آٹو چلا کر علیل والد کا ہاتھ بٹاتی ہیں

0
0

ضلع اودھم پور کی پہلی خاتون آٹو ڈرائیور بنجیت کور

یواین آئی

جموں؍؍جموں وکشمیر کے ضلع اودھم پور سے تعلق رکھنے والی ایک 21 سالہ طالبہ نے آٹو رکشا چلا کر اپنے علیل والد کا ہاتھ بٹانا شروع کیا ہے بلکہ ضلع کی پہلی خاتون آٹو ڈرائیور بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔ضلع اودھم پور کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی بنجیت کور آٹو چلا کر گھر کی آمدنی بھی بڑھا رہی ہیں اور شام کے وقت پڑھائی کرکے بی کام کی ڈگری بھی کر رہی ہیں۔بنجیت کور کا کہنا ہے کہ جب کورونا کے پیش نظر نافذ لاک ڈاؤن کے باعث میرے والد، جو ایک نجی اسکول کی گاڑی چلاتے ہیں، بے روزگار ہوگئے تو میں نے آٹو چلا کر گھر میں روزی روٹی کا بند وبست کرنا شروع کیا۔انہوں نے میڈیا کو بتایا: ’میرے والد ایک نجی اسکول کی گاڑی چلاتے تھے کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ بھی بے روزگار ہوگئے، گھر کا گذارہ چلنا مشکل ہوگیا تو میں نے آٹو چلانا شروع کیا تاکہ روزی روٹی کا بندو بست ہوسکے‘۔موصوفہ نے کہا کہ میں دن کے وقت آٹو چلا کر نہ صرف گھر کے گذارے کو چلاتی ہوں بلکہ لوگوں کی بھی اس طرح خدمت کرتی ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں شام کو خود بھی پڑھائی کرتی ہوں اور بی کام کی ڈگری کو جاری رکھے ہوئے ہوں اور بچوں کو بھی پڑھاتی ہوں جس سے آمدنی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آٹو چلانے سے تعلیم کسی حد تک متاثر ضرور ہوتی ہے لہٰذا اگر حکومت میری پڑھائی کا خرچہ ذمہ لے گی تو میں آٹو چلانا چھوڑ دوں گی اور ساری توجہ تعلیم پر مرکوز کروں گی۔بنجیت کور آٹو ڈرائیور کے علاوہ این سی سی کیڈٹ بھی ہیں اور فوج میں بھرتی ہونے کی خواہشمند بھی ہیں۔اس بارے میں ان کا کہنا ہے: ’میں این سی سی کیڈٹ بھی ہوں اور فوج میں بھرتی ہونے کی خواہشمند بھی ہوں اور فوج میں بھی افسروں کی گاڑیاں چلانا میرا شوق ہے۔موصوفہ نے کہا کہ میں آٹو چلانے میں کسی قسم کی کوئی شرم محسوس نہیں کرتی ہوں بلکہ بہت ہی خوشی اور جذبے سے ڈرائیونگ کرتی ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد سے آٹو چلانا سیکھا اور سال 2017 میں مجھے ڈرائیونگ لائسنس بھی مل گئی۔ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ محکمہ کے افسروں نے میری کافی حوصلہ افزائی کی۔ایک سوال کے جواب میں بنجیت کور نے کہا: ’جب تک میرے والد کی آمدنی بڑھ نہ جائے گی میں تب تک آٹو چلاؤں گی اس کے بعد میں آٹو چلانا بند کرکے تعلیم کی طرف ساری توجہ دوں گی‘۔موصوفہ نے کہا کہ جموں وکشمیر میں لڑکیوں کو زیادہ تر باہر نکلنے نہیں دیا جاتا ہے لیکن جس طرح میں باہر نکلی ہوں اسی طرح باقی لڑکیوں کو بھی باہر نکل کر اپنی پسند کا کام کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ لڑکیاں باقی دنیا میں تمام شعبوں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی ہیں لہٰذا یہاں بھی کر سکتی ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا