چشمہ فیض جو دریا تھا

0
0

چوہدری طالب حُسین
سابق ممبر پارلیمنٹ (لوک سبھا)
پڑھنا میری عادت ہے لیکن فنی و ادبی لحاظ سے معیاری عبارت لکھنا میرے بس کا روگ نہیں ہے۔یہ کام اُس وقت اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب کسی شخصیت کے بارے میں اسے انجام دینا پڑے۔البتہ اس بات سے بھی انکار نہیں کرتا کہ میں کچھ بھی نہیں لکھتا۔لوگوں کی طرح میرے بھی اپنے مشاہدے اور نظریئے ہیں جنہیں میں کبھی کبھی رقم کرتا رہتا ہوں۔
دراصل میری مصروفیات ہی کچھ اس نوعیت کی ہیں کہ یکسوئی اور الہماک سے لکھنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا۔جو تھوڑا بہت لکھا ہے وہ انگریزی میں ہے جسے گاہے بگاہے اخباروں نے بھی جگہ دی ہے۔اُردو میں جو تھوڑا بہت لکھا ہے وہ قلم برداشتہ ہی لکھا گیا ہے۔اس لئے اس میں تقسیم و ترمیم کی گنجائش باقی رہ گئی ہے۔میری عبارت کو معیاری و ادبی بنانے کا حق طلباء و طالبات کو حاصل رہے گا کہ وہ میرے خیالات و انکار کے مرکزی نقطے کو چھیڑے بغیر نگار شات کی نوک پیک سنوارنے کے مجاز ہوں گے۔
یہاں پر جو کہنے کا مقصد ہے وہ یہ ہے کہ زیر نظر رسالہ کو جسے میں چوہدری رشید اعظم انقلابی کے مسلسل اصرار پر لکھ رہا ہوں ،اسے اِسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے جس کا میں نے ابتدا کی کلات میں ذکر کیا ہے۔
انقلاب کی شخصیت اور پیغام
فیض حُسین انقلاب کی شخصیت کے بارے میں دوسرے حضرات نے جو لکھا ہے وہ قابل قدر ہے اور اس میں اضافہ کی بہت کم گنجائش ہے۔اُن کی ہمہ پہلو شخصیت سے متعلق جو بات میں جہاںپر دوہرانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ فیض حُسین انقلاب تحریک آزادی کا ناقابل فراموش حصہ ہے۔اس لئے اُن کی ذات انفرادی نہیں بلکہ اپنی طرز کا ایک فیض رساں ادارہ (Instituation) بن گئی ہے۔میرا پختہ یقین ہے کہ تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ انقلاب کی شخصیت مزید نکھر کر اُبھرے گی اور آنے والی نسلیں انقلاب جیسے معیار نما مُصلح قوم اور قد آور رہنما (Stawlwart) پر فخر کرتی رہیں گی۔
یوں تو میں انقلاب کو مختلف موقعوں پر دیکھ سُن چکا تھا لیکن ان کے جاننے سمجھنے کے لئے یہ کافی نہ تھا۔ابتدا میں میرے نا پختہ شعور نے بس اتنا اندازہ لگایا تھا کہ انقلاب ایک آتش بیاں مقرر ہے جو مجمع کو مسعور کر دیتا ہے،غریبوں اور مظلوموں کی لڑائی لڑتا ہے اور سماج کے دبے کچلے عوام کی حمایت میں حکمرانوں سے ٹکرانے والا شجاعت مند شخص ہے۔
مجھے انقلاب کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا جب میں سوشل ویلفیئر آفیسر تعینات ہو کر داخل دفتر ہوا جہاںپہلے ہی سے انقلاب ،بیتاب (مرحوم چوہدری محمد علی اور سماجی کارکن مہاشہ چند اور خواجہ رفیق احمد شال خدمات انجام دے رہے تھے داخل دفتر کا نقطہ میں نے جان بوجھ کر اس لئے استعمال کیا ہے کہ بخشی صاحب نے بعض محکموں باالخصوص محکمہ دیہات سدھار اور سوشل ویلفیئر کو اپنے رفیقوں اور رقیبوں کی بھرتی ( Dumping) کے لئے مختص کر رکھا تھا ۔لیکن ایک بات تعریف کے لائق ہے کہ انہوں نے ہر ایرے غیرے نتُھو خیرے کو اِس چراہ گاہ میں داخل نہیں کیا۔تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چراہگاہ میں داخل نہیں کیا بلکہ ان کی نظر عنایت ان لوگوں پر پڑی جو واقعی فہم وفراست کے مالک تھے۔
بہر حال جب میری تقرری ہوئی وہ بخشی صاحب کا زمانہ نہیں تھا۔میں بی۔اے پاس کر چکا تھا اور میرا شعور کچھ بڑھ گیا تھا ۔سیاست اور سیاسی جماعتوں کے نظریات (Ideology) اب میری سمجھ میں آنے لگے تھے اور یوں میری طبیعت انقلاب کی باتوں کو قبول کرنے لگی تھی۔
مجھے یہ جاننے میں دیر نہ لگی کہ دفتر میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہ تھی۔رفیق احمد شال صاحب ( ضلع افسر) جو مر نجاں مرنج قسم کے سیدھے سادھے اور خدا ترس آدمی ہیں جو اپنے کام سے کام رکھتے جبکہ دفتر چھوٹا موٹا سیاسی اکھاڑہ بن چکا تھا جس میں داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ کسی سرکاری محکمہ کا دفتر نہیں بلکہ مختلف سیاسی پارٹیوں کا مشترکہ ہیڈ کوارٹر ہو،جہاں پر ملکی و بین الاقوامی سیاست اور حالات و واقعات پر بولنے بلکہ بحث کرنے کی مکمل آزادی تھی۔عملہ کے دو واضح دھڑے تھے ۔ایک دیہی و اخلاقی اقدار کا علمبردار تھا تو دوسرا جس کی قیادت بلا شرکت غیرے فیض حُسین انقلاب کے ہاتھوں میں تھی ترقی پسند ( Progressive Politics) سیاست کے میدان کے اولا لغرم شہوار تھے۔کچھ عرصہ میں نے غیر جانب دار (Natural) رہنے کی کوشش کی جو بے کار ثابت ہوئی۔بالاآخر میں نے طاقتور ( انقلاب ) کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔یہ فیصلہ مجبوری کا تھا نہ کہ رضاکارانہ تھا ۔بعد میں محسوس ہونے لگا کہ انقلاب کی شخصیت مجھ پر چھا رہی تھی اور اس کی چھاپ میری کردار سازی پر پڑنے لگی تھی۔
پہلے پہل تو مجھے یہ سب محض تفریح طبح کا بہانہ(Partime) لگا لیکن جوں جوں میں انسانی صلاحیتوں اور ضرورتوں پر غور کرنے لگا تو جمہوری اقدار ( Democratic Values) میں میرا عقیدہ غیر متزلزل ہوتا چلا گیا۔اس وقت میںایک قدم اور آگے بڑھ کر ( Libral Democracy) کا قائل بن گیا جسے آج میں بین الاقوامی امن و آشتی اور عالم گیریت اور سماجی سیاسی و معاشی انصاف کا ذریعہ مانتا ہوں۔ڈیموکریسی سب سے پہلے اور رائے عامہ جو لازم و مظلوم ہیں کا مفہوم و مطلب میں نے انقلاب صاحب سے سیکھا ہے میں اِن ماہرین سیاست کے اِس نقطہ نظریئے صرف اتفاق ہی نہیں کرتا بلکہ اُس کا دائمی بھی ہوں کہ دنیا کے مجموعی مسائل کا حل مضبوط ڈیموکریسی جمہوریت ،عوامی راج ) میں مضمر ہے۔جس ملک میں ڈیمو کریسی کمزور ہو گی وہ تعمیر و ترقی کے جملہ امور میں پسماندہ رہ جائے گا۔قوموں اور ملکوں کی ہمہ پہلو فلاح کے لئے ضروری ہے کہ جمہوری اداروں جن میں رائے عامہ( ووٹ) بھی شامل ہے کے لئے جدو جہد کی جائے۔اس جدو جہد کی غزل کا نام انقلاب ہے۔جو لوگ محض عارضی اور بے اثر اقدام سے کمزور ڈیمو کریسی کا علاج کرنا چاہتے ہیں وہ صرف وقتی علاج اور ( Patch work) ہے۔کم یا کمزور ڈیمو کریسی کا علاج زیادہ ڈیمو کریسی سے ممکن ہے اس لئے کہ ڈیمو کریسی کا کوئی متبادل نظام نہیں جو تمام قومیتوں،طبقوں اور گروہوں کو ساتھ لے کر مطلوبہ منزل تک پہنچتا ہو۔
فیض حُسین کو انقلاب بننے تک جو عرصہ لگا وہ زیادہ نہیں ہے۔وہ گھر سے نکلے تو سیدھے اس کارواں میں شامل ہو گئے جس کی قیادت متحدہ ہندستان کے سربرآورہ اور نامور لیڈر کر رہے تھے ۔قومی سطح پر ان کا تعلق زیادہ تر مولانا ابوالکلام آزاد،علامہ اقبال، پنڈت جواہر لعل نہرو اورجناب بھاشانی جیسے رہنما یان تحریک آزادی کے ساتھ تھا۔انہوں نے مہاتما گاندھی اور قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی قریب سے دیکھا تھا۔ان شخصیات کے علاوہ ریاستی سطح پر جن لوگوں کا وہ اکثر و بیشتر ذکر کرتے رہتے تھے اُن میں حضرت میاں نظام الدین ؒ لاروی، سید عطا اﷲ شاہ بخاری ، اﷲ رکھا ساغر، مرحوم مرزا محمد حُسین ،مرحوم چوہدری دیوان علی ، رام پیارا صراف اور کرشن دیو سیٹھی او راجہ محمد اکبر خان شامل ہیں ۔قومی سطح پر بعض جن کے ساتھ ان کے سیاسی اختلاف تھے کو چھوڑ کر باقی اکابرین کا گہرا اثر انقلاب کی تعمیر پر پڑا۔علاوہ ازیں جن مصاحبوں کو میں نے انقلاب کے ہمراہ اٹھتے بیٹھتے دیکھا اُن میں خواجہ عبدالعزیز شال،مرزا محمد اقبال ،مرحوم چوہدری محمد حُسین ،چوہدری گلزار احمد ،(سابق ممبران قانون سازیہ ) نوراُلدین کٹاریہ،پنڈت دیو راج،کامریڈ ایشر داس ،سروری کسانہ ،مولانہ دل محمد ،مقبول احمدرضا،چوہدری محمد یعقوب بھٹی اور مرحوم چوہدری محمد شفیع فتحپوری سر فہرست ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیض حُسین انقلاب جب سیاست کے منظر عام پر آئے ،ریاست میں وہ تبدیلی (Transition) کا دور تھا۔شخصی راج (Autocracy) تو ختم ہو چکا تھا لیکن اس کی جگہ چند افراد کی سیاسی ادارہ داری ( Hegemony) نے لے لی تھی۔کہنے کو تو ڈیمو کریسی تھی لیکن الیکشن کبھی صاف و شفاف نہیں ہوتے تھے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ الیکشن سرے سے ہوتے ہی نہ تھے تو بے جا نہ ہو گا۔حکمران ٹولہ عوام کی قضا و قدر کا مالک بن بیٹھا تھا اور جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مصداق سیاسی،سماجی اور معاشرتی و معاشی فیصلے کئے جاتے تھے۔ریاست میں حکمران پارٹی کے علاوہ کوئی بھی سیاسی پارٹی،فرد یا افراد ،اقتدار میں آنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ سیاسی منشور یا نکتہ ء نظر Ideology) ) کی سیاست کے بجائے لوگ حکمران پارٹی کے خواہ مخواہ معتقد ( Followers) بن گئے اس دور میں اگر کوئی متبادل پارٹی موجود ہوتی تو انقلاب کو جمہوری انقلاب لانے کا زیادہ بہتر راستہ مل گیا ہوتا ۔جو سیاسی گروپ یا پارٹیاں تھیں وہ بھی اتنی کمزور کر دی گئی تھیں کہ وہ عوام کو ساتھ لے کر ثابت قدمی سے چلنے کے اہل نہیں تھیں انقلاب نے جب ایسی سیاست کا تماشہ دیکھا جہاں نہ ڈیمو کریسی تھی اور نہ ہی کوئی فکری و جمہوری عمل تھا۔انہوں نے بخشی غلام محمد کی نیشنل کانفرنس کے کیمپ میں جا کر رائے عامہ کا نعرہ بلند کر دیا لیکن لاٹھی والا بھینس لے کر چلا گیا۔البتہ انقلاب صاحب کو اتنا کریڈیٹ ضرور دینا چاہئے کہ راجوری والوں نے پہلی مرتبہ اپنی دھرتی سے رائے عامہ ( ووٹ) زندہ باد کا نعرہ سنا اور جس کی بدولت اپنی بھینس نہ سہی کچھ نہ کچھ مل گیا تھا۔یہ نعرہ عوامی بیداری اور جمہوری اقدار کا نقارہ بن گیا۔حق گوئی و بیساکھی کی یہ صدا گھر گھر کی آواز بن گئی۔محفلوں میں انقلاب کی چرچا ہونے لگی۔ان کے مندرجہ ذیل جُملے ہر باشعور فرد و بشر کی زبان پر آ گئے۔
ــ’’انقلاب کو کون روک سکتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ایک دفعہ 1947 ء میں آیا تھا ،اب پھر آنے والا ہے‘‘
’’ انقلاب سے سبق حاصل کرو ۔ ۔۔۔۔۔اس کے نام سے امریکہ جیسی طاقتیں بھی لرز تی ہیں ۔‘‘
’’فیض حُسین انقلاب کو دبایا جا سکتا ہے لیکن رائے عامہ کو کبھی نہیں دبایا جا سکتا۔‘‘
’’ انقلاب کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلو۔سُست پڑ جاؤ گے تو کارواں تمہیں کچل دے گا۔ ۔۔ وغیرہ ‘‘
انقلاب کے نقطئہ و نظریات
فیض حُسین انقلاب جمہوریت اور اس کے تمام اہم پہلوؤں مثلا ًرائے عامہ ،آزادی تقریر،سماجی انصاف ، اقتصادی و معاشرتی مساوات وغیرہ کا علمبردار تھا۔رائے عامہ اور ڈیمو کریسی کے بارے میں میں نے پہلے ہی ذکر کر دیا ہے۔اس لئے کہ انقلاب کی شخصیت اور جمہوریت ( رائے عامہ ) لازم و ملزوم ہیں جنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ایک غیر جمہوری ( Undemocratic) انقلاب انقلاب نہیں ہو سکتا لیکن ان کے فکر و نظریہ کا اصل جوہر ان کی ترقی پسندی تھی۔وہ برل ڈیموکریسی کے زیادہ قائل نہ تھے۔وہ سخت اور فعال و متحرک ((Delivering) ڈیمو کریسی کے دائمی تھے اختصار سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ ڈیموکریسی ایسی روش کی وکالت کرتے تھے جو جمہوریت اور عوامی ڈکٹیٹر شپ کے بین بین چلتی ہو۔اتنی نرم بھی نہ ہو کہ انسانی خدمات کی بطریق احسن ذمہ داری نبھانے کے قابل نہ ہو۔اور نہ ہی اتنی سخت کہ لوگ اسے کڑوا گھونٹ سمجھ کر چھوڑ دیں۔ چنانچہ اسی وجہ سے میں انہیں سوشلسٹ ڈیمو کریٹک سمجھتا ہوں نہ کہ کمیونسٹ وہ ایک سیدھے اور صاف گو مسلمان سوشلسٹ تھے۔وہ بہروپئے اور نقلی پیر فقیروں اور مذہب کے ٹھیکیداروں سے نفرت کرتے لیکن علماء و اولیا ء اﷲ کے بڑے قدر دان تھے۔وہ انسانی بھائی چارہ ،افوت اور ساولیت کے علمبردار تھے۔
انقلاب بحیثیت سماجی معلم :۔
انقلاب علم و حکمت اور سائنس و ٹیکنالوجی کو انسانی معراج کا موثر ذریعہ مانتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ علم و حکمت قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہے،جو اس سے محروم رہا۔اس نے گویا سب کچھ کھو دیا۔وہ سائنسی وقتی تعلیم کی ترغیب دیتے رہتے۔فیض حُسین انقلاب ان لوگوں سے سخت نالاں تھے جو اب تک اوبام پرستی کے جال میں پھنسے ہوئے تھے۔وہ ایسے لوگوں کو اپنے پاس بٹھاکر سمجھاتے اور بچوں کو سائنس پڑھانے کی تلقین کرتے۔
انقلاب بے زبانوں کی زبان تو تھا ہی لیکن اس سے بڑھ کر وہ معاشرہ کے امراض کا ایک تجربہ کار نبض و معالج بھی تھا ۔وہ لا علمی و جہالت کی تحریکیوں کی شمع فروزہ تھا۔اُس کی ہر بات میں تعلیم و حِکمت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخلاقی اقدار کا علمبردار :۔
انقلاب دوسروں کے لئے وہی کچھ پسند کرتا تھا جو اپنے لئے پسند کرتا تھا۔وہ بھولے بھٹکے اور گمراہوں کے لئے چراغ راہ تھا ۔وہ لاچاروں ،کمزور وں اور کسمپُرسوں ،ناداروں و غریبوں کا زبردست ہمدرد و غمگار تھا۔وہ سماجی نا انصافی کے خلاف لڑائی لڑنے والا بے خوف و نڈر سپاہی تھا۔وہ احساس کمتری اور احساس برتری دونوں کا دشمن تھا۔وہ آدم زاد تھا۔وہ ظلم و نا انصافی سے چیختی چلاتی آدمیت اور سسکتی و کراہتی انسانیت کا مسیحاتھا۔وہ بھولے بسرے محروم اور ستم رسیدہ بچوں کا مُشفق و مُحب باپ بھی تھا۔
انقلاب ہمیں دولت و امارت کا مژدہ نہیں سناتا اور نہ ہی دنیا کے شیش حملوں کی سیر کرواتا ہے۔وہ ہمیں افلاس زدہ و بے یارو و مدد گار لوگوں کے جھونپڑوں میں لے جاتا ہے جہاں پر مُفلسوں اور فاقہ کشوں کی زندہ لاشیں ہیں۔ہڈیوں کے ڈھانچے ہیں جن کے درمیان زمین پر مینڈک کی طرح رینگتی ننھی رضیہ ہے جسے دُکھ سُکھ کا کوئی احساس نہیں،جس کی معصوم ہنسی زمانہ کے لئے عبرت کا تازیانہ ہے اور انقلاب کے لئے محبت کا فسانہ بھی ہے۔اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس دم انقلاب نے رضیہ کو زمین سے اُٹھا کر بام شریا تک بلند کیا ہو گا تو خدا نے فرشتوں سے کیا کہا ہو گا۔رضیہ کی کائنات تو بدلنی ہی تھی لیکن انقلاب کے گھر کی دنیا بھی اس نئی دریافت سے بدل گئی اور ہمارے ماحول کا سوشل ڈیموکریٹ انسانی ہمدردی کا بے مثال نمونہ بن گیا جو اب یہ چشمہ فیض رضیہ کے مٹی کے حرم سے دریا بن کر نکلا جس نے اخلاقی قدروں کی آبیاری کی۔
ـ؎ دوڑ پیچھے کی طرف ہے گردش ایام تو
تخلیق داستان ِ رضیہ
داستان رضیہ زمانہ کی بیداری کی داستان ہے جسے فیض حُسین انقلاب نے رقم کیا۔تصنیف کا ادبی وقتی معیار کیا ہے ۔ مجھے معلوم نہیں اس لئے میں خود بھی کوئی فنکار یا تعاد نہیں کہ اسے فنی کسوٹی پر پرکھ سکوں۔اس کمزوری کا اعتراف میں اس معاملہ کی ابتداء میں کر چکا ہوں ۔ویسے بھی مجھے اس تخلیق کے ادبی پہلوئوں سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔ مجھے تو خوشی ہے کہ اس بندئہ آزاد نے جاتے جاتے جو رقم کردیا ہے وہ دریاکو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔کتاب کا مرکزی نکتہ اس کا جوہر ہوتا ہے۔اس لحاظ سے یہ چھوٹی سی تخلیق بڑی جامع اور بامقصدتصنیف ہے۔ انقلاب کامقصد کسی ادبی تصنیف کا نہیں تھا بلکہ پیغام پہچانے کا تھا جو کہ حقہ،پورا ہوتا ہوانظر آتا ہے۔وہ خود لکھتا ہے کہ داستانِ رضیہ کے قلمبند کرنے کا مقصد تخلیقی ادب نہیں ۔وہ اپنی تصنیف کا تعارف کرواتے ہوئے رقمطراز ہے۔
ـِــ’’ میں فیض حسین انقلاب اپنے انسانی اصولوں کے مقصد منصب العین کی رو سے اقرار کرتا ہوں کہ تحریر ہذا (داستانِرضیہ)ذاتی شہرت، پبلیسٹیی یا تفریح کیلئے نہیں لکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔میں اپنے ذہن و عقل اور شعور سے بنائے تعمیر و ترقی ، انسانی بھائی چارہ اور قومی یکجہتی پر مبنی اظہار رائے برائے ہونہار بچگاں۔۔۔۔۔۔۔سر انجام دے رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کے بعد اگر کوئی انقلاب کی اس تخلیق کوتنقید کاموضوع بناتا ہے توہ وہ مناسب نہیں ۔ہمیں اس تحریر کو اسی کا زاویہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے جس نظر یا نظر یّہ کے تحت انہوں نے اسے قلمبند کیاہے۔
اُن کی تحریر آسان فہم اور سادہ ہے۔وہ اپنا پیغام میز بانِ رضیہ پہنچانا چاہتے تھے،جو انہوں نے کامیابی سے پہنچا دیا ہے اور بس اس تصنیف میں ارباب ِ پست و کشاد اور سماج کے ذمہ داروں سے گلے شکوے کئے گئے ہیں ،جو معاشرہ کے باشعور لوگوں کیلئے ایک درس ہے ۔ سوسائٹی کے ایسے افراد کیلئے عبرت ہے جن کی آنکھیں ہیںلیکن دیکھتے نہیں اور جن کے کان ہیں لیکن سنتے نہیں اور اپنی جہالت کو علم اور اپنی بے عقلی کو عقل سمجھتے ہیں
میں نے جب داستان رضیہ پڑھی مجھے ایسے معلوم ہوا کہ کہانی زبردست اور شعوری جرات اور خدا داد بیساکھی کی حامل ہے موضوع انتخاب میں حُسن و رعنائی بھی ہے اور معاشرہ کے کوڑھ کے بدنما داغ بھی ہیں۔بے توجہی ، کس پرسی، خود غرضی ،نفس پرستی اور احساسِ برتری کے گناہوں کی ظلمتیں و تاریکیاں بھی ہیں۔اپنی بانہوںمیں لئے جب انقلاب ؔ رضیہ کو اِدھر اُدھر گھماتا ہے یا پھراپنے ہمراہ کشمیر کی سیر کو لے جاتا ہے تو وہ عین شفقت سے اس (رضیہ )کو سب کچھ بتلاتا چلا جاتا ہے۔گویاوہ کہہ رہا ہو ۔ آئو دیکھو ،بھُوک کے ما رے انسانوں کو،ٹھکرائے ہوئے بچوں کو ،مظلوم و بے بس عورتوںکو ،عیش کدوں میں رہنے والوں کو، مطلق انسان حکمرانوںکواور سیاسی بھوکوں کی دیتا کو۔۔۔۔۔۔۔۔ ان بزرگوں اور ولیوں اور انسانی روح کو بلند کرنے والے صوفیوں کو،پڑھتے لکھتے ہونہار بچوں ،کھیلتے کودتے صحت مند طالب علموں کو ۔۔۔۔۔اس میں تمہارے لئے درس بھی ہے، تربیت بھی اور لوگوں کیلئے عبرت بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔
داستانِ رضیہ لکھ کر انقلاب نے خفتہ انسانی جذبات و ماسات کو بیدار کرنے کی نتیجہ خیز کوشش کی ہے۔وہ رضیہ کو ہر جگہ لے جاتا ہے۔وہ امیروںکے عمارت خانوں میں اور غریبوں کے دُھواں آلود جھونپڑوںکے اندر بھی منہ ڈال کر مشاہدہ کرتا ہے۔ وہ فرقہ پرستی، طبقہ واریت ، نفرت، حوس اور امتیازات کے ناپاک جراثیم کی تلاش کرتا ہے اور ان کا علاج بھی ڈھونڈتا ہے۔
قلمکار نے ان احساسات کی عکاسی کرکے ایک مخصوص ماحول اور ایک خاص طبقہ (جو طبقہ مظلوموں اور کمزوروں کاہے ) کی نمائندگی کی ہے اُس کے نزدیک ظالم ۔۔۔۔ہر جگہیں اِدھر اُدھر ہر جگہ ہیں۔
رضیہ کی یہ داستان حق و باطل کی کشمکش ہے جسے شعلہ تراج انقلابی مصنف نے تحریر کیاہے۔ اس سے یہ توقع رکھناکہ وہ شعلوں سے گزرے قلم کو پانی میںڈبو کر لکھے گامشکل ہے۔وہ سارے ماحول کا بڑی باریک بیتی سے تجزیہ کرتا ہے اور اس نتیجہ پرپہنچتا ہے کہ امتیازات، تعصبات اور عدم مشاورت کاکوئی نہ کوئی ذمہ دار ہے۔ وہ ایسے سماج یا افراد سے سمجھوتا (Compromise)نہیں کرنا چاہتا بلکہ اسکو بدلنا چاہتا ہے۔
داستانِ رضیہ کی بنیاد کس طبقہ پر نہیں بلکہ ظالم و مظلوم پر ہے۔رضیہ ہو، گیتا و سیتا ہو،عائشہ یاکوئی ریشماں ہو، مظلوم ، مظلوم ہے۔وہ اس داستان کو حقیقت اور خلوص بیانی کے زور سے پیش کرتا ہے اور انسان کے دل و دماغ میں ایسا اثر پیدا کرتا ہے کہ سخت سے سخت مزاج اور سنگدل بھی رضیہ جیسے بچوں کی خاطر کمربستہ ہوکر میدان ِ عمل میں کودنے کوآمادہ و تیار ہوجاتے ہیں۔
کچھ کھٹی میٹھی یادیں
کہا گیا ہے کہ مذہب و دھرم، عقیدہ ،سیاست و قانون کابنیادی اور مرکزی نُکتہ یہ ہے کہ آدمی اچھا آدمی کیسے بنے۔دنیا کے حکیموں ،فلسفیوں ،مفکروں ،دانشوروں اور مصنفیوں نے جوکچھ بھی لکھا اورکہاوہ اسی مرکزی نکتہ (آدمی اچھا کیسے بنے)کے بارے میں ہی لکھا اور کہا ہے ۔لکھنے والوں کے طریقہ اظہار میں فرق تو ہوسکتا ہے لیکن اُن کے مرکزی خیالات میں زیادہ فرق نہیں ہوسکتا۔البتہ تحقیق و ریسرچ ،حکمت و سائنس اور ریاض کے کاموں کامعاملہ و مسئلہ الگ ہے۔
یہاں پرجو کہنے کامقصد ہے وہ یہ ہے کہ انقلابؔ کے اقوال اور تذکروں کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔انقلابؔکی باتوں میں شوخی ہے،طنزو تراح اور تُرشی بھی ہے لیکن ان (باتوں)کاکوئی نہ کوئی بنیادی مقصد اور مرکزی نکتہ ہے جس کی طرف قارئین کی نظر خود بخودپڑنی چاہیے۔
انقلاب سے میری سو سالہ رفاقت کی یادوں کی بارات کافی لمبی بھی ہے جسکے تفصیلی ذِکر سے ایک مضبوط کتا ب بن سکتی ہے۔اِس وقت سے ان میںسے چند ایک پر اکتفا کرناکافی ہوگا۔
ایک دن ہم اپنے محکمہ سوشل ویلفیئر کے دفتر میںمیٹنگ کررہے تھے کہ ایک فرقہ پوش بھکاری دروازے پر آن کھڑا ہوا اور کچھ مانگنے لگا۔ اس کی آواز پڑی نحیف تھی۔ انقلاب ؔصاحب اُٹھے اور اُسے بازوسے پکڑ کر اندر لائے اور بیٹھنے کوکرسی دی ۔شخص نے بیٹھنے سے انکار کردیا ۔انقلاب نے اسے جب زور زبردستی کرسی پر بٹھاکے دم لیا تو ہمیں اس خوف کا احساس ہوا کہ وہ (انقلاب )حسب عادت اس شخص سے کچھ نہ کچھ تبادلہ خیال ، ضرور کریں گے جس سے میٹنگ کے کام میں حرج ہوگا۔چنانچہ ہم نے (خواجہ رفیقؔ احمدشال‘ چوہدری محمد علی اور راقم اطراف) جلدی جلدی کچھ پیسے جمع کرکے انقلاب صاحب کے ہاتھ پر رکھ دئیے اور شخص مذکور کو فارغ کرنے کی درخواست کی لیکن انقلابؔصاحب تھے کہ ہماری عُجلت کے سبب کو تاڑ گئے۔۔۔۔۔۔انہوں نے پہلے پیسوں کو آہستہ آہستہ (شائد دو تین مرتبہ )گِنا اور ان میں سے کچھ کو فقیر کے حوالہ کرکے باقی کو اپنی مُٹھی میں رکھ لیا ، اور اُس سے مخاطب ہوکر بولے ــ’’تم بڑے سیدھے سادھے بھکاری معلوم ہوتے ہو۔۔۔۔۔لیکن یہ بتائو کہ تمہیں ہمارے اس گداگروںکے دفتر کا پتہ کس نے دیا ہے؟تمہیں معلوم نہیں ہم سفید پوش لوگ ہیں۔۔۔۔۔۔مجھے تم سے از حد افسوس ہے کہ تمہیں مانگنے کا ڈھنگ ہیںنہیںآتا ہے تم کبھی بھی ایک کامیاب گداگرنہیں بن سکتے ۔ ۔۔۔۔ اگر تمہیں زندگی میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو تمہیں سب سے پہلے اپنا حُلیہ بدلنا ہوگا۔۔۔۔۔دیکھوہماری طرح سفید پوش بن جائو۔۔۔۔۔ہاتھ میں قیمتی عصا رکھو اور جس گھر پر جائو اس کے دروازہ پر زور سے دے مارو تب جاکر کوئی تم پر دروازہ کھولے گا اور ہاں ! یاد رکھو۔اندر داخل ہوتے ہی بیٹھنے کیلئے کرسی کا مطالبہ کرو اور اپنی مانگ پر سختی سے قائم رہو ۔ اگر تمہارے پاوٗں میں نعزش نہ آئی تو دولت کدہ تمہیں کم از کم چار پائی ضرور دیں گے ۔ یہ مانگنے کا سہنری اصول ہے اسے ذہن نشین کرلو اگر تم کوئی چھوٹا مطالبہ کر بیٹھے تو تمہیں بہت کم ملے گا ۔ اور کم مانگو گے تو کچھ بھی نہیں ملے گا ۔۔۔۔۔۔ ‘‘
ان کی اِس تقریر و پسند یر سے فقیر دیگر تو کبھی ہم بھی بھونجکے رہ گئے ۔ مٹینگ خاک ہوتی تھی ہم نے انقلاب سے درخواست کر نا چاہی تو بولے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’دیکھویہ جو ہمارا محکمہ ہے اس کا اصل مقصدیہی ہے کہ ہم سماج، خاص کر ایسے دبے کچلے افراد کی صحیح رہنمائی کریں ۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم تم مانو یا نہ مانو ہم راجوری کے لوگ درجہ بدرجہ اوروں کی نسبت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ ہمارے یہاں کے آفیسر ، اُستاد ، سرکاری ملازم لیڈراور گراگر سب ، دوسرے علاقوں کے ہم منصبوں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔۔۔۔۔۔ آپ کی میٹنگ سے یہ زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ خیربہ آپ کی سمجھ سے باہر کی باتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ چلئے میں چُپ ہوجاتا ہوں لیکن میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ اُس بھکاری کو ٹریننگ کیلئے کہیں باہر بھیج دینا چاہیے۔ موقعہ اور موسم کے لحاظ سے آپ اسے اگر کشمیر کے کسی ‘Beggar Home’ میں بھیج دیں گے تو کمال کی مہربانی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ــ‘‘ ہم تو انقلاب کو سننے کے عادی تھے لیکن فقیر اپنے قمیتی وقت کا یوں زیاں ہوتے دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور باہر نکل کر بھاگ گیا ۔ چوہدری محمد علی مرحوم نے چپکی لیتے ہوئے انقلاب سے کہا ۔۔۔۔۔ ’’ مہربانی کرکے یہ باقیماندہ پیسے جو آپ کی مُٹھی میں بند ہیں ان کو ہمیں واپس کر دیں گے تو بڑی عنایت ہوگی ۔‘‘ انقلاب نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ ’’تم ازلی فقیر ہوتے تومیں تمہیں ضرور دیتا ۔۔۔۔لیکن یہ تو میر مختانہ ہے اگر میں نے اِس بیوقوف کو کرسی پر نہ بٹھایا ہوتا ۔ تو آپ اتنے پیسے دینے والے کہاں تھے ۔ تمہارے یہ پیسے کسی آنے والے حقدار امیدوار کو دوں گا ۔ فی الحال آپ سب لوگ سرکار سے ملنے والے وظیفہ پر گذارہ کریں ۔ ‘‘
ایک دن ہمارے دفتر میں میرے ایک شناسا تشریف لائے۔ وہ پیشہ سے معلّم (اسکول ماسٹر) تھے اور اپنے سکول کے طلباء کو وظائف نہ ملنے کی شکایت لے کر آئے تھے ۔ دُعا سلام کے بعد انقلاب نے ان کے آنے کا مقصد پوچھا ۔ ماسٹر جی نے تفصیل کے ساتھ معاملہ کے بارے میں بتایا ۔ کچھ دیر سُننے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ انقلاب کے چہرے کا رنگ بدل رہا تھا۔ انہوں نے سِر سے پاؤں تک ماسٹر جی کا بغور جائزہ لیا اور بول اُٹھے ۔’’ماسٹر جی آپ نے کس سکول میں پڑھا ہے۔‘‘ ماسٹر جی نے اسکول کا نام بتایا ۔ پھر پوچھا ’’آپ کی تعلیم کیا ہے ؟ ‘‘ میٹریکولیٹ ہوں۔ اور بی ای سی (ٹیچرز ٹریننگ کورس) بھی کیا ہے۔‘‘ ’’یہ جو آپ ٹریننگ کرتے ہیں ، ظاہر ہے طلباء و طالبات کے لئے ہوتی ہوگی ‘‘ انقلاب نے اپنی بات (انٹرویو) کو بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ پھر کہا ‘‘ یہ بھی سِکھایا جاتا ہوگاکہ اُستاد کو ایک ماڈل ہونا چاہئے جس کو دیکھ کر بچے اپنے آپ کو ڈھال سکیں ۔۔۔۔۔ اور اگر خدا نخواستہ اُستاد اپنے آپ کو ایک آئیڈیل شخصیت کا نمونہ بننے میں کامیاب نہ ہوتو کیا آپ اُسے اچھا اُستاد مانیں گے ؟ ۔۔۔۔۔ اور آپ اس حقیقت سے بھی تو واقف ہوں گے کہ بچے اپنے ابتدائی برسوں میں ماں باپ اور اُستاد کی نقل کرکے ان جیسا بننا پسند کرتے ہیں۔۔۔۔ان سوالات کا جواب ظاہر ہے۔
میں انقلاب کے اس انٹرویو پر حیران تو تھا ہی لیکن چونکہ وہ نہایت سنجیدہ ماحول میں ہو رہا تھا اس لئے انقلاب کی طبیعت کا خوف مجھے محسوس نہ ہوا ۔ چند لمحات کے موقف کے بعد انقلاب نے جو سوال داغا وہ یو ں تھا۔ ’’اچھا یہ بتایئے ! جب آپ گھر سے نکلتے ہیں تو اپنا اور اپنے باس کا خیال رکھتے ہی ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ انقلاب کی سنجیدگی مایوسی میں بدل گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ اظہار ِ ناراضگی کرتے ہوئے ماسٹر جی کی کھُلی آستا نیوں کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے بولے۔ ’’ یہ کف کھُلا رکھنے کی کی کوئی وجہ تو ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ کے گلے کے دو بٹن ہی تو کھُلے رہ گئے ہیں اور ایک تو ٹوٹا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے اپنا ناڑا (فیتا) دیکھا جو یا مہ سے باہر لٹک رہا ہے۔ لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتے جائیے کہ آپ کلاس میں بیٹھ کر مونگ پھلیاں کھاتے اور سیگریٹ بھی پیتے ہوں گے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب سُن کر ماسٹر جی کا بیمانہ صبر بریز ہوگیا اور کہا۔ انقلاب صاحب میں نے آپ کے بارے میں جوسُن رکھا تھا وہ صحیح ہے ۔ آپ واقعی مُنہ پھٹ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں۔
انقلاب صاحب اس قسم کی چھوٹی موٹی لڑائیاں روز لڑا کرتے تھے اس لئے ماسٹر جی کی یہ ناراضگی و برہمی ان کے لئے معمولی بات تھی لیکن اس صورت حال پر میں نے ضرور احتجاج کیا ۔ وہ انقلاب تھے، وہ چُپ رہنے والے کہاں تھے ۔۔۔۔۔۔۔ بولے
دیکھو، غالب سے الجما کوئی ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھُلا اور تعلیم و تربیت اور اُساتذہ کے رول پر ایک لمبی تقریر جھاڑ دی جس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ محض سماجی کارکنان اور لیڈر ہی نہیں بلکہ معلمین و اُساتذہ ہی معاشرہ و سوسائیٹی کو بدل سکتے ہیں جس کے لئے خود انہیں بچوں کی کردار سازی کے لئے نمونہ ‘Role Model’بننا ہوگا۔
انقلاب صاحب صاف گو اور بیباک (Spot)طبیعت ہونے کے ناطے عوامی حلقوں میں مشہور ہوچکے تھے ، مگر وہ دل کے بہت اچھے انسان تھے جو بات وہ کسی کی پیٹھ کے پیچھے کہتے اُسے مُنہ پر دوہرانے میں کبھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔
ایک روز باتوں باتوں میں چوہدری محمد علی بیتابؔ کے بارے میں ذِکر چھیڑ دیا اور ازراہ مذاق کہنے لگے ۔۔۔۔۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ چوہدری محمد علی بے تاب کیوں اور کس لئے ہے ۔۔۔۔۔۔۔ معذرت چاہتے ہوئے انقلاب سے کہا کہ یہ آپ کی بڑی عنایت ہوگی ، اگر آپ اپنے ذاتی اور باہمی معاملات میں مجھے نہیں گھسٹیں گے۔ آپ دونوں میرے بزرگ ہیں ۔ میں یہ التجاکر ہی رہا تھا کہ (مرحوم) چوہدری محمد علی دفتر آن پہنچے۔ میں سوچ رہا تھا کہ بات آئی گئی ہوگئی لیکن ایسا نہ ہوا ۔۔۔۔ انقلاب نے چھیڑی گئی بات کو ان کی موجودگی میں نہ صرف مکمل کیا بلکہ اُن باتوں کو بھی اُن کے سامنے دوہرادیا جو وہ چوہدری صاحب کی غیر موجودگی میں کہہ چکے تھے۔ مجھے انقلاب آتا محسوس ہونے لگا لیکن مرحوم چوہدری محمد علی بیتابؔ چونکہ بڑے تحمل مزاج اور بُردبار شخص تھے، نے کسی ردّعمل کا اظہار نہ کیا اور خاموشی سے اپنے کام میں لگ گئے۔ میں نے سمجھا کہ وہ ناراض ہوگئے ہوں گے ۔ مگر ایسا نہ تھا۔ چوہدری صاحب نے دُعا سلام کے بعد انقلاب سے ان کی صحت کا حال پوچھا تو انقلابؔ صاحب نے کہا ۔ ’’ کل ہی تم کہہ رہے تھے کہ انقلاب تم کب مرو گے ؟ ۔ آج میری صحت کا پوچھ رہے ہو ۔ یاد رکھو انقلاب مرسکتا ہے لیکن فنا نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔۔۔ اور‘‘ چوہدری صاحب نے انقلاب کو بات کاٹتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔ ’’ میں کوئی تمہارا دُشمن نہیں۔ دراصل میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا تھا کہ مجھے تمہاری موت (جو سب کو آتی ہے) پر ختم شریف پڑھانا چاہئے یا نہیں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ بہر حال اُن انقلاب کی اپنے ہم عمرسوں کے ساتھ نوک جھونک چلتی رہتی تھی لیکن میں نے کبھی نہ دیکھا کہ ایسی صورت ِحال نے کبھی مخاصمت کا روپ دھار لیا ہو۔ ان کی کھٹی میٹھی باتیں ہماری
معلومات میں اضافہ کا باعث تھیں۔ جتنا بھُلا رہے ہیں ، وہ یاد آرہے ہیں۔
ہمارے دفتر میں روز کوئی نہ کوئی واقعہ ضروررونما ہوجاتا تھا۔ اگر اپنے آپ کچھ رونما نہ ہوتا تو انقلاب از خود کوئی نہ کوئی آفت بلا یا مصیبت اپنے ہمراہ لے آتے تھے۔
ایک دن انقلاب صاحب ایک آدمی کے ہمراہ دفتر تشریف لائے۔ میں نے فائل سے سراُٹھا کر غور سے دیکھا تو وہ شخص نانگا صاحب ، (جو ایک بہروپیا نقلی فقیر تھا اور جس نے کچھ عرصہ پہلے تک راجوری کے طول و عرض میں اُدہم مچا رکھا تھا) تھے جو آج معصوم سی شکل (بھیگی بلی) بنائے بیٹھے تھے۔ میں اہٹتی نظر ڈال کر پھر اپنے دفتری کام میں مصروف ہوگیا لیکن میرے کان ہمیشہ کی طرح انقلاب کے سپُرد تھے۔ انقلاب صاحب نے ’نانگا صاحب ‘ کے لئے چائے منگوائی اور اُس کی (حسرت) عبرتناک انجام اور حسرت ناک روداد کی وضاحت جاناچاہی ۔ تو ننکانہ صاحب نے جو بپتا بیان کی وہ یہاں پر ناقابل ذکر ہے ۔انقلاب نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن آپکایوں آسمان شہرت سے گرِنا بڑے تعجبّ کی بات ہے ۔۔۔ مجھے اس بات کا قطعاً اندازہ نہ تھا کہ آپ کے ہزاروں جاں نثار مُنہ موڑ کر یوں بھاگ جائیں گے اور اب تو حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ اُس میں آپ کو چھڑا کر اپنے ساتھ نہ لاتا تو وہ لوگ آپ کی پگڑی برسربازار اچھال دیتے اور آپ کی پٹائی بھی کرتے ۔‘‘نانگاصاحب بیتے ہوئے ڈر اور کسی آنے والے خوف سے کانپ رہے تھے ۔ انقلاب جو اب آپ سے تم پر اُترآ ئے تھے کہنے لگے ۔ ’’نانگا جی !وہ بھی کیا دن تھے جب تمہاری کرامات کا ڈنکابج رہاتھا اور بڑے بڑوں کو تمہاری ملاقات کا شرف حاصل کرنے کیلئے قطار میں انتظار کی طویل گھڑیاں (تمہارے ) گننا پڑتی تھیں۔۔۔میں نے تمہارے بے وقوف مریدوں کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان کے کان پر جُوں تک نہ رینگتی ۔ تمہارے حواری جن کرامات ، کو لوگوں میں پھیلاتے انہیں ہمارے سادہ لوح لوگ صرف قبول ہی نہ کرتے بلکہ تمہاری شعبہ بازی (باخوف الفطرت طاقت) کو چشم دید گواہ کی طرح بیان کرتے ۔۔۔ سُنا ہے جِنّ اور پَریاں تمہارے قابو میں ہیں ۔۔۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ہمیں بھی ان کا دیدار کروادو ۔۔ خیرمیں تمہارے اندھے اور بہرے عقیدتمندوں کو کہتا تھا کہ جِنوّں اور پریوں پر قبضہ قدرت رکھنے والوں کو تم (لوگوں ) جیسے بھلے مانس انسانوں کی بھلاکیا ضرورت ہو سکتی ہے ؟۔۔۔لیکن وہ ھُم’‘بُکم’‘ بن گئے تھے ۔۔۔۔ وہ الٹا میری ملامت کرتے۔ فریب اور جھُوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لئے وہ زیادہ دیر نہیں چل سکتے ۔۔۔۔بہرحال اب مجھے تم سے اس لئے ہمدردی ہو گئی ہے کہ تمہارا تخت وتاج چھن گیا ہے ۔۔وہ شخص جس کا اقتدار چھن جائے اور وہ مفلسی جو دست سوال دراز کرنانہ جانتا ہو مجھے بے حد عزیز ہے ۔۔۔۔ میری تو خواہش ہے کہ تم اس زرخیز علاقہ کو نہ چھوڑو ۔ میں چاہتا ہوں کہ یہاں درجنوں فقیر کُش فقیر اکٹھے ہو جائیں جو ہماری چراہگاہ میں ہر دم لڑتے بھڑتے رہیں ، تاکہ ہماری نجات کی راہ ہموار ہوسکے ۔۔۔۔بے چارہ نانگا اب بے چینی سے پہلوتہی کرکے انقلاب کے ذہنی عذاب سے نجات کا طالب ہوا اور جانے کی اجازت چاہی۔۔۔وہ چالاکی (Trick) سے اگر نہ کھِسک گیا ہوتا تو کہانی یہاں ختم نہ ہوتی ۔
انقلاب علم کے حصول کیلئے مشاہدے ،تجربے اور غورو فکر(Observation and Experience) کوتریاق سمجھتے تھے ۔ ان کے نزدیک مشاہدے کے بغیر علم بے مسود ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ علم و حکمت کا اصل مقصد افرادی قوت (Human resources development) کا فروغ ہے ۔ اگر عمل ،انسانی زندگی کے جملہ مسائلی اور عملی زندگی کی ناگواریوں اور تلخیوں کا حل پیش نہیں کرتا تو وہ بے مقصد و بے معنی ہے ۔ اس لئے جب کو ئی شخص اُن (انقلاب) سے انسانی فلاح و اصلاح ، قومی بیداری اور سماجی تعمیرو ترقی کا علاج دریافت کرتا تو وہ بلاجھجک تجویز کرتے اور کہتے ۔ ’’بچوں کو اسکولوں میں ڈال دو ، اَن پڑھ اور بے علم لوگوں کو گاڑیوں میں لاد کر کلکتہ کی بندرگاہ پر چھوڑآؤ۔۔۔۔ ان کو جب اپنے گھروں ، بہکوں اور ٹھنڈی ہواؤں کی یاد آئے گی تو واپس دوڑیں گے ۔ کچھ جُرم ضعیفی کی سزا پاکر راستے میں دم توڑیں گے ، جو اپنی منزل کو دور سمجھ کر اور تھک ہار کر راستوں میں رُک جائیں گے وہ زندگی کی تلخیوں سے نبردآزما ہونے کیلئے محنت مزدوری کریں گے اور ہُنر(Skill) سیکھیں گے ، اور جو بد قسمت واپس پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے ان کے حواس خمسہ جاگ چکے ہوں گے ۔۔۔انہوں نے مشاہدے کی بات کسی بھی پیرائے میں کہی ہو لیکن اُن کی یہ بات صداقت پر مبنی ہے ۔ علم دین اور سائنس اصول بھی یہی کہتا ہے کہ عِلم و آگاہی کی بنیاد مشاہدے اور غور وفکر پر ہے ۔ قوت جامہّ اور تجربے پر ہے ۔
جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا ہے ، انقلاب کے مطابق وہ علم جو آدمی کو اچھا آدمی نہ بناتا ہو ، زندگی کے مسئلوں کو حل نہ کرتا ہو ، سماجی انصاف قائم کرنے کا اہل نہ ہو اور انسانی تعمیروترقی کی ضمانت نہ دیتا ہو ، بے مقصد ہے ۔ چناچہ وہ علم کے ذریعہ عوامی بیداری کا اہتمام کرنا چاہتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ فنی تربیت وہُنر اور سائنس و تکنیکی تعلیم (Professional and Technical Education) کے ذریعہ سے معاشرے اور سوسائٹی میں خوشگوار تبدیلی لائی جاسکتی ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ دنیا کے سارے علوم و فنون کا بنیادی مقصد افرادی قوت کی تعمیر ہے جو مشاہدے ، تجربے اور آگاہی (Knowladge) سے ہی ممکن ہے ۔ لیکن مشاہدہ ، تجربہ گھر سے باہر نکلنے (ہجرت) کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ وہ جانتے تھے کہ تعلیم برائے نام نہ ہو بلکہ صحیح ہوتا کہ نہ امراض جسم کی گنجائش رہے نہ امراض ذہن و روح کی ۔ جس افرادی قوت کے حصول و فروغ کے وہ متمنی تھے اُس کا بنیادی عنصر(Raw material) قوم کے بچے ہیں ۔ اگر بچے صحیح پرورش ونشونما ، صحت اور تعلیم و تربیت سے محروم رہ جائیں گے تو سماج اپنی فلاح واصلاح کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
انقلاب روایتی اور رسمی نظام تعلیم سے مایوس وبر گشتہ ہے ۔لہٰذا یہی وجہ ہے کہ وہ بچوں کے والدین سے لڑتاہے ، معاملوں سے الجھتا ہے اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے بحث و تکرار کرتا ہے ۔ اور کہتا ہے کہ روایتی نظام سے کارگر نتیجہ کی توقع کرنا فضول ہے ۔ رہ سہہ کے اس کے پاس ایک ہی طریقہ باقی ہے اور وہ ہے مشاہدے اور ہُنرمندی کا ،جس کے حصول کیلئے وہ لوگوں کو دور کسی بندرگاہ پر چھوڑ دینے کا فارمولہ پیش کرتا ہے ۔ اس کا بس چلتا تو وہ بے علم اور بے علمی لوگوں کو کسی بحربیکراں میں پھینک دینے کا حکم صادر کر دیتا تاکہ وہ ڈوب مریں یاپھر تیرنا سیکھ جائیں ۔
انقلاب کے بقول ( جو ایک ناقابل تروید حقیقت بھی ہے ) آدمی کی اوسط طبعی عمر ساٹھ سال ہے ۔جس میں سے وہ (آدمی ) آدھی زندگی بچپن ، لڑکپن اور بڑھاپے میں گزار دیتا ہے باقی ماندہ تیس برس کا نصف حصہ وہ رات (سونے میں ) میں گزارتا ہے ۔ رہ سہہ کے آدمی کے پاس عملی زندگی (خدمات و حقوق العباد بشمول اعزاء واقرباء) کیلئے دس پندرہ برس کا عرصہ بچتا ہے ۔ مطلب یہ کہ انسان کی عملی زندگی (Active Life) بہت مختصر ہے ۔ اگر وہ اس دوران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور بے عمل بن جائے تو سمجھ لیجئے کہ وہ اپنا فریضہ ادا کرنے میں ناکام ہو گیا ۔گویا اس نے ساری عمر بے کار گنوادی ۔انقلاب،اپنی انقلابی تعلیم و ترتیب کے ذریعہ آدمی (اشرف المخلوقات ) کو اس کی معراج پر دیکھنا چاہتا ہے ۔
انقلاب معاشرے کی اُٹھان کیلئے عام اور معمولی باتو ں کا سہارا لیتا ہے ۔ اس کے نزدیک چھوٹی اور زُورفہم باتیں سماجی برائیوں کا خاتمہ کرنے کیلئے تریاق کا کام کرتی ہے ۔ اس کے اصل مخاطب چونکہ بچے ہیں اس لئے وہ جو کچھ کہتا یا کرتا ہے ان کیلئے ہی کرتا ہے ۔
ایک روز ایک مُفلس کسان انقلاب کے پاس آیا اور اپنی بیمار بھینس کیلئے ویٹرنری ڈاکٹر سے دوا حاصل کرنے کی سفارش چاہی اور انہیں اپنے ہمراہ لیجانے کی ضِد کرنے لگا ۔ انقلاب صاحب نے گھر پر موجود لوگوں کی طرف دیکھا اور تھوڑے وقف کے بعد کہا ۔ ’’ان میں سے کسی ایک کو تمہارے ساتھ بھیج دیتا ہوں ، میرا خیال ہے بہتر ہوگا ۔‘‘کسان نے اصرار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔’نہیںآپ خود ہی ہسپتال تک تکلیف کریں ۔‘۔۔۔’’تو کیا میں ہی ڈنگر ہسپتال جانے کے لایق ہوں ، ان میں سے کوئی نہیں ۔‘‘یہ کہکر انقلاب نے کسان سے پوچھا۔۔’’اچھا یہ بتاؤ تمہارے پاس کتنی بھینسیں ہیں؟۔۔۔ ’تین ہیں جناب ، دہقان نے کہا ۔ انقلاب نے انبساط کے لئے دریافت کیا ’’ان کے نام بتاؤ ‘‘کسان نے نام گنوائے ۔۔۔۔سُندراں ، سیتی اور ۔۔۔تیسرا نام یاد نہیں آرہا۔۔۔‘‘انقلاب نے پھر پوچھا ’’اور تمہارے بچے کتنے ہیں ؟‘‘۔۔۔’’دو بچے ہیں جناب ‘‘ کسان نے کہا ۔۔۔انقلاب نے بلند آواز میں کہا ۔۔۔’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمہارے صرف دو بچے ہیں ‘‘ ۔’’ باقی لڑکیاں ہیں جناب ‘‘ کسان نے عرض کیا ۔۔۔’’تو لڑکیا ں بچے نہیں ہوتے ؟ کیا بے وقوف شخص ہے یہ ۔‘‘اچھا لڑکیوں کے نام بتاؤ۔ انقلاب صاحب نے استغصار کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ایک کا نام مکھنی ہے اور دوسری کا رانی ہے جناب یہ کسان نے بتایا ’’ رانی تو چلئے ٹھیک ہے لیکن تم مکھنی کا نام بدل کرفاطمہ رکھ دوگے تو میں ابھی تمہارے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلتا ہوں۔،، دہقان نے حامی بھری تو انقلاب صاحب یہ نفس نفیس اس کے ہمرا ہ چلے گئے۔بات معمولی لیکن غور کرنے کی ہے بعض لوگ بچوں کا نام اُوٹ پٹانگ رکھ دیتے ہیں جس سے بچوں کی شخصیت پر برا اثر پڑتا ہے۔
ایک روز دفتر پہنچتے ہی گویا انہوں نے میری تفتیش شروع کردی۔پوچھنے لگے۔’’ طالب مجھے سچ بتائو کہ واقعی تم نے بی۔اے۔پاس کرلی ہے‘‘ ہاں میں گریجویٹ ہوں کبھی تو میری تقرری(Appointment) بحیثیت سوشل ویلفیر آفسر ہوئی ہے۔میں نے جواباًعرض کیا ۔میں نے یہ سمجھ کر کہ وہ میرا مذاق اڑانے کی سوچ رہے ہونگے کہا۔ایک تو میں آفیسر ہوتے ہوئے بھی ایک کلرک کی طرح آپ کا کام کرتا ہوں اور آپ موجیس مارتے ہیں اور اوپر سے میری تعلیمی اہلیّت کا بھی آپ کو شک ہے۔یہ کہتے ہوئے میں نے ان کا رئو عمل جاننے کے لئے ان کی طرف دیکھا۔وہ کھڑے تھے اور کالے رنگ کے اوورکوٹ اور کلائہ کچ میں بہت دلکش(attractive) لگ رہے تھے۔انہوں نے اوورکوٹ(overcoat) کی جیب سے ایک سیب کو نکال کر میرے سامنے رکھتے ہوئے ہوئے کہا ’’ کھائو، یہ کشمیر سے لایاہوں۔۔۔۔اوربھی تمہارے لئے رکھ چھوڑے ہیں‘‘ یہ کہہ کروہ کرسی پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے۔’’ تم کب تک ہماری ڈاک کا جواب پروگریس رپورٹیں اور وظائف و مکانات کی فہرستیں تیار کرتے رہوگے‘‘۔۔۔۔ تم نوجوان ہو۔۔۔۔میراخیال ہے تم علی گڑھ چلے جائو، بہت اچھا ہوگا۔۔۔۔،،
ان کے اس مشورہ پر میں نے کافی سوچ وچار کیا لیکن میں تذبذب میں تھا ۔۔۔ نوکری اچھی تھی جہاں سے ترقی کر کے KAS اور آہستہ آہستہ IASتک پہنچا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔شائد اُن کی مسلسل ترغیب بلکہ ضِد تھی جس کی وجہ سے میں نےLawکرنے کا فیصلہ کرلیا ۔جس دن مجھے علی گڑھ روانہ ہونا تھا ۔انقلاب صاحب ان پانچ چھ لوگوں میں تھے جو مجھے بس سٹینڈ چھوڑنے آئے۔اُن کی آنکھوں میں مسرت اور خلوص کے آنسو تھے۔اُن دنوں علی گڑھ سے وکالت کا امتحان پاس کرنا بڑا کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔
الوداعی صالحہ کر تے وقت ان کی رگ ظرافت پھڑکی اور کہنے لگے۔ــ’’مجھے معلوم ہے تمہارے لئے چولہا ( گھرو نوکری) چھوڑنا بڑا مشکل کام تھا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ تم کتنے بڑے ماہر قانون بن کر واپس آئو گے ۔ میرا مقصد تمہیں زندگی کے تجربے کراں سے آشنا کرنے کا تھا ۔ اب تم ڈوب جائو یا منزل سے ہمکنار ہو جائو ، اس کا دارومدار مرضی حولا پر اور تمہاری محنت و ہمت سے ہے ۔ ہم تو صرف دُعا کر سکتے ہیں سو کرتے رہیں گے ۔ خدا حافظ انقلاب میری کشتی کو موجوں کے حوالہ کر کے واپس چلا گیا تھا ۔
انقلاب میرے ہی نہیں سب کے خیرخواہ تھے ۔ وہ دوسروں کواچھا دیکھ کر خوش ہوتے تھے ۔ ہر کسی کی حوصلہ افزائی کرتے اور دُکھ سُکھ بانٹنے میں پیش پیش رہتے تھے انہوں نے ہمیں اخلاقی اقدار Moral Values) ( کا درس دیا اور یہ بتایا کہ زندگی ایک فریضہ ہے جسے ہم سب نے انجام دینا ہے۔
بے شک انقلاب ایک سچا ہمدرد ، نڈر و بے باک ، اُفوت و مساوات کا علمبردار ، اکرام آدم کا دائمی ، شجاعت مند وغیور اور انسانی اصلاح و فلاح کا مسیحا تھا ۔
ؔحق مغفرت کرے عجیب آزاد ؔمرد تھا ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا