رساجاودانی ایک ہمہ جہت شخص وشاعر
۰۰۰
پروفیسرشہاب عنایت ملک
94191-81351
۰۰۰
اُردواورکشمیری کے کہنہ مشق شاعروفلسفی رساؔجاودانی کوآج ہم سے بچھڑے ہوئے 39 سال کاعرصہ گزرچکاہے لیکن اس کے باوجودان کی شہرت وعظمت میں اب تک کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے ۔وجہ ان کی شعری عظمت اورفلسفیانہ خیالات ہیں۔کشمیری شاعری کے حوالے سے اگربات کی جائے تورساؔ آج بھی اُتنے ہی مقبول ہیں جتنے اپنے زمانے میں تھے۔وجہ اُن کے وہ عشقیہ ،نعتیہ اورفلسفیانہ اشعارہیں جوآج بھی ہرکشمیری کی زبان پرعام ہیں ۔اپنے آپ کورسول میرؔ کاپیروماننے والے رساؔجاودانی نے کشمیری شاعری میں جوگہری چھاپ چھوڑی اُس کااعتراف کشمیری زبان کے ہربڑے نقادنے فخریہ طورپرکیاہے۔محمدیوسف ٹینگ تورساؔکوکشمیری غزل کابادشاہ قراردیتے ہوئے تحریرکرتے ہیں کہ پوری کشمیری شاعری میں رساؔ جاودانی وہ پہلے اورآخری کشمیری شاعرہیں جنھوں نے فنی لوازمات کومدنظررکھتے ہوئے کشمیری زبان کوبعض ایسی شہرت یافتہ غزلوں سے نوازا جوآج بھی رساؔ کوپائندہ رکھے ہوئے ہیں اورجب تک کشمیری زبان وادی میں بولی اورپڑھی جائے گی یہ غزلیں تب تک زندہ رہیں گی۔پروفیسرحامدی کاشمیری،پروفیسررحمان راہی،موتی لال ساقی، پروفیسرمرغوب بانہالی ،پروفیسرپشپ ،پروفیسرکے این پنڈتا ،امین کامل ودیگرکشمیری زبان کے وہ بلندپایہ نقادہیں جنھوں نے رساؔ کی عظمت کااعتراف دوٹوک الفاظ میں کیاہے۔بھدرواہ جیسے دوردرازعلاقے میں رہنے کے باوجودانہوں نے کشمیری زبان وادب میں جس طرح اپنالوہامنوایایہ اُن کی عظمت کی بہت بڑی دلیل ہے ۔اگرچہ کہ انہوں نے اُردوزبان میں بھی شاعری کرکے اپنالوہامنوایا ہے لیکن رساؔ کی کشمیری غزل کوجب گلوکار اپنی آوازکاپیراہن عطاکرتے ہیں تومحفل میں ایک عجیب قسم کاسرورچھاجاتاہے اورسننے والاداددیئے بنانہیں رہتاہے۔غلام نبی ڈولوال، غلام حسن صوفی،راج بیگم،کیلاش مہرا، شمیمہ دیو ،وجے ملا جیسے مایہ نازگلوکاروں کے علاوہ اب نئے دورکے گلوکارمثلاً راشدجہانگیر ،شازیہ بشیر ،زلیخافرید ،گلزارگنائی ،دیپالی واتل ،وحیدجیلانی اورراجومنگی وغیرہ جس طرح سے رساؔ کے کلام کونئے آہنگ کے ساتھ موسیقی کاپیراہن عطاکررہے ہیں اُس سے نئی نسل میں رساؔ کی کشمیری شاعری بے حدمقبول ہوتی جارہی ہے ۔ان غزلوں میں رسا ؔ نے جہاں رومانی موضوعات کوپیش کیاہے وہیں ان غزلوں میں قومی یکجہتی اورفلسفیانہ خیالات کی آمیزش بھی ملتی ہے اوریہی وہ عناصر ہیں جورساؔ جاودانی کوکشمیری کابڑاشاعربناتی ہیں ۔ موسیقیت سے لبریز رساؔ کی یہ غزلیں جب ریڈیوکشمیرسری نگرسے نشرہوتی ہیں توسننے والا ایک عجیب طرح کی کیفیت سے دوچارہوتاہے۔رساؔ نے غالبؔ کی طرح بہت کم شاعری کی ہے لیکن غالب ؔ کی طرح ہی اُن کاکلام کم ہونے کے باوجودمعتبر ہے ۔رساؔ جاودانی کامانناتھا کہ بسیارنویسی سے شاعری کافن مجروح ہوتاہے ۔شعروہ ہوجومعنی کے اعتبارسے بھی بلندہواورفن کے اعتبارسے بھی ۔اپنے ایک انٹرویومیں محمدیوسف ٹینگ کے ساتھ گفتگوکرتے ہوئے انہوںنے اقبال کوایک بحرذخارقراردیاتھا اورغالب ؔ کوایک آب جو۔ انہوں نے خودآپ جوسے ہی پیاس بجھانے کی بات کی تھی۔ کشمیری زبان میں رساؔ جاودانی کے دومجموعے شائع ہوچکے ہیں اوراُردومیں بھی دو۔اب چندسال پہلے قارئین کے اصرارپررساؔ جاودانی کااُردواورکشمیری کلیات ’’کلیاتِ رساؔ‘‘ کے نام سے رساؔجاودانی میموریل لٹریری سوسائٹی نے شائع کرکے قارئین کی دیرینہ مانگ کوپوراکردیاہے۔ اس کلیات کے مولف رساؔجاودانی کے فرزندارجمند جناب تنویرابن رساؔ ہیں جب کہ اس کاایک مفصل دیباچہ ریاست کے نامورمورخ اورشاعرجناب اسیرؔکشتواڑی نے تحریرکیاہے ۔اسیرؔکایہ دیباچہ رساؔ کی شاعری اورشخصیت کوسمجھنے کے لیے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتاہے جس میں انہوں نے رساؔ کی شاعری اورشخصیت کاجائزہ لیتے ہوئے اُنہیں سادگی ،نفاست،پرکاری اورقومی یکجہتی کامجسمہ قراردیا ہے ۔رساؔ نے شاعری کاآغاز اگرچہ کہ اُردوسے کیااوربڑے عرصے تک اسی زبان میں طبع آزمائی کرکے برصغیرکے اُردوادبی حلقوں میں اپنے لئے ایک الگ پہچان بنائی لیکن بعدمیں کشتواڑمیں ایک زیارت پرانہیں ایک بزرگ خواب میں آئے جنھوں نے مادری زبان میں شاعری کرنے کی تلقین کی ۔پھرکیاتھا رساؔ نے ایک بارجب کشمیری شاعری شروع کی توپیچھے مڑکرنہیں دیکھا۔کشمیری زبان کوایسی غزلوں سے مالا مال کردیاکہ جورہتی دُنیاتک اُن کے نام کوزندہ رکھیں گی۔ غلام نبی ڈولوال ،غلام حسن صوفی ،راج بیگم ،کیلاش مہرااور دوسرے کشمیری کے بڑے گلوکار رساؔ کی غزلوں کوموسیقی کاپیراہن عطاکرنے میں فخرمحسوس کرنے لگے ۔ان سبھی گلوکاروں کی شہرت کاسبب رساؔ کی شاندار اورجاندارغزلیں ہی بنیں۔محبت،اخوت ،آپسی بھائی چارہ ،قومی یکجہتی اور مذہبی ہم آہنگی کاجودرس رساؔ نے اپنی اُردوشاعری سے دیاہے اس کی مثال ہم ان کے مندرجہ ذیل اشعارسے دے سکتے ہیں۔ اُردواورکشمیری کے کہنہ مشق شاعروفلسفی رساؔجاودانی کوآج ہم سے بچھڑے ہوئے 39 سال کاعرصہ گزرچکاہے لیکن اس کے باوجودان کی شہرت وعظمت میں اب تک کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے ۔وجہ ان کی شعری عظمت اورفلسفیانہ خیالات ہیں۔کشمیری شاعری کے حوالے سے اگربات کی جائے تورساؔ آج بھی اُتنے ہی مقبول ہیں جتنے اپنے زمانے میں تھے۔وجہ اُن کے وہ عشقیہ ،نعتیہ اورفلسفیانہ اشعارہیں جوآج بھی ہرکشمیری کی زبان پرعام ہیں ۔اپنے آپ کورسول میرؔ کاپیروماننے والے رساؔجاودانی نے کشمیری شاعری میں جوگہری چھاپ چھوڑی اُس کااعتراف کشمیری زبان کے ہربڑے نقادنے فخریہ طورپرکیاہے۔محمدیوسف ٹینگ تورساؔکوکشمیری غزل کابادشاہ قراردیتے ہوئے تحریرکرتے ہیں کہ پوری کشمیری شاعری میں رساؔ جاودانی وہ پہلے اورآخری کشمیری شاعرہیں جنھوں نے فنی لوازمات کومدنظررکھتے ہوئے کشمیری زبان کوبعض ایسی شہرت یافتہ غزلوں سے نوازا جوآج بھی رساؔ کوپائندہ رکھے ہوئے ہیں اورجب تک کشمیری زبان وادی میں بولی اورپڑھی جائے گی یہ غزلیں تب تک زندہ رہیں گی۔پروفیسرحامدی کاشمیری،پروفیسررحمان راہی،موتی لال ساقی، پروفیسرمرغوب بانہالی ،پروفیسرپشپ ،پروفیسرکے این پنڈتا ،امین کامل ودیگرکشمیری زبان کے وہ بلندپایہ نقادہیں جنھوں نے رساؔ کی عظمت کااعتراف دوٹوک الفاظ میں کیاہے۔بھدرواہ جیسے دوردرازعلاقے میں رہنے کے باوجودانہوں نے کشمیری زبان وادب میں جس طرح اپنالوہامنوایایہ اُن کی عظمت کی بہت بڑی دلیل ہے ۔اگرچہ کہ انہوں نے اُردوزبان میں بھی شاعری کرکے اپنالوہامنوایا ہے لیکن رساؔ کی کشمیری غزل کوجب گلوکار اپنی آوازکاپیراہن عطاکرتے ہیں تومحفل میں ایک عجیب قسم کاسرورچھاجاتاہے اورسننے والاداددیئے بنانہیں رہتاہے۔غلام نبی ڈولوال، غلام حسن صوفی،راج بیگم،کیلاش مہرا، شمیمہ دیو ،وجے ملا جیسے مایہ نازگلوکاروں کے علاوہ اب نئے دورکے گلوکارمثلاً راشدجہانگیر ،شازیہ بشیر ،زلیخافرید ،گلزارگنائی ،دیپالی واتل ،وحیدجیلانی اورراجومنگی وغیرہ جس طرح سے رساؔ کے کلام کونئے آہنگ کے ساتھ موسیقی کاپیراہن عطاکررہے ہیں اُس سے نئی نسل میں رساؔ کی کشمیری شاعری بے حدمقبول ہوتی جارہی ہے ۔ان غزلوں میں رسا ؔ نے جہاں رومانی موضوعات کوپیش کیاہے وہیں ان غزلوں میں قومی یکجہتی اورفلسفیانہ خیالات کی آمیزش بھی ملتی ہے اوریہی وہ عناصر ہیں جورساؔ جاودانی کوکشمیری کابڑاشاعربناتی ہیں ۔ موسیقیت سے لبریز رساؔ کی یہ غزلیں جب ریڈیوکشمیرسری نگرسے نشرہوتی ہیں توسننے والا ایک عجیب طرح کی کیفیت سے دوچارہوتاہے۔رساؔ نے غالبؔ کی طرح بہت کم شاعری کی ہے لیکن غالب ؔ کی طرح ہی اُن کاکلام کم ہونے کے باوجودمعتبر ہے ۔رساؔ جاودانی کامانناتھا کہ بسیارنویسی سے شاعری کافن مجروح ہوتاہے ۔شعروہ ہوجومعنی کے اعتبارسے بھی بلندہواورفن کے اعتبارسے بھی ۔اپنے ایک انٹرویومیں محمدیوسف ٹینگ کے ساتھ گفتگوکرتے ہوئے انہوںنے اقبال کوایک بحرذخارقراردیاتھا اورغالب ؔ کوایک آب جو۔ انہوں نے خودآپ جوسے ہی پیاس بجھانے کی بات کی تھی۔ کشمیری زبان میں رساؔ جاودانی کے دومجموعے شائع ہوچکے ہیں اوراُردومیں بھی دو۔اب چندسال پہلے قارئین کے اصرارپررساؔ جاودانی کااُردواورکشمیری کلیات ’’کلیاتِ رساؔ‘‘ کے نام سے رساؔجاودانی میموریل لٹریری سوسائٹی نے شائع کرکے قارئین کی دیرینہ مانگ کوپوراکردیاہے۔ اس کلیات کے مولف رساؔجاودانی کے فرزندارجمند جناب تنویرابن رساؔ ہیں جب کہ اس کاایک مفصل دیباچہ ریاست کے نامورمورخ اورشاعرجناب اسیرؔکشتواڑی نے تحریرکیاہے ۔اسیرؔکایہ دیباچہ رساؔ کی شاعری اورشخصیت کوسمجھنے کے لیے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتاہے جس میں انہوں نے رساؔ کی شاعری اورشخصیت کاجائزہ لیتے ہوئے اُنہیں سادگی ،نفاست،پرکاری اورقومی یکجہتی کامجسمہ قراردیا ہے ۔رساؔ نے شاعری کاآغاز اگرچہ کہ اُردوسے کیااوربڑے عرصے تک اسی زبان میں طبع آزمائی کرکے برصغیرکے اُردوادبی حلقوں میں اپنے لئے ایک الگ پہچان بنائی لیکن بعدمیں کشتواڑمیں ایک زیارت پرانہیں ایک بزرگ خواب میں آئے جنھوں نے مادری زبان میں شاعری کرنے کی تلقین کی ۔پھرکیاتھا رساؔ نے ایک بارجب کشمیری شاعری شروع کی توپیچھے مڑکرنہیں دیکھا۔کشمیری زبان کوایسی غزلوں سے مالا مال کردیاکہ جورہتی دُنیاتک اُن کے نام کوزندہ رکھیں گی۔ غلام نبی ڈولوال ،غلام حسن صوفی ،راج بیگم ،کیلاش مہرااور دوسرے کشمیری کے بڑے گلوکار رساؔ کی غزلوں کوموسیقی کاپیراہن عطاکرنے میں فخرمحسوس کرنے لگے ۔ان سبھی گلوکاروں کی شہرت کاسبب رساؔ کی شاندار اورجاندارغزلیں ہی بنیں۔محبت،اخوت ،آپسی بھائی چارہ ،قومی یکجہتی اور مذہبی ہم آہنگی کاجودرس رساؔ نے اپنی اُردوشاعری سے دیاہے اس کی مثال ہم ان کے مندرجہ ذیل اشعارسے دے سکتے ہیں۔مجھے ایسے مذہب سے رساؔ نہ ہے واسطہ نہ ہے رابطہ جہاں خونِ آدم حلال ہے اورسرخ پانی حرام طوافِ کعبہ کوجائوں راہ بنارس سے بتوں کی کرکے پرستش ادانمازکرومیری شاعری میری ساحری ہے خیال ِ اُلفت سے بھری نہیں یہ رجزکی فسوں گری مگرآشتی کاپیام ہے کشمیرصغیرکے اس بلندپایہ شاعرکوان کی برسی پریادکرناہم سب کا فرضِ اولین بن جاتاہے لیکن شومئی قسمت دیکھئے کہ یاددہانی کے باوجودبھی ریاستی کلچرل اکیڈمی ایساکرنے سے ہمیشہ ناکامیاب رہی ہے۔صوبہ جموں کے اس بڑے کشمیری شاعرکونظرانداز کرکے ریاستی کلچرل اکیڈمی آخرکیاپیغام دیناچاہتی ہے۔میں نے اکیڈمی کے اُن کشمیری شعرا پربڑے بڑے پروگرام بھی دیکھے ہیں جن کی شاعری صفرکے برابر ہے اورجن کاادب کے تئیں کوئی کام ہی نہیں ہے۔ بے ادب شاعروں کی تشہیرکرکے اکیڈمی کے اہلکار ان بعض سیاسی لیڈروں کوخوش توکرتے ہیں لیکن یہ پروگرام ادبی دُنیامیں ان کی رسوائی کاسبب ہی بنتے ہیں ۔بہرحال رساؔ جاودانی میموریل لٹریری سوسائٹی 28 مئی کوان کی برسی کے موقعہ پرشعبہ اُردوجموں یونیورسٹی میں ایک پروگرام کاانعقادکرنے جارہی ہے جس میں وادی ٔ چناب کے اس بلندپایہ شاعرکومختلف مقررین خراج عقیدت توپیش کریں گے ہی ساتھ میں ان کی یادمیں ایک مشاعرے کااہتمام بھی کیاجارہاہے۔مجھے اُمیدہے کہ رساؔشناسوں کی ایک کثیرتعداداس پروگرام میں شرکت کرکے ریاستی کلچرل اکیڈمی کے دوہرے چہرے کو بے نقاب کرکے رساؔ کوعظیم خراج عقیدت پیش کریں گے۔