فاروقی کے بغیر اردو ادب ادھورا : گوپی چند نارنگ

0
0

ساہتیہ اکادمی کی جانب سے شمس الرحمن فاروقی کی یاد میں تعزیتی نشست کا انعقاد
لازوال ڈیسک

نئی دہلی؍؍شمس الرحمن فاروقی کی رحلت کا سانحہ اردو ادب کے لیے ایک بڑا دلدوز سانحہ تھا۔ ساہتیہ اکادمی نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے آج مورخہ 6 جنوری کو آن لائن تعزیتی جلسے کا انعقاد کیا جس میں ملک بھر سے مختلف زبانوں کی نامور ادیبوں نے شرکت کی۔ جلسے کے آغاز میں سکریٹری ساہتیہ اکادمی ڈاکٹر کے شری نواس راؤ نے جناب شمس الرحمن فاروقی کی تصویر پر گلہائے عقیدت پیش کیے اور کہا کہ فاروقی صاحب اردو زبان و ادب کے قدآور شخصیت تھے جنھوں نے ادبی تنقید کا نیا ماڈل پیش کیا۔ صنف قصہ گوئی کو انھوں نے نئی زندگی بخشی۔ اس موقع پر فاروقی صاحب کی صاحبزادی مہر افشاں فاروقی نے نم آنکھوں کے ساتھ اپنے والد محترم کو یاد کرتے ہوئے کئی ذاتی تجربات کو بیان کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ خاموشی کے ساتھ مسکراتے ہوئے ہم لوگوں کو کب الوداع کہہ گئے، پتہ بھی نہیں چلا۔ انھوں نے فاروقی صاحب کے آخری ایام کے لمحہ لمحہ کو یاد کیا اور بتایا کہ کیسے وہ الٰہ آباد اپنے گھر پہنچنے کے لیے بے چین تھے۔شمس الرحمن فاروقی کے دیرینہ رفیق پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کہا کہ یقین نہیں آتا کہ شمس الرحمن فاروقی اب ہمارے بیچ نہیں ہیں۔ میرا تو وجود ہی لاوجود ہوگیا۔ انھوں نے بتایا کہ پچھلے دنوں ایک دن اچانک فاروقی صاحب کا فون آیا، انھوں نے سلام کیا۔ مدتوں بعد ان سے بات ہورہی تھی۔ انھوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ طبیعت بحال ہوتے ہی میں گھر آؤں گا۔ منورما نارنگ سے بھی باتیں ہوئیں۔ افسوس کہ وہ جانبر نہ ہوسکے۔ ایسا جیالا انسان، ایسا مایہ ناز ادیب، جس کے بغیر اردو ادب ادھورا ہے، ہماری دوستی بھی تھی اور نظریاتی اختلاف بھی تھی، اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اب دوسرا فاروقی پیدا نہیں ہوسکتا۔ ریختہ کے روح رواں پروفیسر انیس الرحمن نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ فاروقی کا جانا صرف اردو ادب کا ہی نہیں، پورے ہندستانی ادب کا خسارہ ہے۔ ان پر بہت دنوں تک باتیں ہوں گی اور ان کے کام کے نئے نئے پہلو اُجاگر ہوں گے۔ اس موقع پر الٰہ آباد سے ہندی کے ممتاز ادیب اور نقاد پروفیسر راجندر کمار نے فاروقی صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اس سانحہ کو اپنا ذاتی خسارہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ فاروقی صاحب ہم الٰہ آباد والوں کے شان تھے۔ ان کی یاد ہمارے دلوں میں ہمیشہ قائم رہے گی جس نے ادب، تہذیب اور تمدن جیسے الفاظ کو مکمل معنی بخشے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک ایسے ادیب تھے جس نے لکھنے کے فن کو حیات بخشی اور اسے جیا بھی۔ ساہتیہ اکادمی اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر جناب شین کاف نظام نے کہا کہ فاروقی صاحب نے ہمیشہ نئے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کی۔ فاروقی صاحب کے ہر کام سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر نظام صدیقی نے اس موقع پر کہا کہ فاروقی کا گزر جانا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اردو شعریات کی بازیافت میں ان کو انفرادیت حاصل ہے۔ اردو شعر و ادب میں فاروقی بیک وقت ہند و پاک میں مثال تھے۔ کشمیر یونیورسٹی کے ریٹائرڈ اردو پروفیسر محمد زماں آزردہ نے کہا کہ بیسویں صدی میں جو چند ادیب اُبھر کر آئے، ان میں فاروقی کا شمار ہوتا ہے۔ خدا نے فاروقی کو تنقید، فکشن، داستان پر ایسی قدرت عطا کی تھی جسے زمانہ تک یاد کیا جائے گا۔ حیدرآباد سے پروفیسر بیگ احساس نے کہا کہ ایک عالم کی موت ایک عالَم کی موت ہے۔ فاروقی کے جانے سے پوری اردو دنیا میں ماتم پسرا ہوا ہے۔ اردو کا ایک بہت بڑا درخت زمین چھوڑ کر اُکھڑ گیا۔ انھوں نے فاروقی کو اس عہد کا ایک بڑا فلاسفر قرار دیا۔ ممبئی سے جناب شمیم طارق نے فاروقی صاحب کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایک آدمی اتنے اصناف پر کام کرسکتا ہے اور اس میں نام پیدا کرسکتا ہے، یہ وصف فاروقی صاحب کا ہی ہے۔ انھوں نے فاروقی صاحب کو ایک مشفق انسان بتایا۔ دہلی یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو پروفیسر ابن کنول نے اس موقع پر کہا کہ فاروقی کا اردو ادب سے تعلق صرف محبت کا رشتہ تھا۔ اردو ان کی مجبوری نہیں تھی لیکن پھر بھی انھوں نے جتنا کام کردیا ہے اُتنا کام شاید ہی کوئی اردو والے نے کیا ہوگا۔ فاروقی صاحب نے جس میدان میں قدم رکھا، اپنی شناخت قائم کی۔ انھوں نے کہا کہ داستان پر جو کام فاروقی صاحب نے تن تنہا کیا ہے وہ ایک آدمی کا کام نہیں ہے، بلکہ ایک ادارے کا کام ہے۔ فاروقی صاحب کے عزیزترین شاگرد اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو کے پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ فاروقی صاحب کو مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ فاروقی صاحب کی رحلت کو انھوں نے اپنا ذاتی خسارہ اور صدمہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ فاروقی صاحب اختلاف کو سراہتے تھے بشرطیکہ اختلاف برائے اختلاف نہ ہو بلکہ دلائل پر مبنی ہو۔ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ اپنی روایت پر کیسے فخر کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فاروقی صاحب کے کاموں کی وسعت، ان کا معیار غیرمعمولی سطح کا ہے۔ اس موقع پر انگریزی کے پروفیسر ہریش تریویدی نے فاروقی صاحب کو تعزیت پیش کی اور کہا کہ وہ اردو کے چیمپئن تھے۔ انھوں نے فاروقی صاحب کے ساتھ اپنے ذاتی یادوں کو سانجھا کیا۔ لکھنؤ سے پروفیسر انیس اشفاق نے بھی فاروقی صاحب سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ مشہور و معروف داستان گو اور شمس الرحمن فاروقی کے بھتیجے ڈاکٹر محمود فاروقی نے کہا کہ ہمارے بڑے ابّو ہمارے راک اسٹار تھے۔ انھوں نے داستان گوئی کے حوالے سے اپنی خوش بختی کا اظہار کیا اور کہا کہ امرت کنڈ میرے بغل میں رکھا رہا، لیکن جتنا مجھے لینا تھا اُتنا میں حاصل نہیں کرسکا۔ جلسے کی نظامت ہندی ایڈیٹر ساہتیہ اکادمی انوپم تیواری نے کی۔ آخر میں جناب شین کاف نظام نے سبھی شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا