بے نام خلش کو کیا نام دوں۔۔۔۔۔

0
0

 

 

ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ
(پرنسپل، ایس۔کے ۔اے۔ایچ ملّت کالج داونگرے، کرناٹک)

صنف نازک قدر ت کی حسین و دلکش کاریگری کا ایک بہترین نمونہ ہے جسے اللہ رب العزت نے بڑے احتیاط اوربڑی نزاکت سے تراشا ہے اور بے پناہ عظمت بھی عطا کی ہے ۔اللہ رب العزت نے اس کے سینے میں ایک ایسا نرم و نازک دل رکھا ہے جس میںدنیا جہاں کی محبت کے ساتھ ساتھ سکھ دکھ اور خوشی و غم سمانے کی قوت ہوتی ہے اور اگر وہ کچھ کرنے پر آمادہ ہوجائے توبڑے بڑے کارنامے انجام دیتی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جب سے اس نے زندگی کے مختلف شعبہ جات میںاپنے قدم جمائے ہیں تب سے ہر میدان میں اپنی لیاقت اور صلاحیت کا لوہا منوانے میں کوشاں ہے اور مرودوں کی اس دنیا میں وہ شانہ بہ شانہ ہی نہیں بلکہ دوقدم آگے چلتی دکھائی دے رہی ہے۔ماضی کی عورت کی بہ نسبت دورحاضر کی عورت کا حال جداگانہ ہے۔آج عورت گھر گرہستی بھی سنبھال رہی ہے ، بچّے بھی پیدا کر رہی ہے ،ان کی پرورش بھی کررہی ہے اورزندگی کی گاڑی چلانے میں مرد وں کا برابر ساتھ بھی دے رہی ہے۔اس کے علاوہ اپنی بے پناہ خدادادصلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کررہی ہے، چاہے وہ معاشرتی میدان ہو یا سماجی، سیاسی ہو یا اقتصادی ، سائنس ہو یاٹکنالوجی اور علمی ہو یا ادبی ۔آج وہ ہر شعبۂ حیات میں اپنے جوہر دکھا رہی ہے، لہٰذا میرے سامنے ایک ایسی ہی خاتون ہے جس کا نام صادقہ نواب ہے۔ شعبۂ درس و تدریس سے تعلق رکھتے ہوئے ایک عرصہ سے علم و ادب کے میدان میں اپنے وجود کا لوہا منوانے میںکوشاں ہے۔یہ اس جاندار ، فعال اور متحرک فنکار کا نام ہے جسے ہم ورسٹائل یا جنوئن پرسنالٹی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔
یہ وہ شخصیت ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ یعنی ادب کی ڈاکٹر ہے ، جس کا شعبۂ تدریس سے تعلق ہے ، کالج میںایک پروفیسر ہے،سمیناروں، کانفرنسوں اور ورکشاپوں میں شرکت کرتی ہے، بیک وقت شاعری بھی کرتی ہے، ناول نگاری میں بھی مہارت دکھاتی ہے، افسانہ نگاری میں بھی اپنی رعنائیاں بکھیرتی ہے ، ڈراما نگاری میں بھی یکتا ہے ، ترجمہ نگاری میں بھی اپنی قابلیت منواتی ہے ، تحقیق میں بھی سرکھپاتی ہے اورتنقید نگاری میں بھی اپنا نقش چھوڑتی ہے۔ جب کوئی ایک فنکار ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہو اور وہ ادب کی کئی اصناف پہ دسترس رکھتا اور ہر صنف میں اپنے افکار کے جلوے بکھیرتا ہو تو اس کے فن اور اس کی فنّی قابلیت پر بات کرنا دشوار کن امر ہو جاتا ہے۔کیونکہ وہ ہر صنف میں اپنا الگ اور جداگانہ ذہن اورانداز لے کر قاری کے سامنے آتا ہے۔لہذاڈاکٹرصادقہ نواب سحرؔکا معاملہ بھی یہی ہے۔
ڈاکٹرصادقہ نواب سحر ؔدر اصل ہندی کی پروفیسر ہیںجن کی مادری زبان اردو ہے۔اب تماشہ دیکھئے کہ انہوں نے اپنی مادری زبان سے بھی اپنا تخلیقی رشتہ روا رکھا ہے اور پیشہ ورانہ زبان کے ساتھ بھی وفاداری کا ثبوت دیا ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ انگریزی زبان ذریعۂ تعلیم ہونے کی وجہ سے اس میں بھی اپنے جوہر دکھایا ہے۔ اس طرح وہ بیک وقت ہندی ، اردواور انگریزی میں اپنے ادبی جلوے دکھاتی ہیں۔اکیسویں صدی کے اوائل میں جو خواتین اردو شعر و ادب کے افق پر ابھری ہیں، ان میں صادقہ نواب کا نام کافی اہمیت کا متقاضی ہے۔انہوں نے بہت کم عرصہ میں بہت لکھا اور جو کچھ بھی لکھا اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا،اسی لئے بہت قلیل عرصہ میں کافی ایوارڈز کے ساتھ ساتھ عزت ، شہرت اوردولت ان کے حصّہ میں آئی۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ وہ ہماری ریاست یعنی کرناٹک کی بہو ہیں۔ان کا نام بھی دلچسپ ہے۔ جب انہوں نے شادی کرلی تو شوہر کے نام کی مناسبت سے’’نواب ‘‘لگا لیا، ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تو’’ ڈاکٹر‘‘بن گئیں اور جب شاعری بہ الفاظ دیگر ساحری شروع کی تو ’’سحر‘‘ تخلص اختیار کیا اور وہ صادقہ بانو سے ڈاکٹرصادقہ نواب سحرؔ بن گئیں ۔آج برصغیر میں اسی نام سے جانی پہچانی جاتی ہیںاور کافی خوبصور ت بھی ہیں اور خوب سیرت بھی۔
ڈاکٹرصادقہ نواب سحرؔ کی اب تک جو کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ان میں انگاروں کے پھول(شاعری) ، پھول سے پیارے جگنو( بچوں کی نظمیں )،کہانی کوئی سناؤمتاشا(ناول)، مکھوٹوں کے درمیان(ڈرامے) ، خلش بے نام سی ( افسانے) اور جس دن سے (ناول) اہم ہیں ۔ان کے علاوہ ہندی میں سات کتابیں اور انگریزی میں ایک کتاب ’’غزل اینڈ اوڈ‘‘(تحقیق) بھی زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہے۔
اس وقت میرے سامنے ان کی چار کتابیں موجود ہیں اوران کتابوں نے مجھے تشویش میں ڈال رکھا ہے کہ ان پر کچھ خامہ فرسائی کروںتو کس پر کروں۔ اسی کشمکش کی بدولت میں تساہل پسند بن کر خاموش رہا۔اس کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ صادقہ نواب صاحبہ پر اتنا لکھا جاچکا ہے کہ اب ان پرکچھ لکھنا محض ’’اضافہ ‘‘ ہو سکتا ہے۔ہندوستان بھر کا کوئی بھی رسالہ اٹھا کر دیکھ لو یاہر دن سوشیل میڈیا پر دیکھ لو اس میں یاتو صادقہ نواب کی کوئی تخلیق ملے گی یا ان پر کسی کا لکھا ہوا مضمون ملے گا۔ دورِ حاضر میںدوسرے شعبہ ہائے زندگی سے ہٹ کر اگر ادبی میدان کی بھی بات کی جائے تو بسا اوقات یہ خدشہ لاحق ہونے لگتا ہے کہ اگر شہر ت حاصل کرنی ہے تو عورت ہونا چاہیے یا دولت ہونا چاہیے ،اتفاق سے یہ دونوں چیزیں یکجا ہوں تو سونے پہ سہاگہ ہوگا۔ لیکن بعض کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے جن میں ایک صادقہ نواب بھی ایک ہیں۔ان پر جوبھی لکھا گیا اور جتنالکھا گیا، وہ محض ان کی فنی قابلیت اور ادبی صلاحیت کے پیش نظر لکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود ’’ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ‘‘ کے مصداق ہے۔ڈاکٹرصادقہ نواب سحرؔ جس طرح دیگر اصناف میں اپنے تفکرات و تخیلات کو سپرد قلم کرتی ہیں وہیں افسانوی فن میںبھی زندگی کے مسائل پیش کرتی ہیں، لہٰذا میںنے اس وقت صرف ان کے افسانوی مجموعہ’’ خلش بے نام سی‘‘ پر کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے۔جس میںکل سولہ کہانیاں ہیں۔
افسانہ کے تعلق سے اتنی بات تو سب جانتے ہیں کہ اب وہ داستانوی قصّوں سے بہت دور حقیقت کی طرف آچکا ہے، لہٰذا صادقہ نواب کے افسانوں کے کردارنہ غیر انسانی اورمافوق الفطرت ہیں، نہ مقامات ان دیکھے اوران جانے ہیں ، نہ ہی قصّے یا کہانیاںنظریاتی ، تخیّلی ،تصواراتی ہیںاور نہ ہی متجسّس اور متحیّر ہیں بلکہ وہ ہمیں حقائق سے آگاہ کرنے اور سوچنے پر آمادہ کرنے والی ہیں۔یہاں کردار زندہ،حقیقی ہمارے سماج اور معاشرے کے وہ لوگ ہیں جو حقیقی ہیں اور ان کی زندگی بھی وہی زندگی ہے جو وہ کاٹ رہے ہیں یاجوجھ رہے ہیں۔ان افسانوں میں پیش کی جانے والی کہانیاں ان کرداروں کی ہیں جو ہمارے سماج کے دیگر طبقات کے لوگوں کی ہیں۔ صادقہ نواب نے اپنے سامنے کی زندگی کے واقعات و کیفیات اور حقائق سے اپنی کہانیوں کے تانے بانے بنے ہیں۔ان کے یہاں کرداروں کی زندگی کا جو کرب ہے وہ اصل زندگی سے تعلق رکھتا ہے ۔ان کے تمام افسانے پڑھتے جائیں، آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ انہوں نے اپنے آس پاس ، اڑوس پڑوس اور اپنے علاقہ، اپنے گاؤں اور دیگر ریاستوں کے شہروں اور دیہاتوں سے اپنی کہانیوں کے لئے کردار وں کا انتخاب کیا ہے اور انہیں اس طرح Deal کیا ہے کہ وہ جیتے جاگتے ہمارے سامنے والے نظر آتے ہیں ۔علاوہ ازیں انہیں سماج کے اعلیٰ طبقہ کے افراد میں بھی اخلاقی پہلو نظر آتا ہے ساتھ ہی انہیں سماج کے درندہ صفت لوگوں اور انسانی بھیڑیوں کی جانب سے معصوم اور بھولے بھالے لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم ، جبر و تشدد اور استحصال کا بھی شعورہے۔ان کے افسانوں میں تڑپتی بلکتی ،روتی ہوئی مجبور و بے بس زندگی بھی ملتی ہے اور ساتھ ہی زندگی کی خوشگواریاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں ۔
’’شرارہ‘‘میں شر پسند عناصر کو موضوع بنایا گیا ہے جسے آج کل ہم’’ تشدد‘‘یا ’’ دہشت گردی‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔اس میں بھی ممبئی شہر کی زندگی دیکھی جا سکتی ہے ۔جہاں صبح ایک رنگ اور شام ایک رنگ کی ہوتی ہے اور صبح کا گھر سے نکلا ہوا فردشام کو صحیح سلامت گھر واپس لوٹ آنے کی امید کچھ کم ہی دکھائی دیتی ہے۔وہاں صرف بم پھٹنے کی افواہ سے کیا ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے اور ہر طرف کس طرح ماتم چھا جاتا ہے ،اپنوں کی تلاش میں کس طرح لوگ مارے مارے پھرتے ہیں۔اسے بڑے دلدوز انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ رعنا کی نفرت کس طرح صرف بم دھماکہ کی افواہ سے محبت میں بدل جاتی ہے، جاوید سے ہمیشہ جھگڑنے والی جب اسے صحیح سلامت دیکھتی ہے تو اسے لپٹ جاتی ہے ۔اس میں تہذیبوں کا رچاؤ بھی دیکھا جاسکتا ہے اور خاندانی میل ملاپ بھی دیکھنے کے قابل ہے۔
’’ خلش بے نام سی‘‘ میں بھی ممبئی کا ماحول ہے جس میںدو پرانی سہیلیوں میںجب رشتہ داری کی نوبت آتی ہے توان کے دل بدل جاتے ہیں۔یہاں صبیحہ اور روبی دو ایسے کردار ہیں جن میں عجیب الجھن دیکھی جاسکتی ہے۔بالآخر جب شادی طے ہوجاتی ہے تونندروبی جو کہ صبیحہ پرانی سہیلی ہے وہی صبیحہ کی ماں کو بوجھ لگتی ہے۔صبیحہ کی ماںکی سوچ کو صرف ایک جملہ سے واضح کر دیا گیا ہے۔’’۔۔۔۔ اس ایک لڑکی کے رہتے تو ساری زندگی خوش نہ رہ سکے گی۔‘‘یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ہر گھر کا قصہ ہے یعنی جب کوئی لڑکی شادی کرکے بہو بن کرگھر آجاتی ہے تو بسا اوقات اسے دولہا کی بھائی بہن بھی بوجھ لگتے ہیں۔
صادقہ نواب کی ہر کہانی اپنا ایک الگ موضوع لیے ہوئے ہے اور ہر کہانی ایک الگ پس منظر لیے ہوئے ہے۔وہ سماج کی خانہ داراور پیشہ ورانہ خواتین اور مردوں کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور چھوٹے چھوٹے واقعات و کیفیات سے کہانی کے تانے بانے بُنتی ہیں۔کچن سے لے آفس ، سڑک سے لے کر شاہ راہ ، قریہ سے لے کر شہر ، ڈرائنگ روم سے لے کردفتر،بزنس سے لے کر ملازمت تک کی باتیں ان کے یہاں در آتی ہیں۔ان کے بیشتر افسانوں میں Joint family کاتصور پایا جاتا ہے جس میں بھائی بہن ، ماں باپ ، خالہ خالو ،چچا چاچی ، مامو مامی، گاؤں کی عمر رسیدہ خواتین یہاں تک کہ دور کے رشتہ دار بھی دکھائی دیتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کے اکثر افسانوں میں ’’عورت‘‘ مرکزی کردار ہوتی ہے اور ’’مرد‘‘ ضمنی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
افسانہ’’پہلی بیوی‘‘ میں افسانہ نگار نے ہمارے سماج کے ایک غریب و نادار ، مفلس و بے بس جوڑے کی تصویر کھینچی ہے جس کی دو بیویاں ہیں دوسری بیوی کانو مولود بچہ کا جب علاج نہیں ہوتا تو وہ مرجاتا ہے ۔ بچہ کو ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹر نے انکیوبیٹر میں پندرہ دنوں تک رکھنے کی تلقین کی اور بدلے میں روزانہ دو ہزار روپئے کے حساب سے تیس ہزار روپئے جمع کرنے کے لیے کہا۔اگر انسان ہوس کا شکار ہوکراپنی حیثیت سے بڑھ کر حدود پھلانگتا ہے تو اس کی لپیٹ میں اس کی زندگی ہی نہیں بلکہ اس سے وابستہ زندگیاں بھی خطرے میں آجاتی ہیں۔یہاں یوسف اپنی پہلی بیوی اور اس کے بچّے ہونے کے باوجود دوسری عورت کے عشق میں گرفتا ر ہوکر شادی کر لیتا ہے اورجب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی اتنی بھی حیثیت نہیں کہ علاج کرواسکے۔ ایسے ان گنت لوگ دورِ حاضر میں ہمارے سماج میں پائے جاتے ہیںاور ایسی مثالیںگنجان آبادی والے علاقوں ملتی ہیں ۔اس میں افسانہ نگار نے حالانکہ ایک غریب اور بے بس باپ اور دو ماؤں کی تصویر تو کھینچی ہے مگر وہ ایسے کردارپیش کئے ہیں جن سے ہمدردی بالکل نہیں ہوتی ۔حالانکہ ایک ایسی خاتون کا کردار یہاں موجود ہے جو ہر طرح سے اس بچے کا علاج کروانا چاہتی ہے مگرناکام رہتی ہے۔
صادقہ نواب کے افسانوں کے پلاٹ نہایت سادہ، سلیس اور وسیع ہوتے ہیںان میں بعض سنجیدہ اور بعض گمبھیر ہیں۔ان کے یہاں مشرقی تہذیب اور انسانی قدروں کی صاف جھلک دکھائی دیتی ہے۔رومانیت بھی اپنی ایک خاص معنویت رکھتی ہے جس میں عریانیت کی بو باس نہیں دکھائی دیتی۔ ’’چاہے ان چاہے‘‘ میں ہوٹل کے مالک کاایک کام والی کی طرف مائل ہونامگر حدود میں رہنا جمالیاتی حس کی بہترین مثال ہے۔
صادقہ نواب ایک فرض شناس فنکار کا نام ہے ۔انہیں کرداروں کو برتنے کے لیے جو زبان درکار ہے اس کا بھرپور شعور ہے۔ وہ ہر طبقے اور ہر معاشرے اور ہر فردکی اس کی اپنی زبان سے واقف ہیںاسی لیے جیسے کردارہوتے ہیں اور وہ جو زبان بولتے ہیںوہی زبان ان کے منہ میں دیتی ہیں اور وہ بھی مناسب اور معقول انداز میں۔ ان کے افسانوں کی زبان سلیس، سیدھی سادی ہوتی ہے جو موضوع اورکردارکے عین مطابق ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اپنے کرداروں کے پیش کش میں اور کہانی کے تسلسل یا ارتقاء میں خودزیادہ مداخلت نہیں کرتی ہیں بلکہ کرداروں کی زبانی مکالموں کے ذریعہ کہانی آگے بڑھاتی ہیں۔
صادقہ نواب کاتخلیقی سفر جاری ہے امید کہ وہ آنے والے دنوں میں مزید اپنے فکر و فن کی جولانیاں دکھاتی رہیں گی اور مستقبل میں ایک نسائی لہجہ کی پاسدار بن کر اسی کے حوالے سے جانی پہچانی جائیں گی۔
٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا