوص رکھی جائیں جس کے ذریعے خواتین کو مردوں کے برا بر حقوق ،سیاسی برابری اور سماج میں اپنا مقام مل سکیں۔ لیکن یہاں بجائے خواتین کو با اختیار بنانے کے ان کے ہاتھوں سے قلم تک چھین لیا جاتا ہے اور وہ بس مہرے کے طور پر استعمال ہوتی آ رہی پیں۔ضلع کشتواڑ کی درجنوں پنچایتوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق خواتین پنچائتی ممبران کی جگہ دفتروں اور دیگر اداروں میں گھومنے والے مرد اکثر غریبوں کا استحصال کرنے میں پیش پیش ہیں۔خوتین کے حقوق چھین کر ان کی جگہ خود کو سرپنچ اور پنچ ظاہر کرنے والے اکثر مردوں میں زیادہ تر سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں جو کہ اپنے فرائض منصبی انجام دینے میں کوتاہی کرنے کے میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق پہ شب خون مارنے میں بھی پیش پیش ہیں یوں دو دو ہاتھوں سرکاری خزانے کو لوٹنے میں مگن ہیں۔تحقیقات کے مطابق اکثر سرکاری ملازمین جن میں اساتذہ ، محکمہ دہی ترقی کے ملازمین ، اور دیگر سرکاری ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین کھلے عام سرکار کی طرف سے ملازمین کے لئے طے شدہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی میں ملوث ہیں، اور اپنے فرائض منصبی انجام دینے کی بجائے دفاتر کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ اور حقیقت میں سرکاری خزانے کو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف عمل ہیں۔