لازوال ڈیسک
سرینگر؍؍جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر غلام احمد میر نے الزام لگایا کہ ‘بی جے پی حکومت’ جموں و کشمیر کو اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی طور پر تباہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر پوری دنیا میں مشہور ہے اور بی جے پی حکومت ‘ناگپور ڈیزائن’ کے تحت اس کی شناخت، پہچان اور انفرادیت کو ملیا میٹ کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سابق وزیر سید محمد الطاف بخاری کی ‘اپنی پارٹی’ بی جے پی کی ہی پیداوار ہے اور اس بات پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے اگر بی جے پی ‘ڈی ڈی سی چیئرمین’ چننے میں اس نئی جماعت کی حمایت کرتی ہے۔غلام احمد میر نے ہفتے کو یو این آئی اردو سے گفتگو میں کہا: ‘جموں و کشمیر کو اب مکمل طور پر دہلی سے چلایا جا رہا ہے۔ ان کی جموں و کشمیر کے حوالے سے یہ پالیسی ہے کہ اس کو اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی طور پر تباہ کرنا ہے’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘جموں و کشمیر پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہ تمام سازشیں جموں و کشمیر کی شناخت، پہچان اور انفرادیت کو ملیا میٹ کرنے کے لئے ہیں۔ یہاں اب ناگپور ڈیزائن پر کام ہو رہا ہے۔ یہاں کی مقامی انتظامیہ کی حد اختیار میں کچھ بھی نہیں رہا ہے’۔کانگریس کمیٹی صدر نے کہا کہ جموں و کشمیر میں رواں برس ستمبر یا اکتوبر میں اسمبلی انتخابات ہو سکتے ہیں اور اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی کا کام بھی بی جے پی کی مرضی کے مطابق ہی جاری ہے۔انہوں نے کہا: ‘الیکشن تو ان کو کرنے ہی ہیں۔ ان کو ٹرائل کے لئے جو بھی انتخابات کرنے تھے وہ تو منعقد کر ہی لئے۔ سب ان کے ہاتھوں میں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈی سی انتخابات کے لئے 280 حلقوں کی حد بندی کا کام راتوں رات انجام دیا۔ ان کے لئے سات اسمبلی حلقوں کا اضافہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ان لوگوں نے اس کا بھی ڈیزائن بنا کر رکھا ہوگا۔ یہ لوگ سیاسی جماعتوں کو کسی بھی سطح پر اعتماد میں نہیں لے رہے ہیں۔ بی جے پی اپنی مرضی کے مطابق اسمبلی کے سات نئے حلقے معرض وجود میں لائے گی’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘امکانی طور پر یہ لوگ یہاں ستمبر – اکتوبر میں اسمبلی انتخابات کا انعقاد کریں گے۔ مئی کے آخر یا جون کے وسط میں یہ حد بندی کمیشن کی سفارشات کو سامنے لا سکتے ہیں۔ تب تک یہ لوگ بنگال، آسام اور تمل ناڈو سے فارغ ہو چکے ہوں گے۔ اس کے بعد وہ جموں و کشمیر میں انتخابات کا عمل شروع کرائیں گے۔ ان کا جو اپنا کلینڈر بنا ہوا ہے وہ اسی کے حساب سے چلیں گے’۔غلام احمد میر نے جموں و کشمیر میں فور جی انٹرنیٹ خدمات کی بحالی پر بات کرتے ہوئے کہا: ‘فور جی کو بند رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ہریانہ اور پنجاب کے کچھ اضلاع میں انہوں نے تین دن تک موبائل انٹرنیٹ بند کیا تو اس کے خلاف بڑے پیمانے پر آوازیں بلند ہوئیں۔ عورتیں سڑکوں پر آ گئیں’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘میرا یہ کہنے کا مقصد ہے کہ وہاں کے لوگ تین دن تک انٹرنیٹ کے بغیر نہیں رہ سکے تو جموں و کشمیر کے لوگوں کا صبر دیکھیں کہ دو سال سے اس اذیت کو جھیل رہے تھے۔ یہ یہاں کے بچوں، مریضوں اور کاروباری افراد کے ساتھ نا انصافی تھی’۔کانگریس کمیٹی صدر نے کہا کہ جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ جموں و کشمیر کے سیاسی قیدیوں اور شہریوں، جن کو دوسری ریاستوں میں بند رکھا گیا ہے، کو رہا کیا جائے۔ان کا کہنا تھا: ‘کئی سیاسی لیڈران و کارکنوں اور عام شہریوں کو خوامخواہ اپنے گھروں سے بہت دور دوسری ریاستوں میں بند کر کے رکھا گیا ہے۔ جمہوریت کا تقاضہ یہی ہے کہ ان بے گناہ لوگوں، جو سیاسی انتقام گیری کے شکار ہو چکے ہیں، کو رہا کیا جائے’۔