قرۃ العین حیدر کچھ یادیں،کچھ باتیں

0
0

۰۰۰

 

پروفیسر صادق
09818776459
۰۰۰

میں ۱۹۷۸ء میں مستقل طور پر دہلی آچکا تھا لیکن ۱۹۹۰ء سے پہلے قرۃ العین حیدر سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ ادبی پروگراموں میں شرکت سے عموماً گریز کرتی تھیں،شاذ و نادر ہی کسی پروگرام میں دکھائی دیتی تھیں۔ میں نے دس بارہ برسوں میں صرف دو تین بار ہی انہیں دیکھا ہوگا۔میں ۱۹۷۸ء میں مستقل طور پر دہلی آچکا تھا لیکن ۱۹۹۰ء سے پہلے قرۃ العین حیدر سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ ادبی پروگراموں میں شرکت سے عموماً گریز کرتی تھیں،شاذ و نادر ہی کسی پروگرام میں دکھائی دیتی تھیں۔ میں نے دس بارہ برسوں میں صرف دو تین بار ہی انہیں دیکھا ہوگا۔ ادبی حلقوں میں ان کے بارے میں بہت کچھ سنتا تھا۔اس زمانے میں کافی ہاؤس اس قسم کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ جہاں وہ بھی کئی بار موضوع گفتگو بن جاتی تھیں۔ساری باتوں کا لُبِ لُباب یہی ہوتا کہ موصوفہ خاصی تند خو اور بد مزاج ہیں۔ کس و ناکس سے گفتگو کرنا پسند نہیں کرتیں۔ جو لوگ ان سے انٹرویو لینے جاتے ہیں،اُن پر دو چار سوالوں کے بعد ہی برس پڑتی ہیں۔ان کے سوالوں کو احمقانہ قرار دے کر ڈانٹ ڈپٹ تک کر دیتی ہیں۔چند ہی لمحوں میں بڑے بڑوں کا پانی اُتار دیتی ہیں۔ یہ قصّہ بھی میں نے کافی ہاؤس میں ہی سنا تھا کہ ایک مرتبہ ممبئی کی کسی تقریب میں ساحر لدھیانوی نے جب ان سے خود کو متعارف کراتے ہوئے یہ کہہ کر کہ میں ساحرؔ لدھیانوی ہوں، ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے’’ہوںگے‘‘ کہہ کر دوسری طرف منہہ پھیر لیا اور اپنی مخاطب خاتون سے بات کرتی رہی تھیں۔ یہ اور اس قسم کے کئی قصّے ان سے منسوب و مشہور تھے۔ میں سمجھتا ہوں یہ بات ایک ان ہی کی ذات کے ساتھ مخصوص نہ تھی۔فیض،فراق، جوش،جگر،منٹو، عصمت، مجازاور دیویندر سیتارتھی وغیرہ ان سب کے بارے میں کیا کم کہا سنا جاتا رہا ہے؟ سچ کڑوا ہوتا ہے اور جھوٹ لذیذ۔ لیکن جھوٹ اور سچ کے ایسے آمیزے لذّتِ گوش و زبان کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ شاعروں اور ادیبوں کی شہرت و مقبولیت میں ایسے قصّوں کا بھی حصّہ ہوا کرتا ہے۔ ۱۹۹۰ء میں بھارتیہ گیان پیٹھ نے مجھے اپنی لنگویج ایڈوائزری کمیٹی کا ممبر نامزد کیا۔ دوسرے دوممبر ڈاکٹرثریّا حسین اورڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید تھے۔ جب کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تو ہم تینوں نے پچیسویں گیان پیٹھ ایوارڈ کے قرۃالعین حیدر کا نام تجویز کیا۔اس کے بعد ایوارڈ دیے جانے کا فیصلہ’’ ایوارڈ سلکشن بورڈ‘‘ کو کرنا تھا جس کے ممبران میں حیات اللہ انصاری کے علاوہ پی وی نرسمہارواؤ، شیاما چرن دوبے، ودّیانِواس مشر، پربھاکر ماچوے اور ویریندر کمار بھٹا چاریہ وغیرہ شامل تھے۔یہ سب ہندوستان کی مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے ممتاز اہل قلم تھے۔ان میں سے حیات اللہ انصاری اور پی وی نرسمہاراؤ کے علاوہ بورڈ کے دیگر ممبر اردو نہیں جانتے تھے۔ان کے لیے حسب قاعدہ ہندی اور انگریزی تراجم فراہم کیے جانے تھے۔لہٰذا قرۃالعین حیدر کی چند نمائندہ تخلیقات کے ہندی اور انگریزی ترجموں کی تلاش شروع ہوئی۔عملے کے لوگوں نے تلاش بسیار کے بعد چند ترجمے حاصل کر لیے لیکن یہ تراجم ناکافی تھے اس لیے کچھ اور تخلیقات ہندی اور انگریزی میں ترجمہ کرانے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس ضمن میں ان کی چند نمائندہ کہانیوں کو ہندی میں ترجمہ کرنے کا کام مجھے تفویض کیا گیا۔  وقت کم تھا اور کام ایک معیّنہ مدّت میں پورا کرنا تھا۔ لہٰذا میں نے اپنی شریک حیات کے تعاو ن سے قرۃ العین حیدر کی چند نمائندہ کہانیاں ہندی میں ترجمہ کر کے داخلِ دفتر کردیں۔ چند ماہ بعد جب تعطیلات میں اپنے ہوم ٹاؤن گیا ہوا تھا۔ وہیں ایک صبح اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا کہ امسال گیان پیٹھ ایوارڈ اردو زبان کی ممتاز و معروف ادیبہ قرۃ العین حیدر کو دیا جائے گا۔یہ خبر پڑھ کر میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ کچھ دنوں کے بعد جب میں دہلی واپس آیا تو اس دوران میں آئی ہوئی ڈاک میں بھارتیہ گیان پیٹھ کا مکتوب پایا۔ دفتر پہنچا تو ایک نئی ذمّے داری سونپی گئی۔ ایوارڈ پرزین ٹیشن تقریب کے موقع پر شائع کیے جانے والے سوینئر میں قرۃالعین حیدر کا ایک تفصیلی تعارف مجھے لکھنا ہے۔میں نے عذر کیا کہ میں ان سے پوری طرح واقف نہیں ہوں۔ اس میں حالات ِزندگی، تاریخیں اور سنّین بھی لکھنے ہوں گے۔ لہٰذا غلطیاں ہونے کا احتمال ہے۔ آپ یہ کام کسی اور سے کرالیں تو بہتر ہوگا۔ بھارتیہ گیان پیٹھ کے چیرمین ٹنڈن جی مسکرا کر بولے کہ یہ کام بہر صورت آپ ہی کو کرنا ہے۔ اگر کچھ معلوم کرنے کی ضرورت ہو تو قرۃ العین حیدر سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ مجھے جانتی بھی نہ ہوں گی۔ وہ بولے آپ فکر نہ کریں۔ تعارف ہم کرادیں گے۔  دوسرے ہی دن چیر مین صاحب مجھے اپنے ساتھ ذاکر باغ میں واقع قرۃ العین حیدر صاحبہ ان کے گھر لے گئے۔جب ان سے میرا تعارف کرایا تو انہوں نے کہا کہ وہ میرے نام سے واقف ہیں۔ یہ ملاقات کافی خوش گوار ماحول میں ہوئی۔ دو تین دن بعد میں تعارفی مضمون لے کر ان کے گھر پہنچا۔ مضمون ہندی میں تھا۔ موصوفہ نے اسے پڑھ کر سنانے کے لے کہا۔ میں نے سنانا شروع کیا۔ پہلی سطر پر ہی انہوں نے مجھے روک دیا۔ اس میں ان کی تاریخِ ولادت ۲۲ جنوری لکھی تھی۔ دوسری بار وہاں ٹوکا جہاں ان کی پہلی کہانی کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ صرف چھ سات برس کی عمر میں لکھی تھی جو پھول اخبار میں شائع ہوئی تھی۔ یہ دونوں باتیں میں نے مختلف رسائل سے نقل کی تھیں۔موصوفہ نے تاریخِ پیدائش حذف کراکے صرف سنۂ پیدائش رکھنے کے لیے کہا۔ اسی طرح پہلی کہانی لکھنے کی عمر حذف کراکے پھول اخبار میںاس کی اشاعت کا حوالہ باقی رکھنے کو کہا۔میں نے یہ دونوں تبدیلیاں کردیں۔ لیکن تقسیمِ ہند کے بعد ان کے پاکستان منتقل ہوجانے، وہاں مختلف عہدوں پر کام کرنے، آگ کا دریا لکھنے، وہاں سے لندن جانے اور پھر چند برسوں کے بعد ہندوستان لوٹ آنے والا پورا پیراگراف حذف کرتے ہوئے مجھے اچھا نہیں لگا۔ میں جانتا تھا کہ یہ بات خالی از مصلحت نہیں ہے لہٰذا خاموش رہا۔ انہوں نے بھی اس تعلق سے کسی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ میرا لکھا ہوا وہ تعارفی مضمون گیان پیٹھ ایوارڈ سماروہ کے موقع پر تقسیم کیے جانے والے سوینئر میں ہندی اور انگریزی دونوںزبانوں میں شائع ہوا۔ٹنڈن جی نے اسے’’نشانت کے سہیاتری‘‘ کے ساتھ بھی شائع کیا جو قرۃالعین حیدر کے ناول’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ کا ہندی ترجمہ ہے۔  ایوارڈ سماروہ کے چنددنوں بعد مجھے پھر گیان پیٹھ کے دفتر میں بلایا گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ میں نے قرۃالعین حیدر کی جن کہانیوں کا ہندی میں ترجمہ کیا ہے اب انہیں کتابی شکل میں پیش کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس سلسلے میں پھر ٹنڈن جی کے ساتھ پھر مصنفہ کے گھر جانا ہوا۔ موصوفہ نے کتاب کی اشاعت کے منصوبے پر خوشی کا اظہار کیا، لیکن شرط یہ عائد کر دی کہ ہندی ترجمے کا ایک ایک لفظ وہ سُنیںگی۔ اس کے بعد ہی کتاب اشاعت کے لیے جائے گی۔ ٹنڈن جی نے انہیںسمجھایا کہ تمام کہانیوں کے ترجمے صادق صاحب نے کیے ہیں۔ یہ دہلی یونی ورسٹی میں اردو کے استاد ہیں،برسوں سے ہندی میں بھی لکھتے چھپتے رہے ہیں۔ لیکن وہ اپنی شرط پر قائم رہیں بالآخر یہ طے پایا کہ میں وقت نکال کر ان کے گھر جاتا رہوں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر ترجمہ شدہ کہانیوں کے ترجمے انہیں سناؤں اور ان میں اگر ترمیم وغیرہ کی ضرورت ہو تو ان کے مشورے سے وہ بھی کرتا رہوں بعد ازاں مسوّ دہ داخلِ دفتر کردوں۔  اس کے بعد میرا ن کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔پہلا دن مجھ پر شاق گزرا کیونکہ موصوفہ جگہ جگہ الفاظ بدلنے پر اصرار کر رہی تھیں۔ میں جانتا تھا انہیں میڈیا رائیٹنگ کا بھی اچھا تجربہ ہے لہٰذا میں نے سنجیدگی سے ان کی ہر بات سمجھنے کی سعی کی تو ان کے ساتھ کام کرنا اچھا محسوس ہونے لگا۔ میں اس سے پہلے بھی ترجمے کر چکا تھا لیکن یہ بات مجھ پر اب کھلی کہ اردو سے ہندی یا ہندی سے اردو ترجمہ کرنا جتنا آسان کام معلوم ہوتا ہے اتنا ہے نہیں۔ بعض جگہ تو ذرا سی بے احتیاطی سے معاملہ ہی بگڑ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم لفظ’’بادشاہ‘‘ کا ہندی ترجمہ’’راجا‘‘ کردیں تو ملکہ کا ترجمہ رانی کرنا پڑے گا اور پھر شہزادہ یا شہزادے کے لیے راج کمار یا راج کماری جیسے الفاظ کا استعمال ناگزیر ہوجائے گا اور پھر اس ایک لفظ کا اثر اس کے کلچر اور عقیدے پر بھی پڑے گا۔’’بادشاہ نے نماز پڑھنے کے بعد خدا سے دُعا مانگی۔‘‘ اس جملے کے ہندی ترجمے میں بادشاہ، نماز،خدا اور دُعا جیسے الفاظ کی ہندی مترادفات کام نہیںدیں گے۔یہیں مجھ پر کھُلا کہ انشا ء اللہ خاں انشاء نے بقولِ محمد حسین آزاد جب اپنی مونچھوں پر تاؤ دے کر اردو فارسی الفاظ استعمال کیے بغیر اچھُٹ ہندی میں کہانی لکھنے کا جو تجربہ کیا تھا اس میں وہ اپنی تہذیب و کلچر کی عکاسی کیوں نہ کرسکے تھے اور’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ لسانی اہمیت حاصل کرنے کے باوجود ادبی اہمیت حاصل کرنے سے کیوں قاصر ہے۔قرۃالعین حیدر کی اردو کہانیوں کو ہندی میں منتقل کرتے ہوئے ان کے ساتھ دورانِ گفتگو اردو اور ہندی الفاظ، اردو اور ہندی قواعد، زبان اردو اور ہندی مزاج اوراردو اورہندی تہذیب وغیرہ سے متعلق کئی ایسے نکات زیرِ بحث آئے جن پر پہلے کبھی غوروفکر کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ نہ تو انہیں اور نہ ہی مجھے۔موصوفہ نے اسی دوران اپنی چند کہانیوں میں ترمیم و اضافے بھی کیے۔یہ ان کا حق تھا کیونکہ کہانیاں ان ہی کی لکھی ہوئی تھیں لیکن ان کے اس عمل سے فضیحت میری ہوئی۔ کتاب کی اشاعت کے بعد چند قارئین نے خطوط لکھ کر یہ شکایت کی کہ میں نے ہندی ترجمے میں تبدیلیاں کردی ہیں۔حالانکہ ٹنڈن جی نے کتاب کے پیش لفظ میں یہ وضاحت کردی تھی کہ اس کتاب میں شامل تمام کہانیوں کے تراجم کا ایک ایک لفظ مصنفہ نے خود دیکھا ہے۔ اس کے بعد کتاب پریس بھیجی گئی ہے۔ جب یہ کام اپنے اختتام کو پہنچا تو ٹنڈن جی نے کتاب کے مقدمہ کی طرف توجہ دلائی۔ موصوفہ نے کہا کہ اس کتاب کا مقدمہ صادق صاحب لکھیں گے۔میں حیران پریشان! عرض کیا کہ ذرّہ نوازی کے لیے شکریہ! لیکن ناچیز خود کو اس قابل نہیں سمجھتا۔آپ کسی نامور نقاد سے لکھوائیے۔’’نامور نقاد‘‘ کی بات پر انہوں نے خاصی برہمی کا اظہار کیا اور اپنی بات پر مُصرہیں کہ مقدمہ میں ہی لکھوں۔ٹنڈن جی نے بھی ان کی تائید کی لیکن یہ شرط اپنی جگہ برقرار رہی کہ اُس کا ایک ایک لفظ مصنفہ سُنیںگی ا س کے بعد ہی مسوّدہ پریس میں جائے گا۔ جب اس کام سے فراغت ہوئی تو ٹنڈن جی نے ایک نیا منصوبہ پیش کیا کہ کتاب میں اس طویل مقدمے کے علاوہ مصنفہ کے ساتھ ایک انٹرویو بھی شامل کیا جائے۔ کہانیوں سے پہلے مقدمہ اور اخیر میں انٹرویو جو اُن کی کہانیوں سے متعلق ہو۔ یہ کام بھی میرے ہی سر آیا۔ انٹرویو کا مرحلہ نہایت خوشگوار ماحول میں طے ہوا۔تقریباً دو ڈھائی گھنٹے کا انٹرویو ریکارڈ کیا گیا۔انٹرویو ختم ہوجانے کے بعد میں نے ان سے کہا۔آپ کے بارے میں اکثر سنتا رہا تھا کہ انٹرویو لینے والوں کے ساتھ سختی سے پیش آتی ہیں،ان سے بدسلوکی کرتی ہیں۔ میرا مطلب ہے ڈانٹ ڈپٹ تک کر بیٹھتی ہیں بلکہ کسی کسی کو تو انٹرویو دیے بنا ہی چلتا کر دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا مجھے معلوم ہے۔ میرے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیںکہ میں غصیل ہوں، بدمزاج ہوں وغیرہ وغیرہ۔لیکن لوگ مجھے غصّہ کیوں دلاتے ہیں؟بے وقوفی کی باتیں سن کر مجھے غصّہ آتا ہے اور آنا بھی چاہیے۔ جب کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ آپ کی تاریخ ولادت کیا ہے؟ آپ نے گریجویشن کب کیا؟ آپ کا پہلا افسانوی مجموعہ کب چھپا؟ ارے بھٔی جب انٹرویو لینے نکلے ہیں توایسی تمام سبنیادی باتیں معلوم کرنے کے بعد ہی نکلنا تھا…… پھر یہ کہ آپ کے یہاں تاریخیت ہے۔ تقسیم کا المیہ ہے۔ فلاں بات ہے فلاں نہیں ہے۔ بھٔی اب ہے تو ہے۔ نہیں ہے تو نہیں ہے۔ آپ میری تخلیقات پڑھ کر جو چاہیں سوچیں،جو چاہیں سو لکھیں۔ کوئی مقدمہ تو نہیں چل رہا ہے مجھ پر کہ آگئے جرح کرنے اور جواب طلب کرنے…….. اس قسم کی بے وقوفیوں پر مجھے غصّہ نہیں تو اور کیا آئے گا؟۔ میں نے انٹرویو میں پہلا سوال ہی یہی کیا کہ آپ اپنے یا اپنے وطن کے بارے میں کچھ کہنا کیوں پسند نہیں کرتی ہیں۔انہوں نے جواب دیا کہ ایسی باتوں سے مجھے کوفت اور اُکتاہٹ ہوتی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ میںجو کچھ کہتی ہوں وہ عموماً صحیح طور پر رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ بات کیا سے کیا ہوجاتی ہے۔ افسانہ’’پت جھڑ کی آواز‘‘ کے تعلق سے انہوں نے بتایا کہ یہ افسانہ میں نے چیلنج کے طورپر سیدھے سادے حقیقت پسندانہ انداز اور بیانیہ اسٹائل میں لکھا تھا۔ اسی طرح’’آہ!اے دوست‘‘ کے بارے میں کہا کہ افسانہ اُن کے زمانۂ طالب علمی کی یادگار ہے۔ ایک بار کالج میں کسی پرگرام کی ریہرسل چل رہی تھی۔ وہیں پر جو کچھ باتیں میرے ذہن میں آئیں وہ لکھتی گئی۔ اس وقت میرے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ میں کوئی نیا ٹرینڈ شروع کرنے جارہی ہوں۔ چند اور افسانوں کے بارے میں بھی انہوں نے خاصی تفصیل سے باتیں کیں اور ان کے محرکات پر بھی روشنی ڈالی۔میرے آخری سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تقسیم وطن کے بعد دونوں ملکوں میں جنم لینے والی نسلوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ ان کی اپنی سوسائٹی الگ ہے۔ ان کا چیزوں اور زندگی کو دیکھنے کا نظریہ بدل گیا ہے۔ یہ نسلیں اپنے اپنے حالات سے متاثر ہیں اور اسی لحاظ سے لکھ رہی ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اردو سرکاری زبان ہے اور ذریعۂ تعلیم بھی ہے اور وہاں اس کی وہی حیثیت ہے جو ہندوستان میں ہندی کی ہے لہٰذا وہاں لکھنے والوں میں وہ فرسٹریشن نہیں ہے جو ہمارے ملک میں اردو کے نئے قلمکاروں کو ہے۔ وہاں میڈیا، ٹی وی اور رسائل یہ سب لکھنے والوں کے لیے موجود ہیں جب کہ یہاں ایسا نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ ہندی میں لکھ کر یا ترجمہ کروا کے ایک بڑی ریڈرشپ تک پہنچیں۔ انٹرویو ریکارڈ ہونے کے بعد میںنے اِسے قلمبند کر لیا۔اس کے بعد مصنفہ کے ساتھ اس میں ترمیم و تنسیخ کا عمل شروع ہوا۔بالآخر دس بارہ صفحات پر مشتمل مسوّدہ تیار کر کے شاملِ کتاب کیا گیا۔کتاب کا نام’’داغ داغ اجالا‘‘ خود مصنفہ نے تجویز کیا۔اس کتاب کے اب تک کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ کتاب کی اشاعت کے بعد بھی میرا اُن کے یہاں آناجانا جاری رہا۔ میں اگر کبھی اپنے کسی کام سے جامعہ نگر جاتا تھا تو ان سے ملنے بھی چلا جاتا تھا۔ایک دن جب میں ان کے گھر پہنچا تو کچھ عجیب سا محسوس ہوا جو خلافِ معمول تھا۔ ان کے فلیٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ باہر بہت سے لوگوں کے جوتے اور چپلیں رکھی ہوئی تھیں۔ دروازے پر پہنچا تو اندر بہت سے لوگ دکھائی دیے۔ سب نے اپنے سر ڈھک رکھے تھے۔ جو ہر طرف ایک عجیب سی خاموشی طاری تھی۔ میرا دل دھک سے رہ گیا کہ خدا نخواستہ کہیں……..  اچانک دور سے ایک خاتون میری طرف آتی دکھائی دیں۔ وہ سر پر ڈوپٹہ اوڑھے ہوئے تھیں۔ اُنہیں دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ وہ قرۃ العین حیدر تھیں جنہیں ڈوپٹہ اوڑھے ہوئے میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ’’بھیّا تشریف لائے ہوئے ہیں۔ آئیے، اند ر آجائیے‘‘ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے اندر آنے کے لیے کہا۔ اندر ایک چھوٹے چوکی نما تخت پر چاندنی بچھی ہوئی تھی جس پر ادھیڑ عمر کے ایک صاحب تشریف فرما تھے۔ موصوفہ نے بھیّا سے میرا تعارف کرایا۔ انہوں نے مصافحے کے بعد مجھے اپنے قریب ہی بٹھا لیا۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ وہاں موجود لوگوں میں اپنا شناساکوئی چہرہ نہ پاکر مایوسی تو ہونی ہی تھی۔ دھوتی کرتے میں ملبوس ایک صاحب جوخاصے مہذب اور تعلیم یافتہ معلوم ہوتے تھے وہ بھیّا کی داہنی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔میں سمجھ گیا کہ یہ بھیّا وہی صوفی صاحب ہیں جنہیں قرۃالعین حیدر نے اپنے ناول’’گردشِ رنگِ چمن‘‘میں ایک غیر معمولی یادگار کردار کے روپ میں پیش کیا ہے…… میں وہاں خود کو اَن فِٹ محسوس کر رہا تھا اس لیے تھوڑی دیر بعد معذرت کر کے رخصت چاہی۔اس دوران بھیّا سے جو گفتگو ہوئی تھی اس میں اب صرف یہی یاد ہے کہ کبیرؔ پر بھی بات ہوئی تھی۔اُن دنوں ہندی کی نصابی کتابوں سے کبیر ؔکی تخلیقات خارج کر دی گئی تھیں۔ بھیّا اس بات سے ناخوش تھے اور اسے اربابِ سیاست کی نادانی قرار دیتے ہوئے کبیرؔ کی فکر اور اس کی شاعری کی اہمیت پر روشنی ڈال رہے تھے۔ قرۃ العین حیدر نے جب اپنا ذاکر باغ والا فلیٹ چھوڑ کر نوئیڈامیں سکونت اختیار کر لی تو ان کے یہاں میرا آنا جانا بہت کم ہوگیا۔ اس کے بعد ان کے گھر جانے کے موقعے دو تین بار سے زیادہ نہیں ملے۔ ایک بار اُس وقت جب انہوں نے دہلی کے چند اردو ہندی ادیبوں کے ساتھ مجھے فون کر کے لنچ پر بلایا تھا۔مدعوئین میں کملیشور، جوگندرپال، راحی سیٹھ ، عتیق اللہ اور صغریٰ مہدی وغیرہ تھے۔ وہاں باتیں تو خوب ہوتی رہیں لیکن لنچ کا کوئی ذکر نہیں۔ کافی دیر بعد پتہ چلا کہ موصوفہ بھول گئیں تھیں کہ انھوں نے سب کو لنچ پر مدعو کیا ہے۔ اس موقع پر جو کچھ ممکن ہوا وہ انتظام کیا گیا۔موصوفہ بار بار شرمندگی اور معذرت کا ظہار کرتی رہیں اور مہمان انہیں دلاسہ دینے کی سعیٔ ناکام کرتے رہے۔ دوسری بار میںاس وقت گیا جب وہ کچھ چوٹ آجانے کی وجہ سے علیل تھیں۔ ایک دن نارنگ صاحب کے ساتھ میں بھی ان کے گھر پہنچا۔اُن دنوں ہم دونوں اردو اکاڈمی،دہلی سے وابستہ تھے۔ مزاج پُرسی کے بعد چائے پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی جب ہم رخصت ہونے لگے تو موصوفہ نے مجھے الگ بلا کر کہا کہ آپ لوگ عیادت کے لیے آئے اس کا شکریہ! لیکن اس کی خبر اخبارات یا اردو اکاڈمی کے رسالے میں ہر گز نہیں آنی چاہیے۔ میں نے وعدہ کیا اور چلا آیا۔ اس کے بعد مختلف موقعوں پر جو دو چار ملاقاتیں ہوئیں وہ علیک سلیک اور مزاج پرسی تک ہی محدود رہیں۔ کچھ عرصے بعد ان کی خرابیٔ صحت کی خبریں ادبی حلقوں میں گشت کرنے لگیںتو میں نے عیادت کے لیے جانے کی سوچی۔ اسی اثنا ء میں ایک دن عزیزم مجیب احمد میرے یہاں آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ آجکل قرۃالعین حیدر صاحبہ کے ساتھ ادبی معاون کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ان دنوں موصوفہ کی بینائی بہت کمزور ہوگئی ہے۔ اب وہ نیا کچھ لکھنے کی بجائے اپنی پرانی تخلیقات کی ترتیب و تدوین اور ادھورے کاموں کی تکمیل کی طرف متوجہ ہیں۔ اس کے بعد مجیب احمد کی زبانی مجھے ان کے حالات معلوم ہوتے رہے۔ ۲۱ /اگست ۲۰۰۷ء کی صبح مجیب احمد نے فون پر اطلاع دی کہ محترمہ قرۃ العین حیدر اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی ہیں۔ ان کی تدفین جامعہ ملیہ کے قبرستان میں ہوگی۔ یہ خبر ملنے کے بعد جب میں جامعہ نگر پہنچا تو مجیب احمد نے بتایا کہ انتقال سے چند روز قبل محترمہ نے اپنی اس خواہش کا ظہار کیا تھا کہ میرے جنازے کی نماز شیعہ اور سنی دونوںمسالک کے مطابق ادا کی جائے۔ ان کی اس خواہش کا احترام کیا گیا۔ نمازِ عصر کے بعد غمناک دِلوں اور نمناک آنکھوں کے ساتھ انہیں سپردِ خاک کر دیا۔ان کی قبر کو مٹی دیتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اردو شاعری کے سرسے فیض حمد فیض کا سایہ پہلے ہی اٹھ چکا۔ اردو فکشن کے سر پر قرۃ العین حیدر کا سایہ قایم تھا سو آج وہ بھی اٹھ گیا۔ رہے نام اللہ کا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا