*مغربی تہذیب کا اسلامی آپریشن

0
0

 

 

 

تحریر: محمد اقبال کھاہ ترگام تحصیل کھڑی
فون نمبر۔9906563552
قارئین کرام!مذھب اسلام اللہ رب العزت کا نازل کردہ ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ھے جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر رہنمائی حاصل کرنے کا مکمل نظام اور درپیش مسائل کا حل بھی ہے۔انھی أصول و ضوابط اور تعلیمات کی صداقت سے مرتب ھونے والے اثرات کا ھم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔ان اصولوں سے برگشتگی کی صورت میں معاشرے میں بگاڑ اور اخلاقی زوال کا بھی مشاہدہ کر رھے ھیں اور بڑی بے حیائی کے ساتھ اس کو جزب بھی کر رہے ہیں مقام افسوس یہ ہے کہ دین اسلام کے وہ لوگ جو امن و امان کے ضامن ھیں اس سے کوسوں دور ھو کر مغربی کلچر میں ان چیزوں کو تلاش کر رہے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے اسلامی معاشرے میں اخلاقی زوال پورے شباب پر ھے اخلاقی جوھر پامال ھورھے ھیں۔مغربی تہذیب نے اسلامی معاشرے کو اخلاقی جزام میں مبتلا کر دیا ہے اور دن بدن یہ ناسور کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ خصوصاً صنف نازک کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور مساوات مرد وزن کا پرفریب نعرہ لگاکر مکمل گہری سازش اور منصوبہ بندی کے تحت الحاد و دھریت کو فروغ دیا جارہا ہے۔عریانیت و رومانیت کی تیز تند ہواؤں کا رخ پوری قوت کے ساتھ صنف نازک کی جانب موڑا جا رہا ہے۔
مختلف باطل حربوں اور پروپگنڈوں کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ راحت وسکون اور امن و امان بس اسی حال میں ھے کہ نئی تہذیب اور جدید افکار ونظریات کو اپنایا جائے اور اسے زندگی کے ھر گوشے میں کلی طور پر نافذ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ طبقہ نسوانیت کے صنفی مزاج کو ختم کر کے مساواتی مزاج مختلف انداز میں پیدا کیا جا رہا ہے جدید نظریات کو عام کرنے میں فطری ساخت کو مسخ کر کے ماڈرن بنایا جا رہا ہے۔جنسی بے راہ روی کو عام کرنے کے لیے ھر ممکن حصول اور طریقے کو بڑی سرعت کے ساتھ ان چیزوں کے لیے عام کیا جا رہا ہے۔الیکڑانک میڈیا جرثومے کو عام کرنے میں یدطولی رکھتے ہیں۔پرنٹ میڈیا اس میں تیزآبیت کا اثر چھوڑ رہا ھے۔آج میڈیا پر اغیار اور معاند اسلام کی بالادستی ھونے کی وجہ سے اسلام مخالف چیزوں کی تشہیر میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جا رہا ہے۔آج جدید ترین ذرائع ابلاغ اسٹیج شو پر بوس وکنار کے پرجوش منظر کو عام کر کے ہندوستانی تہذیب کو ملیامیٹ کیا جا رہا ہے۔ رقص و سرور کا پروگرام فیشن کے نام پر پیش کر کے بے حیائی کو بڑی تیزی سے عام کیا جا رہا ہے اور ملت کا نوجوان طبقہ پوری شدومد کے ساتھ اسے اپنانے میں لگا ھوا ھے۔نئی نسل کو ماڈرن کہلانے کا جنون اس قدر غالب آچکا ھے کہ اسلامی حدوں کو چھلانگ لگا کر مغرب کی پرجوش نقل کر رہا ہے۔جس کی شاعر نے یوں ترجمانی کی ھے
*چڑھا ھے مغربی تہذیب کا رنگ نوجوانوں پر*
*لباس و شکل سے یہ صورت پہچانی نہیں جاتی*
قارئین کرام!آج صنف نازک میں خود نمائی۔عیش کوشی۔ خواہشات نفسانی۔جنسی تسکین۔ اس قدر غالب آچکی ہے کہ بناؤ سنگھار۔حسن وزیبائش کے نت نئے سامان اس کے شوق کو تسکین کا سامان فراہم کر رہے ہیں جو مردوں کے خواہشات نفسانی کو برانگیختہ کرنے میں پیٹرول کا کام کر رہا ہے جس کے نتیجے میں سماج جس مرض میں مبتلا ھے وہ قابل بیاں نہیں ھے اخبار و جرائد کی آئے دن خبریں انسانیت کو شرمسار کرنے کے لیے کافی ہے۔ آج نئی نسلوں میں باغیانہ مزاج اس قدر پیدا ھوگیا ھے کہ وہ ماڈلنگ کے نام پر ھر بے حیائی کو فروغ دینے کو تیار ہیں حتیٰ کہ بڑی بڑی کمپنیاں اشیاء کو مارکیٹ میں متعارف کرانے کے لیے دو شیزاؤں کا سہارا لے کر فروغ دے رھی ھیں یھی وجہ ہے کہ نوجوان طبقہ کی جم غفیر لگی رہتی ھے۔آج اداؤں اور نخروں پر اشیاء کو فروخت کیا جا رہا ہے حالانکہ مذھب اسلام نے طبقہ نسوانیت کی قدرو منزلت اور نسوانی مزاج کی فکر کرتے ہوئے ھر قسم کی ظاہری و باطنی بیہودگی اور فحاشی وعریانیت کو سختی سے روک کر اس کا دائرہ کار مقرر کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورہ الاحزاب میں ارشاد فرمایا ہے *اور اپنے گھروں میں سکون سے جمی رھو اور جاھلیت کی طرح بناؤ سنگار دکھاتی مت پھرو*کیوں کہ عورت کا دائرہ کار اس کا گھر ہے چونکہ عورت کا پورا وجود ھی پردہ ہے مذھب اسلام نے عورت کو مستور کھ کر اپنی جانب مائل کرنے والی ان چیزوں کو ڈھانکنے کا بھی حکم دیا ھے جو فتنے کا سبب ھوں اور وہ چہرہ ھے جو کہ جمال وحسن کا مرکز ھے باقی جسمانی اعضاء اس کے تابع ھیں چونکہ چہرے سے ابھرنے والے اثرات دلی جزبات و احساسات پیدا کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرمایا ائے *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی بیبیوں۔بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کھ دیں کہ وہ اپنے اوپر چادر لٹکالیا کریں* *اس کے ذریعے ان کی شناخت ھوگی اور وہ ستائی نہیں جائےگی اور اللہ رب العزت تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے*اس پاکیزہ قانون کے ذریعے اللہ رب العزت نے عورتوں کے ناموس کی محافظت کی ھے اور اچکنے والی بدنگاہوں سے محفوظ کیا ھے۔مردوں کو بھی اپنی نگاہیں پست رکھنے کا حکم دے کر ھر قسم کی شہوانی ھیجانات و تحریکات سے منع کیا نیز خیالی انتشار کو پاک رکھنے کے لیے ازاد اختلاط سے منع کیا اور سورہ النور آیت نمبر30 میں ارشاد فرمایا یعنی*اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ مومنوں سے کھ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہوں کو پست رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کا کام ھے بیشک اللہ تعالیٰ باخبر ھے جو کچھ وہ حرکت کرتے ہیں*
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام ذرائع سے اپنی نگاہوں کو پست رکھنے کا حکم دیا ہے جو بے حیائی اور زنا کے قریب تر ھے اور محرمات کے نگاہوں سے محفوظ رکھنے کا قانون نافذ کیا ھے تاکہ سماج سے بے حیائی کا خاتمہ ھو اور ایک صالح معاشرہ تشکیل پاے۔بےشرمی اوراخلاقی گراوٹ سے منع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سورہ الانعام آیت نمبر151میں ارشاد فرمایا ہے کہ پوشیدہ اور ظاہری بے شرمی اور اخلاقی گراوٹ کے قریب مت جاؤ اس میں بے حیائی کو فروغ دینے والے اور جزبات کو بھڑکانے والے سارے عوامل شامل ھے۔مفسرین نے ماظھر کی کئی ایک توجیہ کی ھے بے حیائ کے کاموں کو اپنانا۔طوائف سے علی الاعلان جسمانی تسکین بجھانا حرام ھے
اسی طرح (گرل فرینڈ) سے خصوصی تعلقات قائم کرنا حرام ھے لیکن اس آیت کا مفہوم ھے کہ جو ہرقسم کی بے حیائی سے روکنے والی ھے۔جیسے فلمی ڈارمے۔ٹیلی وژن کلچر وی سی آر۔فحش اخبار و رسائل رقص و سرور کی محفلیں۔مجرموں کی نشست گاہ وغیرہ اس میں شامل ھے ھماری غفلت اور بے حسی کا یہ عالم ھے کہ اسلامی تہذیب کی بنیاد مستحکم اور اس کی پاسداری و آبیاری کرنے کی کوئی کوشش نہیں کیجاتی ھےاور غیر اخلاقی دلدل میں اسقدر پھنسے ہوئے ہیں کہ فحش پروگراموں کی بے انتہا پزیرائی کرتے ہیں اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اس کا حل بخوبی نکل آئے گا لیکن بلی کے گردن میں گھنٹی باندھے کون؟ چونکہ ھر شخص پر مادیت کا نشہ سوار ھے اور مادیت ھی کو سب کچھ تصور کر رہا ھے۔ضرورت ھے کہ آج نئی نسل کی زندگی کے صحیح مقاصد سے متعارف کرایا جائے اور ٹھوس اقدام کے ذریعے دین کی طرف راغب کریں۔آخرت کی فکر پیدا کرائیں۔حیات بعدالممات کی وضاحت کریں۔رب العزت کی عدالت میں کھڑے ہونے کا خوف پیدا کرائیں دینا کے سراب کو واضح کریں اور آخرت کے حیات کو بیان کریں۔تاکہ بے حیائیوں کا خاتمہ ھو اور اللہ کے قانون کی بالادستی قائم ھو اور لوگوں میں سدھار پیدا ھو اللہ تعالیٰ ھم لوگوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین ثم آمین۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا