فہیم اختر۔لندن
[email protected]
www.fahimakhter.com
31 دسمبر2020 کو یوروپی یونین سے برطانیہ کوباضابطہ علیحدگی ہونے کے بعد ایک نئے عہد کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ برطانیہ کی آدھی آبادی کو یورپی یونین سے آزادی مل گئی۔دراصل میں نے اس لیے’ آدھی آبادی‘ لکھا کیونکہ چار سال قبل جب سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے برطانیہ کو یورپ میں رہنے اور باہر ہونے پر لوگوں کی رائے لینے کے لیے ایک ریفرنڈم کروایا تھا تو اس میں آدھے لوگوں نے حمایت اور آدھے لوگوں نے مخالفت کی تھی ۔یہ ریفرنڈم 2016 میںہوا تھااور جس میں آدھے سے تھوڑے سے زیادہ لوگوں نے یوروپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔جس میں خاص کر اسکاٹ لینڈ اور ناردن آئرلینڈ کے لوگوں نے یوروپی یونین کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔تاہم تب سے برطانیہ میں مسلسل’ بریکسٹ‘ ایک بحث بنی ہوئی ہے۔
23؍ جون 2016کو برطانیہ میں یورپ کے ساتھ رہنے اور چھوڑنے کے سوال پر سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ریفرنڈم کر وایا تھا۔ جس میں 52%فی صد لوگوں نے (Brexit)بر یکسٹ(یوروپین یونین چھوڑنے والوںکا گروپ) کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ تب سے برطانیہ میں سیاسی اورمعاشی طور پر ایک زلزلہ آیا ہوا ہے جو کچھ حد تک تو تھم گیا ہے لیکن اب بھی (Brexit)بر یکسٹ کا بھوت گاہے بگاہے کسی نہ کسی بہانے نمودار ہو تا رہتاہے جس سے سیاستداں سے لے کر عام آدمی تک سب نروس اور پریشان ہیں۔تاہم جب سے ڈیوڈ کیمرون وزیراعظم بنے ہیں انہوں نے دھیرے دھیرے برطانیہ کو یوروپی یونین سے علیحدہ کرنے کا کام شروع کردیا ہے ۔
چند سال قبل برطانیہ کی ہائی کورٹ نے حکومت کو یہ آرڈر دیا ہے کہ (Brexit)بر یکسٹ کی کاروائی کی، پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے۔اس فیصلے میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ (Brexit)بر یکسٹ کے سلسلے میں پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ برطانیہ کو یورپ چھوڑنے کی تاریخ کب اور کس طرح مقرر کرنی چاہئے۔یہ کیس جینا میلر ایک انوسٹمنٹ منیجر نے (Brexit)بر یکسٹ کی کاروائی اور حکومت کیخلاف دائر کیا تھا۔جس کے بعد یوروپی یونین سے علیحدہ ہونے کے تمام معاملات اب بنا پارلیمنٹ کی ووٹنگ کے طے نہیں ہوتے۔
اب بھی حالات اس حد تک ساز گار نہیں ہوئے ہیں کیونکہ کورونا سے بد حال لوگ فی الحال برطانیہ کے یوروپی یونین سے علیحدہ ہونے پر کچھ رائے قائم کرنے سے قاصر ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورِس جونسن اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کسی طرح برطانیہ کے لوگوں اور دنیا والوں کو یقین دلائیںکہ برطانیہ یورپ سے نکل کر بھی ایک مستحکم اور مضبوط معیشت والا ملک بن جائے گا ۔تاہم دھیرے دھیرے اب لوگ اس بات کے انتطار میں بیٹھے ہیں کہ چلو اب آنے والے دنوں میں دیکھا جائے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
یوں تو برطانیہ کی سیاسی صورتِ حال کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہے کیونکہ) (Brexitبر یکسٹ کے بعد تمام سیاسی پارٹیاں ریفرنڈم کے نتیجے سے برہم ہیں ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں ایک وجہ معیشت ہے جس سے بزنس کمیونٹی کافی نروس ہیں۔ اس کے علاوہ ایک طبقہ اس بات سے پر امید ہے کے (Brexit)بر یکسٹ سے ملک کی حالت بہتر ہوگی اور امیگریشن پر کنٹرول ہوگا۔یہ بات بھی سچ ہے کہ برطانیہ میں یورپ سے آکر بسنے والوں لوگوں کی تعداد دن بدن بڑھنے لگی تھی جس سے لوگوں کا غصہ بڑھنے لگا تھا۔ اور لوگ یوروپی یونین کی ’فریڈم آف موومنٹ ‘(یعنی یورپ کے تمام ممالک کے باشندے برطانیہ بنا روک ٹوک کے آ جا سکتے ہیں)کی سخت مخالفت کرنے لگیں۔
یوں بھی اب تک عام طور یہی دیکھا گیاہے کہ برطانیہ کے بریکسٹ حامیوں کا غصہ صرف اسی بات پر تھا کہ یورپ کے دیگر ممالک کے لوگ برطانیہ بنا روک ٹوک کے کیوں آرہے ہیں۔ اور پورا بریکسٹ بھی اسی بنا پر زیر بحث رہا۔ باقی باتیں خانہ پوری کی تھیں۔ جیسا کہ تجارت، یوروپی قانون ، اور دیگر لوازمات جو کہ صرف بحالتِ مجبوری کی جارہی تھیں۔اس کے علاوہ پچھلے ایک سال سے وزیراعظم پارلیمنٹ میں بس ایک ہی بات پر بحث و مباحثہ کرتے ہوئے پائیں گئے کہ یوروپی یونین کے ساتھ تجارتی مذاکرات کر لیے جائیںگے جو کہ برطانیہ کے حق میں ہوگا۔اس دوران برطانیہ یوروپی یونین کے تجارتی قوانین کے تحت کاروبار کرتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ یوروپی یونین کے لیڈر مستقبل کی اقتصادی شراکت داری کے بارے میں مذاکرات بھی کرتے رہے۔
آخر کار کرسمس کے موقعہ پر وزیر اعظم بورِس جونسن نے ٹیلی ویژن پر انگوٹھا دکھاتے ہوئے لوگوں سے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوروپی یونین سے مذاکرات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اور یہ برطانیہ کے لیے ایک کرسمس تحفہ ہے۔ہمارے جیسے لاکھوں لوگوں کو بورس جونسن کے انگو ٹھے کو دیکھ کر دو باتوں کا احساس ہوا ۔ ایک تو یہ کہ یہ ایک اچھی خبر ہے دوسرا انگوٹھا دکھانا یعنی ہم نے تمہیں الّو بنا دیا ۔خیر جب اوکھلی میں سردیا ہے توموسلوں سے کیا ڈرنا ۔
تجارتی مذاکرات مکمل ہوتے ہی کورونا کی دوسری لہر سے بے حال اور خوف زدہ لوگوں کو وزیراعظم کے انگوٹھے سے اس بات سے کچھ حد تک تو راحت ملی کہ ، چلو کچھ تو اچھی خبر آئی۔ یوں بھی حکومت کی سخت لاک ڈاؤن کی وجہ سے کرسمس تو پھیکا پڑ چکا تھا اور اس پھیکے کرسمس کے موقع پر جب برطانیہ اور یوروپی یونین میں تجارتی مذاکرات مکمل ہوگئے تو لوگوں کو کچھ راحت نصیب ضرور ہوئی ہے۔ بعد میں برطانوی پارلیمان کی منظوری کے بعد اب اس تجارتی مذاکرات نے برطانیہ میں قانون کا درجہ حاصل کر لیا۔
نئے انتظامات کے تحت برطانوی پیدوار کنندگان کو یوروپی یونین کی داخلی منڈیوں تک ٹیکس مفت رسائی حاصل ہوگی۔ اس تجارتی مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ سے یورپ جانے والی مصنوعات پر یورپ میں کوئی درآمدی ٹیکس نہیں ہوگا۔ مگر اس کا مطلب یہ ضرور ہے کہ یوروپی ممالک جانے والے لوگوں اور برطانوی کمپنیوں کو مزید کاغذی کاروائی کی ضرورت پڑے گی۔تاہم اس حوالے سے غیر یقینی
یہ بھی ہے کہ برطانوی معیشت کے بڑے حصے یعنی بینک اور خدمات کے شعبے کا مستقبل کیا ہوگا ۔ جو کہ اب بھی زیر بحث ہے۔
اسی دوران اس خبر سے بھی لوگوں میں حیرانی ہوئی جب وزیراعظم بورِس جونسن کے والد نے فرانسیسی شہریت کی درخواست دے دی۔ 80سالہ سٹیلے جانسن نے کہا کہ 2016میں انہوں نے بریکسٹ ریفرنڈم می یوروپی یونین کے ساتھ رہنے پر ووٹ دیا تھا۔ظاہر سی بات ہے باپ نے سوچا کیوں نہ زندگی کے آخری حصے کو اب فرانس میں گزار دیا جائے۔ تاہم فرانس اور برطانیہ آنا جانا یوں ہے، جیسے آپ صبح جائے اور شام کو لوٹ آئے۔ خیر اسی بہانے ممکن ہو کہ بیٹے بورِس جونسن کو پھرکبھی یوروپی یونین میں دوبارہ شامل ہونے کی ہمدردی جاگ جائے جو کہ فی الحال شاید ایک ناممکن بات ہے۔
پچھلے چار برس سے برطانیہ کا یوروپی یونین سے علیحدہ ہونے کا جو ریفرنڈم کرایا گیا تھا اور اس کے حمایتی جو خواب دیکھ رہے تھے ،آخر کاران کا یہ خواب 31دسمبر 2020کو پورا ہوگیا ۔یعنی برطانیہ پہلی جنوری 2021سے یوروپی یونین کے ماتحت کوئی کام نہیں کرے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ برطانیہ جب پورے طور پر کورونا سے پاک ہوگا تو اس کی معیشت اور حالات یوروپی یونین سے نکلنے کے بعد بہترہوئے یا بد تر۔ اب یہ تو آنے والے دن ہی بتائے گا ۔فی الحال ہم اعتبار، اعتماد اور امید ہی کرسکتے ہیں۔