ڈاکٹر مظفر نازنین، کولکاتا کتاب’’پہلی جنگ آزادی(۱۸۵۷ئ) میں اردو زبان کا کردار‘‘ اورڈاکٹر امام اعظم

0
0

ڈاکٹر امام اعظم محتاجِ تعارف نہیں۔ موصوف بیک وقت ایک استاد، بے باک صحافی، شاعراور ناقد ہیں جن کے لئے کچھ کہنا یا لکھنا دراصل سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ ان کی مرتب کردہ کتاب ’’پہلی جنگ آزادی (۱۸۵۷ئ) میں اردو زبان کا کردار‘‘ کو میں نے بغور پڑھا اور جو کچھ میرے ذہن میں آیا اُسے قارئین کرام کی نذر کرتی ہوں۔ کتاب کے سرورق پر ایک تصویر ہے جس کا Caption اس طرح سے ہے :
A British Execution in India (The supression of an India Uprising by the British)
آزادی کے رہنما، علماء اور مجاہدوں کو توپ کے دہانوں سے باندھ کر شہید کیا گیا جسے دیکھ کر سنگ دل انسان بھی چشمِ پُرنم، ہاتھ لرزاں، دل شکستہ،اس شعر کی مصداق ہوجاتا ہے:
اے میرے وطن کے لوگو! ذرا آنکھ میں بھرلو پانی

جو شہید ہوئے ہیں ان کی ذرا یاد کرو قربانی
یـا
یوں دیکھئے:
اپنی آزادی کو ہم ہرگز مٹا سکتے نہیں

سر کٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے نہیں
کتاب کے آخری ورق پر ڈاکٹر امام اعظم کا ایک قطعہ ہے جس سے یہ صاف شیشے کی مانند عیاں ہے کہ موصوف کا ذہن کس قدر حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے:
ہمیں اپنا وطن پیارا بہت ہے

کہ ہم نے اس پہ دل وارا بہت ہے
ہمیں اپنی یہ آزادی ہے پیاری

یہ زندہ باد کا نعرہ بہت ہے
وطن عزیز ہندوستان بالآخر فرنگیوں کی طوقِ غلامی سے 15؍ اگست 1947ء کو آزاد ہوا۔ لیکن ہم فراموش نہیں کرسکتے 1857ء کی پہلی جنگ آزادی کو جسے انگریزوں نے غدر 1857 Revolt کا نام دیا۔ گوکہ بغاوت ناکام ہوئی لیکن اس سے تحریک آزادی کو تقویت ملی جس کا نتیجہ تھا کہ وطنِ عزیز ہندوستان دو سو سالہ انگریزی حکومت کی غلامی کے شکنجے سے آزاد ہوا۔
۲۰۲۰ء وہ پُرآشوب دور ہے جسے تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔ پورا سال Covid-19 Pandamic اور Lock Down کے زیر اثر رہا جس کے لئے مظفر رزمی کا یہ شعر صادق آتا ہے:
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
ایسے مشکل دور میں جہاں ہرطرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ شہر خموشاں کا منظر ہے۔ اس دور میں کسی کتاب کو شائع کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آج زمین پر پرندے پَر نہیں مار رہے ہیں تو آسمان پر طیارے پرواز کرتے نظر نہیں آتے۔ ایسے دور میں اس کتاب کو ترتیب دیتے ہیں۔ ڈاکٹر امام اعظم صاحب Luck down ہو یا Shut down، زلزلہ، سونامی یا پھر خلیج بنگال سے اٹھنے والا طوفان ’’بلبل‘‘، ’’آئیلہ‘‘ یا ’’امپھان‘‘۔ یہ کسی کی ذہانت اور فطانت پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتا ہے اور محرر کی تحریر اسی رفتار سے صفحۂ قرطاس پر رواں دواں ہے۔
زیر نظر کتاب ’’پہلی جنگ آزادی 1857ء میں اردو زبان کا کردار‘‘ سے اردو ادب کا دائرہ وسیع ہوگا تو دوسری جانب ہندوستان کی تاریخ کو سمجھنے کے لئے مشعل راہ ہے۔ اس کتاب کو شہر دربھنگہ سے تعلق رکھنے والے مجاہد آزادی مولانا عبدالعلیم آسیؒ اور فرزندانِ مولانا عبدالعلیم آسیؒ، انجینئر عبدالقادر (امریکہ)، اقبال احمد (مرحوم) ، ڈاکٹر جاوید صدیقی (امریکہ) کے نام منسوب کیا ہے۔
ہندوستان آزادی سے قبل ایک ایسے گرداب میں غوطہ زن تھا جنہیں ساحل پر لگانے میں مجاہدین آزادی نے اپنی جان کی۸ بازی لگادی تھی۔ اور عظیم قربانیاں پیش کیں جن کے نام تاریخ کے اوراق میں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں:
شہیدوں کے مزاروں پر لگیں گے ہر برس میلے

وطن پر مٹنے والوں کا یہی باقی نشاں ہوگا
زیر نظر کتاب ’’پہلی جنگ آزادی 1857ء میں اردو زبان کا کردار‘‘ 272 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں 255 سے لے کر صفحہ 264 تک اس کربناک ماضی کی تصاویر ہیں جنہیں دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور روح کانپ اٹھتی ہے۔ اور تحریک آزادی کے مناظر آنکھوں کے سامنے عیاں ہوتے ہیں۔ یہ تصویریں اس حقیقت کا غماز ہیں کہ ہندوستان کو آزادی دلانے میں علماء ، فضلائ، مجاہدین آزادی اور وطن کے جیالے سپوتوں نے کس کس طرح کی قربانیاں دیں کہ لکھنے میں ہاتھ لرزیدہ اور قلم میں لغزش پیدا ہوتی ہے۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی وہ تصویر ہے کہ جب انہیں انگریزی حکومت نے قید کرکے رنگون بھیج دیا۔ اسیر زنداں بہادر شاہ ظفر تب یہ لکھنے پر مجبور ہوئے:
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
عمرِ حیات مانگ کے لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہوگئی

پھیلا کے پائوں سوئیں گے کنج مزار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لئے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
وطن عزیز ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی نہ صرف ہندوستان کو انگریزوں کی طوق غلامی سے آزاد کرنے کی لڑائی تھی بلکہ قومی تہذیب کی بازیابی کی لڑائی بھی تھی۔ ڈاکٹر امام اعظم صاحب صفحہ 9 پر یوں رقمطراز ہیں: ’’ہمارے مجاہدین کے خون سے لکھی جانے والی اس جنگ آزادی کی تاریخ پر شکست کا عنوان چڑھ گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم جنگ ہارے نہیں بلکہ ان ہی مجاہدین کے خون نے آزادی کی بنا ڈال دی تھی جس کی تکمیل 1947ء میں ہوئی۔‘‘ بلاشبہ بغاوت 1857ء ہرچند کہ ناکام ہوئی لیکن اس تحریک آزادی کو فروغ ملا اور جس کے نتیجے میں ہندوستان 15؍ اگست 1947ء کو انگریزوں کی غلامی کے شکنجے سے آزاد ہوا اور 2007ء میں پہلی جنگ آزادی 1857ء کے ڈیڑھ سو سوال مکمل ہوئے اور سرزمین ِ دربھنگہ جو علم و فن کا گہوارہ اور تعلیم اور تہذیب کا مرکز ہے 28؍ اور 29؍ مارچ 2007ء کو دو روزہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔امام اعظم اپنے ایک مصرعہ میں یوں رقمطراز ہیں:
لکھنؤ سے کم نہیں ہے یہ متھلا کی سرزمیں
تاریخی یادگار سیمینار کا افتتاح سابق مرکزی وزیر ریلوے لالو پرساد یادو کے دست مبارک سے ہوا جس کا مقصد قومی شعور بیدار کرنا تھا اور اس موقع پر روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد کے تعاون سے پہلی جنگ آزادی مسے متعلق تصویروں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ اس سیمینار میں سرزمین ہند کے مختلف علاقوں سے بیشتر اسکالرز، دانشور، مدبر اکٹھے ہوئے اور مقالے پیش کئے جن میں پروفیسر مجید بیدار (حیدرآباد)، پروفیسر عبدالواسع (مظفرپور)، ابوذر ہاشمی (کولکاتا) ، پروفیسر آفتاب اشرف (دربھنگہ)، سیدحسین احمد( آرہ)، ڈاکٹر معراج اوگانوی (پٹنہ)، ڈاکٹر برکت علی(دربھنگہ)، حسن امام درد (دربھنگہ)، پروفیسر رئیس انور (دربھنگہ) شامل تھے۔ ان کے علاوہ پروفیسر عبدالمنان طرزی کا منظوم مقالہ ’’بہادر شاہ ظفر کی شاعری جنگ آزادی کے تناظر میں‘‘، سید محمود احمد کریمی کا تحریر کردہ مقالہ ’’بہادر شاہ ظفر کی شاعری زندان میں‘‘، پروفیسرخالد سعید کا مقالہ بعنوان ’’پہلی جنگ آزادی اور جنوبی ہند‘‘، پروفیسر رئیس انور کا مقالہ ’’پہلی جنگ آزادی کے بعد اردو زبان و ادب میں نئی کروٹیں‘‘ ، پروفیسر مجید بیدار کا ’’پہلی جنگ آزادی میں جنوبی ہند کا حصہ‘‘ شامل ہیں۔ سیمینار کے آخری دن بین الاقوامی مشاعرے کا اہتمام ہوا۔اپنے مضمون ’’پہلی جنگ آزادی کا تحریکی ادب ‘‘میں پروفیسر عبدالواسع صاحب نے اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار نقل کیے :
وطن کی فکر کر ناداں قیامت آنے والی ہے

تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہورہا ہے ہونے والا ہے

دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جائوگے اے ہندوستاں والو

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
صفحہ 233 پر ڈاکٹر امام اعظم صاحب کا ایک بہترین مضمون ’’1857ء کا صحافتی رجحان‘‘ کے عنوان سے ہے۔ مضمون کے آخری پیراگراف میں صفحہ 238 پر یوں رقمطراز ہیں:
’’بلاشبہ 1857ء کی پہلی جنگ آزادی میں سارے ہندوستان میں جرأت مندی و حوصلہ شناسی کے ساتھ ہندوستانیوں کو برطانوی اقتدار کے خلاف صف آرا کرنے، تمام مذاہب کے افراد کو ایک دوسرے سے قریب کرنے اور ان میں عزم و حوصلہ پیدا کرنے میں اردو صحافت نے جو رول ادا کیا اس کا تسلسل 1947ء تک شدت سے قائم رہا۔ اور آج بھی بہت حد تک وطن پرستی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے میں اردو صحافت اپنا مثبت کردار ادا کررہی ہے۔‘‘
اردو صحافت کے حوالے سے ان کے یہ خیالات حقیقت پر مبنی ہیں۔سید محمود احمد کریمی(ایڈوکیٹ) صاحب کا مضمون بعنوان ’’ظفر کی شاعری زندان میں‘‘صفحہ 241 پر یوں رقمطراز ہیں:
’’عہدِ مغلیہ کا آخری حکمراں بہادر شاہ ظفر ثانی اب چراغِ سحری کی طرح ٹمٹمانے رہے تھے۔ آنکھوں میں جلتے ہوئے آنسو، جسم پر پھٹے کپڑے ، بدحواسی اور مایوسی کا عالم، لال قلعہ کے تخت پر تاج پہن کر سلطانی کرنے والے شہنشاہ کی زندگی ایک ادھار لی ہوئی زندگی تھی جو تنگ و تاریک کوٹھری کی زینت بن گئی تھی۔‘‘
اور پھر یہ شعر رقم کرتے ہیں:
نہ دبایا زیرِ زمین انہیں نہ دیا کسی نے کفن انہیں

نہ ہوا نصیب وطن انہیں نہ کہیں نشانِ مزار ہے
کتاب کے آخر میں ایک اہم مضمون امیرِ شریعت، قائد ملت، فخر قوم سجادہ نشین خانقاہ رحمانی مونگیر حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب کا ہے ۔ بقول شاعر:
حبّ وطن سمائے آنکھوں میں نور ہو کر

سر میں خمار ہوکر دل میں سرور ہو کر
کُل ملاکر یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر امام اعظم صاحب کی یہ شاہکار مرتبہ کتاب ’’پہلی جنگ آزادی 1857ء میں اردو زبان کا کردار‘‘ دراصل اردو ادب اور تاریخ ہند کے درمیان ایک سنگ میل ہے۔ جہاں ایک طرف اس کتاب کی ورق گردانی سے اردو کے طلبا و طالبات فیض یاب ہوں گے تو دوسری جانب تاریخ کے طلبا و طالبات کے لئے بھی یہ مشعلِ راہ ہے۔ انہیں بھی اس کتاب کے مطالعے سے وطنِ عزیز ہندوستان کا وہ دَور نظر کے سامنے ہوگا جب یہ بحرانی دور سے گذر رہا تھا۔ پرانی بساط کے مہرے الٹ رہے تھے اور مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔
نہ صرف اتنا ہی بلکہ آج کے دور میں جہاں شیریں زبان اردو کو ختم کرنے کی سازش ہے اور یہ زبان بہت پُرآشوب دور سے گذر رہا ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کے جذبۂ حب الوطنی کو مشکوک نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ اس ضمن میں یہ کتاب ایک سند کی حیثیت ہے جہاں مسلمانوں کے جذبۂ حب الوطنی اور قومیت کا شاندار مظاہرہ کیا گیا ہے۔
یا یوں کہہ سکتے ہیں : ’’ہندوستان رشکِ خلدِ بریں اُگلتی ہے سونا وطن کی زمیں‘‘
آخر میں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وطن عزیز ہندوستان آزادی سے قبل ایک ایسے گرداب میں غوطہ زن تھا جسے ساحل پر لگانے میں مجاہدین آزادی کے لالے لگ گئے تھے اور پھر شاعر نئی نسل کے لئے یہ ہدایت دیتا ہے:
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے

اس دیش کو رکھنا مرے بچوں سنبھال کے
اور مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکوک نظروں سے دیکھنے والوں کے لئے یہ شعر کافی ہے:
مرکر ملی ہے چادرِ خاکِ وطن مجھے

مٹی نے اس زمیں کی دیا ہے کفن مجھے
اجڑا ہوا دیار ہے فخرِ دمن مجھے

اے ہند! پھر دکھا وہی شانِ کہن مجھے
میں اس کتاب’’پہلی جنگ آزادی 1857ء میں اردو زبان کا کردار‘‘ کی اشاعت پر ڈاکٹر امام اعظم کو تہہ دل سے پُرخلوص مبارکباد پیش کرتی ہوں اور ان کی صحت کے ساتھ طویل عمر کی دعاگو ہوں۔اپنے مضمون کو ان انگریزی جملوں کے ساتھ ختم کرتی ہوں :
It is a certificate to show the patriotism of Indian Muslims. It indicates the role of Muslim leaders, Ulemas, Freedom fighters to get independence from British rule. Now it is the duty of young generation to save our nation. Now we can proudly say, "Our India is great, Our India is incredible.ـ”
………
موبائل: 9088470916 ای میل: [email protected]

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا