ڈاکٹر انیس صدیقی(گلبرگہ)
مجھے اپنے زندگی میں جن خوش خصال اور باکمال آدمیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا،ان میں حامداکمل کا نام نامی بھی ایک ہے۔ ممکن ہے بعض احباب اس پر ناک بھوں چڑھائیں گے کہ میں نے ان کے لیے یہ الفاظ کیوں کر استعمال کیے۔اس لیے کہ ان احبابِ بے بصر کے نزدیک حامداکمل ان دونوں خوبیوں سے خالی ہیں اس سے کوئی غرض نہ بحث۔میں یہاں اپنے تجربات اور مشاہدے کی بات کروں گا کہ میں نے انھیں کیسا پایا۔ سو میں نے اس کا آغاز میں ہی اعلان کردیا کہ حامداکمل ایک خوش خصال اور باکمال انسان ہیں۔اور پھر بشریت کا تقاضہ بھی ہے کہ سفرِ حیات میں راہوں کے دشوار گذار نشیب وفراز پر،احساسات وجذبات کی غلام گردشوںمیں کہیں کسی سے کوئی لغزش یا کوتاہی سرزد ہوسکتی ہے۔ لیکن مجموعی اعتبار سے ہم کسی شخص کے مزاج،کردار اور خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے کوئی رائے قائم کرنے میں حق بہ جانب ہوسکتے ہیں۔
حامداکمل کا نام اس دورہی میں کان میں پڑ چکاتھا،جب میں،اپنے آبائی وطن میں اسکول کی تعلیم ختم کرکے پی یوسی میں داخلے کے بعد گلبرگہ منتقل ہواتھا۔شعروادب سے تھوڑا بہت شغف تھا ہی،لہٰذا آہستہ آہستہ یہاںکے ادبا وشعرا سے تعارف وشناسائی کے مرحلے طے ہوتے گئے۔ ایسے ہی کسی شام، کسی دوست کے ہم راہ مومن پورہ کی بی بی مسجد سے متصل روزنامہ’ سلامتی‘ کے دفتر پہنچا۔کسی اخبار کے دفتر میں داخل ہونے کا یہ پہلا موقع تھا۔ دفتر کیا تھا، ایک اوسط درجے کا کمرہ،میز وکرسیوں کے بجائے فرش بچھا ہوا۔ریڈیو سے نشر ہونے والی خبروںکی بلند آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔سارے کمرے کاجائزہ لیتے ہوئے میری طائرانہ نظر ایک کونے میں براجمان ایک دھان پان سی شخصیت پر ٹکی، جو نہایت تیز رفتاری سے پیڈپر لگے کاغذ پر کچھ لکھ رہاتھا۔ اشارتاً ہی سلام کا جواب دیا اورخاموش بیٹھنے کا اشارہ کیا۔میرے دوست نے سرگوشی کی اور بتایا کہ یہی حامداکمل ہیں۔کچھ دیر بعد ریڈیوسے خبروں کا نشر ہونا ختم ہوا۔ موصوف نے ریڈیو کا سوئچ آف کیا، پیڈ اور قلم کوایک جانب ہٹاکر ہماری جانب متوجہ ہوئے۔میرے دوست نے تعارف کرایا کہ یہ انیس الرحمن ہیں،یہاں پی یو سی میں داخلہ لیا ہے۔ شاہ پور کے متوطن ہیں۔شاہ پور کا نام سنتے ہی انھوںنے سوالیہ انداز میں صرف عنایت الرحمن صدیقی کہا۔ میں نے جواب دیا کہ جی،وہ میرے والد ہیں۔بڑی گرم جوشی اور محبت سے ملے۔ والد محترم کے حوالے سے اِدھر اُدھر کی باتیں کیں پھر چائے منگوائی۔ رخصتی کے وقت تک میرے ذہن ودل پر حامد اکمل کی شخصیت کی دل پذیری،خوش اخلاقی اور ملنساری اوران کی مشفقانہ گفتگو کے گہرے رنگ مرتسم ہوچکے تھے۔اس پہلی ملاقات اور گذرے چالیس برسوں میں،میں نے جب بھی حامداکمل سے ملاقات کی،پہلی ملاقات کے بعد مرتسم ہوئے رنگ اور گہرے ہوتے چلے گئے۔
حامداکمل کی باطنی شخصیت جتنی دلنواز ہے،ظاہری شخصیت بھی اتنی ہی پرکشش اور خوبصورت ہے۔ مستطیل نما کتابی چہرہ،ستواں ناک، نتھنوں سے اوپری ہونٹ کے کناروں کا حصہ واضح طورپر دباہوا اوراس سے متصل گالوں کا ہلکا سا اُبھار ،موزوں دہانہ،سیاہی مائل سرخ ہونٹ،کسی قدر لمبی تھوڑی، دانشورانہ رنگ عطا کرتی تراشی گئی چھدری سی داڑھی،جس میں سفیدی زیادہ جھانکتی ہے،اونچی پیشانی،بائیں جانب بالکل نیچے نکالی گئی مانگ،مہندی سے رنگے گھنے بال، سپید رنگت،مجموعی اعتبار سے وجیہہ اورشکیل وجمیل چہرہ،نکلتا ہوا قد اکہرا بدن حالیہ برسوں میں آگے بڑھی ہلکی سی توند،بغیر اختصاص کے خوش پوشاک،پینٹ،شرٹ،سفاری،صدری،جودھپوری،کرتا پاجامہ،سوٹ ٹائی،شیروانی حسب موقع ومحل پہنتے ہیں۔حتیٰ کہ گھر کے آس پاس بنیان اور لنگی میں بھی نظر آئیں گے۔ انھیں اپنی خوش زیبی پر یہ ادّعااور خوش فہمی ہے کہ احباب ان کی نقل کرتے ہیں۔ پرانی تصویروں میں موجود اور آج کے حامداکمل میں ظاہری اعتبار سے بہت تفاوت نظر آتاہے۔
حامداکمل سے میری راہ رسم کے اس طویل دورانیے میں ان کی محبتوں اور شفقتوں کی وافر مقدار میرے حصے میں آئی ہے۔ میری ادبی سرگرمیوں کے علاوہ خانگی زندگی کے تعلق سے اکثر خبرگیری کرتے رہتے ہیں۔ضروری ہدایتوں اور مشوروں سے نوازتے ہیں۔میرا کوئی تصنیفی وتالیفی کام حامداکمل کی دست گیری کے بغیر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا۔مجھے اچھی طرح یادہے انھوںنے اپنی اخباری مصروفیتوں کے باوصف میرے پی ایچ ڈی کے مقالے کے تمام جلی وخفی عنوانات کی کتابت کرکے اسے دیدہ زیب بنایا تھا۔ علاوہ ازیں حامداکمل نے میری تحقیقی کتاب’شب خون کا توضیحی اشاریہ‘ کے پندرہ سو صفحات کی پروف ریڈنگ کا دشوار گذار کام جس دقت نظری اورعرق ریزی سے انجام دیا تھا،اسے میں کبھی بھلا نہیں سکتا۔ اس کتاب پر ہی کیا موقوف میری ہر کتاب کی ترتیب و تدوین میں ان کے صلاح مشورے ہمیشہ شامل رہتے ہیں۔یہ تو خیر ذاتی نوعیت کی مثالیں ہیں،جو میں نے اظہارحق کے طور پر پیش کیں،مشتے نمونہ از خروارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ اس قسم کا فیاضانہ سلوک حامد اکمل کی فطرتِ ثانیہ ہے۔ کسی نہ کسی کی کتابوں یا تحقیقی مقالوں کے ایک دو مسوّدے بہ غرض اصلاح ہمیشہ ان کے پاس ہوتے ہیں۔ چڑیں گے،جھلائیں گے،جز بز ہوںگے، لیکن انکار ان کے بس کی بات نہیں۔ حامداکمل کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ وہ جس کسی میں بھی آگے بڑھنے کی صلاحیت اورلگن دیکھتے ہیں،اس کا ہاتھ پکڑ کر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔صدقِ دل سے بے لوث رہبری اورحوصلہ افزائی کرتے ہیں۔چنانچہ آج شہر میں شعر وادب اور صحافت سے وابستہ قلم کاروں کی طویل فہرست ہے،جن کی صلاحیتوں کو حامداکمل نے صیقل کیاہے۔
صحافت حامداکمل کا پہلا عشق ہے۔ بلا خوفِ تردید کہا جاسکتاہے کہ شہر گلبرگہ اوراس کے اطراف میں،صحافت کے میدان میںان سے زیادہ قدآور،صاحبِ طرز اور اپنے فن میں فرد فریدشخصیت سامنے نہیں آئی ہے۔ان میں صحافتی استعداد خُلقی ہے۔اسکول کے زمانے میں قلمی اخبار’دکن ٹائمز‘ کا ترتیب دینا اس کا ثبوت ہے۔ ہائی اسکول کا امتحان پاس کرتے ہی شہر گلبرگہ کے اولین روزنامے ’سلامتی‘ کے شریک مدیر کی حیثیت سے اخبار نویسی کے کوچے میں داخل ہوئے اور آج نصف صدی بعد بھی ان کا دائرہ عمل صحافت ہی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ انھوںنے صحافت کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اورنہ ہی کوئی تجربہ کار صحافی اُس دور میں گلبرگہ میں موجود تھا،جوان کی رہنمائی کرتا۔بلاشبہ حامداکمل خود گر اورخود آراہیں۔کتابت خود سیکھی،خبر نگاری میں مہارت حاصل کی،خبروں کے حصول کے واحد ذریعے ریڈیو سے نشر ہونے والی خبروںکو تیزی سے لکھنا، خبروں کا انتخاب اور ترتیب وتزئین،پرنٹنگ پریس کے پتھر پر مستر کے عکس کو منتقل کرنا، پریس چلانا، غرض حامداکمل نے اپنی صحافتی شخصیت کی ساخت پرداخت خودکی ہے۔
تقریباً پندرہ سال ’سلامتی‘ سے وابستگی کے بعد حامداکمل نے اپنا اخبار ہفت روزہ ’ایقان‘ جاری کیا۔’ایقان‘ کا دفتر کھاری بائولی،مومن پورہ میں ’خانقاہ اکملیہ‘ کے نام سے معروف اورنئے وپرانے قلم کاروں کا مرجع ہوا کرتاتھا۔اچھے خاصے وسیع،چوکور،بوریے بچھے کمرے کا ایک کونا حامد اکمل کے لیے مختص تھا۔اس کے مقابل کے کونے میں بے ترتیبی سے پڑے پرانے اخبارات ورسائل کا انبار لگا ہوتا۔تیسرے کونے میں دکنی شاعر سلیمان خطیب کا ایک پورٹریٹ اوراس سے لگ کر لوہے کے اسٹینڈ پر رکھا پینے کے پانی کاگھڑا، جس میں شاید ہی کبھی پانی بھراگیا ہو اور یہی کونا استعمال کی گئی بیڑیوں ،سگریٹوں اور ماچس کی تیلیوں سے اٹا ہوا ہوتا۔اتنی بے ترتیبی اورابتری میں نے کسی اخبار کے دفتر میں نہیں دیکھی۔بہ زعم خود نفاست پسند احباب بھی یہاں آتے،اخبارات اور رسائل کو اِدھر اُدھر کرکے اپنی نشست کے لیے جگہ بناتے پھر اسی گردوغبار کا حصہ بن کر خوشی محسوس کرتے۔ان سب سے بے نیاز حامداکمل دیوار سے پشت لگائے ،گھٹنے پر طباعت کے زرد مستر لگے پیڈ کوٹکائے،کھلے منہ کی بڑی سی دوات میں بروسے بنے قلم کو ڈبو کر الفاظ کی شکلیں بنانے میں مصروف ہوتے۔ساتھ ہی وہ چائے پینے،گپیں لگانے اور آنے جانے والوں سے میل ملاقات بھی کرتے تھے۔میں نے انھیں کبھی ڈسٹرب ہوتے نہیں دیکھا۔ شور شرابے،ساتھیوں کی آپسی بحث وتکرار سے بے پروا حامداکمل،احباب کو نہ شور شرابہ کم کرنے کے لیے کہتے اور نہ اپنا لکھنا بند کرتے۔یہ بات کام کے تئیں ان کی لگن کی غماز ہے۔
کچھ عرصے بعد حامداکمل نے ہفت روزہ ’ایقان‘ کو روزنامے میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا۔نہایت محدود وسائل اوراخبار کے سارے کاموں کا تنِ تنہا انجام دینا،طویل مدت تک ممکن نہیں۔چنانچہ کچھ عرصہ بعد ہی اس کی اشاعت مسدود کرنی پڑی۔پھر روزگار کا مسئلہ کوہ گراں کی مانند حامداکمل کے روبہ رو تھا۔حامداکمل نے ساری زندگی میں لکھنے پڑھنے کے علاوہ اورکوئی کا م کیا ہی نہیں تھا۔اس لیے انھیںایک ایسی ملازمت کی تلاش تھی،جس کا تعلق لکھنے پڑھنے سے ہو۔خوش بختی اور تھوڑی سی تگ ودو کے بعد ان کا تقرر ای ٹی وی اُردو، حیدرآباد میں بہ حیثیت اسکرپٹ رائٹر ہوا۔شعروادب پر دسترس کے سبب اسکرپٹ نگاری ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اگرچہ یہ کام اخبار نویسی سے مختلف نوعیت کا تھا لیکن قلیل مدت میں انھوںنے اس میں بھی مہارت حاصل کی اور اپنا لوہا منوایا اورنام کمایا۔ مجھے یاد ہے حامداکمل نے ای ٹی وی کے لیے گلبرگہ کے نعت خواں احباب کے لیے ایک پروگرام ترتیب دیاتھا۔ راموجی فلم سٹی میں اس کی شوٹنگ ہوئی تھی ۔میں بھی ناظرکی حیثیت سے وہاں موجود تھا۔ایک ممتاز نعت خواں نے نعت کے کسی شعر میںایک لفظ کا تلفظ سہواً غلط کیا۔ترنم میں یہ غلطی قابلِ گرفت بھی نہیں تھی،لیکن حامداکمل نے اس حصے کی دوبارہ شوٹنگ کروائی اوراسے ایڈیٹ کیا۔اس عمل سے کسی کام میں ان کی دلچسپی اور دلجمعی کا پتہ چلتاہے۔شومئی قسمت کے ای ٹی وی کے انتظامیہ نے ان کا تبادلہ شمالی ہندوستان کے کسی شہر میں کردیا۔ گلبرگہ سے اتنی دور نقل مکانی حامداکمل کے لیے ممکن نہیں تھی۔ گلبرگہ واپسی کے بعد انھوںنے دو مقامی اخبارات کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔
2007میں روزنامہ’کے بی این ٹائمز‘ کے مدیر مقرر ہوئے اورسات آٹھ برس تک اس سے وابستہ رہے۔ اس دورانیے میں’کے بی این ٹائمز‘ کے ادبی صفحہ ’ادب نما‘ کی ترتیب وتزئین میرے ذمہ تھی۔یہی وجہ ہے کہ حامداکمل سے ملاقاتیں تقریباً روز ہی ہوا کرتی تھیں۔’کے بی این ٹائمز‘ کے دفتر میں ان کے کیبن کا حال،دورِ ایقان کی’خانقاہِ اکملیہ‘ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔وہاں بوریا نشینی تھی اوریہاں میز ، کرسیاں۔باقی ساری بے ترتیبی، پسندیدہ اورناپسندیدہ احباب کا آنا جانا،چائے کے دور اور بحثیں ویسی ہی تھیں۔البتہ یہاں انھیں کسی قدر فرصت اس لیے تھی کہ یہاں اخبار کا بیش ترکام کمپیوٹر آپریٹر کیاکرتے تھے۔ حامداکمل کو صرف مختلف ذرائع سے موصولہ خبروں کو پڑھنا،ان کا انتخاب کرنا اور سرخیاں لگانا ہوتا۔انگریزی ومقامی زبان کی چند اہم خبروں کا ترجمہ،موصولہ مراسلات کی زبان وبیان کی درستگی ان کے فرائض میں شامل تھی۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مقامی روزناموں کی تاریخ میں اداریہ نویسی کی روایت کے آغاز کا سہرا حامداکمل کے سر ہے۔’کے بی این ٹائمز‘ کے لیے انھوںنے بہ پابندی اداریے لکھے،جس کی تقلید بعد میں دیگر مقامی اخبارات نے بھی کی۔جہاں تک ’ادب نما‘ کی بات ہے،حامداکمل نے مجھے مکمل آزادی دے رکھی تھی۔تخلیقات کے انتخاب،ان کی شمولیت اور ترتیب کے معاملے میںوہ کبھی دخل اندازی نہیں کرتے،کبھی کچھ پوچھا تو رائے ضرور دیتے مگر اپنی رائے کو قبول کرنے کا کبھی اصرار نہیں کیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ میں نے شہر کے کئی قلم کاروں کے یادگار خصوصی گوشے ترتیب دیے، ’فاروقیات‘، ’آٹو گراف‘اور’احتساب‘جیسے مستقل کالموں کے ذریعے شائقین ادب کے ذوق کی تسکین کی مقدور بھر کوشش کی۔کسی معمولی بات کو لے کر ’کے بی این ٹائمز‘ کے انتظامیہ سے حامداکمل کا اختلاف ہوااورانھوںنے فوراً بلا تامل استعفیٰ دیا اور علیحدگی اختیار کرلی۔
’کے بی این ٹائمز‘ سے علیحدگی کے بعد حامداکمل نے ایک بارپھر اپنے ذاتی اخبار کی اجرائی کا منصوبہ باندھا۔نئے اخبار کے نام کی منظوری کے لیے درخواست بھیجی گئی،پریس کے لیے ہال اوردفتر کے لیے پہلی منزل پر ایک کمرے کی تعمیر کی،پریس خریدا۔اسی دوران’ایقان ایکسپریس‘ کے نام کی منظوری آئی۔ اور5 /جون 2016کو’ایقان ایکسپریس‘ کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا۔اتنہائی قلیل وسائل ،نامساعد حالات اور مسلسل خسارے کے باوجود ’ایقان ایکسپریس‘ کی پابندی سے اشاعت اخبار نویسی کے تعلق سے حامداکمل کے جنون،ان کی حوصلہ مندی اورعزم و استقلال کو ظاہر کرتی ہے۔
حامداکمل مبنی بر اقدار صحافت کے موئید ہیں۔انھوںنے اسے ایک مشن اور شوق کے طورپر اپنایاتھا اورآج بھی اس پر قائم ہیں۔ عہد نو میں صحافت نے ایک پیشے اور تجارت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ لیکن حامد اکمل نے صحافت کے تجارتی پہلوئوں پر کبھی توجہ نہیں کی۔اگرچہ آج صحافت میں بلیک میلنگ اور لفافوں کا چلن عام ہے۔اخبارات کا بڑا حصہ پیڈ خبروں سے بھرا ہوتاہے۔ لیکن حامداکمل ان سب کو صحافت کے تقدس کے مغائر اور بے ایمانی اور بد دیانتی گردانتے ہیں۔ اپنی صحافتی تحریروں میں سنسنی،ہیجان انگیزی،جذباتیت سے بھی حد درجہ اجتناب کرتے ہیں۔حتیٰ کہ اپنے اخبار میں انھیں حادثات وغیرہ کی دردانگیز تصویروں کو شائع کرنے میں بھی تامل ہوتاہے۔
صحافت کے بعدحامداکمل کو شعروادب سے بھی گہرا شغف ہے۔اوائل عمری سے شعر گوئی کا آغاز کیا۔اوربہت جلد قومی سطح کے موقر رسائل میں ان کا کلام شائع ہونے لگا۔ ملکی سطح کے کئی اہم شعری انتخابات میں ان کا کلام شامل ہے۔ غالباً صحافتی مصروفیتوںکے سبب انھیں اپنے وارداتِ قلبی کے شعری اظہارکے مواقع کم میسر آئے۔ عرصہ قبل ان کا ایک شعری مجموعہ’تشبیہ‘ منظر عام پر آیاتھا۔اور ادبی حلقوں میں اس کی خاصی پذیرائی بھی ہوئی تھی۔ حامداکمل ایک ہنر مند نثرنگار بھی ہیں۔ ادبی موضوعات پر لکھے ان کے درجنوں مضامین مختلف اخبارات اوررسائل میں بکھرے اپنی یکجائی اوراشاعت کے منتظر ہیں۔
حامداکمل کا مطالعہ وسیع تر اور حافظہ غضب کاہے۔ نئے اور پرانے شاعروں کے سینکڑوں اشعار ان کی نوکِ زبان پر ہوتے ہیں۔ آج بھی کتب بینی اور نئے رسائل کا مطالعہ، ان کے روزمرہ معمولات کا حصہ ہے۔ملاقاتوں پر اکثر اپنی پڑھی ہوئی تخلیقات کے حسن وقبح پر رائے زنی کرتے ہیں۔ شعرو ادب کے محاسبے اور محاکمے کی عمدہ صلاحیتیں بھی حامداکمل میں موجودہیں۔اگروہ سنجیدگی سے شعروادب اوراس کے متعلقات پر خامہ فرسائی کرتے تو ایک کامیاب نقد نگار ہوتے۔
حامداکمل سراپا محبت اوراخلاص ہیں۔ان میں کسی سے دشمنی کرنے یا عداوت رکھنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔ وضع دار ایسے کہ جس سے جو تعلق قائم ہوگیا،اسے نبھانے کے لیے دل وجان سے حاضر رہتے ہیں۔ وقتی طورپر کسی کی ناپسندیدہ باتوںیا نازیبا حرکتوں سے ناراض بھی ہوںگے، منہ پر ہی کھری کھوٹی سنائیں گے،لیکن وہ ایسی باتوں کو زیادہ دیرتک اپنے دل میں جگہ دینے کے قائل نہیں۔اگلی کسی ملاقات پروہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ایسے ملیں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
حامداکمل کی برجستہ گوئی،بذلہ سنجی اور طلاقت لسانی بے مثال ہے۔ بات میں بات پیدا کرنا،محفل کو زعفران زار کرنا ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ کبھی کبھی بے تکلف احباب کے درمیان ان کی یہ بذلہ بازی،شستگی اورشائستگی کی بلندی سے اُتر کر فحش کلامی اورپھکڑ پن کی پستی میں بھی اُتر جاتی ہے۔ یاداش بخیر۔کسی جلسے میں ایک نامور قلم کار فیض احمد فیض پراپنا مضمون ’فیض میری نظر میں‘ کے زیر عنوان سنا رہے تھے۔ مضمون میں اقتباسات کی طور مار تھی۔ کسی نے حامداکمل کی توجہ اس جانب دلائی تو انھوںنے برجستہ کہا تھا۔ ’’مضمون اچھاہے، لیکن اس کا عنوان، فیض اوروں کی نظرمیں ہوتا تو بہتر ہوتا۔‘‘
حامداکمل عملی طورپر بہت زیادہ مذہبی آدمی نہیں ہیں۔ادھر کچھ برسوں سے نمازوں کی پابندی کررہے ہیں۔ایک بار عمرہ کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔لیکن مزاجاً بہت مذہبی واقع ہوئے ہیں۔ انھیں اللہ کی ذات پر کامل اعتماد ہے اور اسی اعتماد کے سہارے وہ بڑے اطمینان سے بڑی سے بڑی مصیبت جھیل جاتے ہیں۔حامداکمل سچے عاشقِ رسولﷺ ہیں۔ساتھ ہی بزرگانِ دین اور اولیائے کرام سے بے انتہا عقیدت رکھتے ہیں۔ بالخصوص حضرت بندہ نوازؒ کے بڑے ارادت مند ہیں۔بہ پابندی بارگاہِ بندہ نوازؒ میں حاضری دیتے ہیں۔ کبھی اندر جانا نہ بھی ہوتو درگاہ کی پہلی سیڑھی کو چھوکر ہاتھ ماتھے کو لگانا نہیں بھولتے۔ بزرگان سے ارادت مندی کا مزاج ان کے فرزنداکبر شیخ شہباز میں بھی بہ درجہ اتم موجود ہے۔
حامداکمل سے وابستہ دو باتیں ورطۂ حیرت میں ڈالنے والی ہیں۔اول یہ کہ آج کے تیزرفتار دور میں انھوںنے کبھی کسی سواری کا استعمال نہیں کیا۔ حتیٰ کہ عمر کے کسی بھی حصے میں انھوںنے سائیکل تک نہیں چلائی۔ ہمیشہ دوسروں کے سر اور سواریوں پر یا آٹو میں سوار نظر آتے ہیں۔ دوم یہ کہ کم وبیش چالیس برس تک بہ کثرت تمبا کو نوشی کرنے کے بعد اپنے ایک بزرگ دوست کی تجویز پراسے یک لخت ترک کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی صحت آج ماشا اللہ اتنی اچھی ہے کہ حلیہ بشرے سے وہ ستر برس کے بوڑھے قطعاً نہیں لگتے۔مذکورہ بالا دونوں باتیں ان کی غیر معمولی خود اعتمادی کا نمونہ ہیں۔
بہ ہرحال حامد اکمل کی شخصیت جس گوشت پوشت اورجس رگ وپئے سے تشکیل پائی ہے،اس سانچے میں قدرت نے بہت کم لوگوں کو ڈھالا ہوگا۔ شیخ حاجی سے حامداکمل اورپھر سینئر صحافی حامداکمل بننے کا جو طویل سفر انھوںنے طے کیاہے اس کی تفصیل غریقِ حیرت کرنے والی ہے۔یہ ان کی ثابت قدمی اور اولوالعزمی ہی ہے کہ ابتلا اور آزمائش کی بھٹیوں کی آگ انھیں بھسم نہیں کرسکی بلکہ وہ ان سے کندن بن کر نکلے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی حیثیت اورشخصیت سے خوب آگاہ ہیں۔مدح وقدح سے بے نیاز،خوش فہمی،خود فریبی اورخود پرستی جیسی علتوں سے دوری، اور بناوٹ اور تصنع سے بے زاری حامد اکمل کی شخصیت کے عناصر ترکیبی ہیں۔ خوشامد اور چاپلوسی سے ان کا خون آشنا نہیں،وہ کسی سے کوئی توقع نہیں باندھتے،کبھی مایوس نہیں ہوتے، چہرے پر اپنے کسی غم دروں کا اظہار ہونے نہیں دیتے۔ جیب تنگ ہونے کے باوجود ضرورت مندوں کے لیے ان کا سینہ ہمیشہ فراغ رہتاہے۔ حامداکمل کے یہی اوصاف ان کی شخصیت کی محبوبیت میں اضافہ کرتے ہیں۔
بلاشبہ حامداکمل میں بشری کمزوریاں اورخامیاں بھی پائی جاتی ہیں،لیکن میرے تجربے اور مشاہدے میں حامداکمل کی خوبیاں ان کی کمیوں اور خامیوں پر غالب ہیں۔اسی لیے میں نے ابتدا میں ہی انھیں خوش خصال اور باکمال شخصیت سے تعبیر کیاہے۔
ان کی سترویں سالگرہ کے موقع پر میں بہ صمیم قلب دعا گو ہوں کہ ان کی محبتیں اور شفقتیں سدا ہمارے سروں پر سایہ افگن رہیں۔