معروف عالم دین مولانا نور احمد ترالی انتقال کر گئے

0
0

آبائی ضلع سوگوار،نمازجنازہ میں ہزروں کی تعداد میں لوگ شریک،دینی،مذہنی،سماجی اور سیاسی جماعتوں کا اظہار رنج،سوگوار کنبے کے سات تعزیت
کے این ایس

سرینگر؍؍وادی کشمیر کے معروف عالم دین وماہر تعلیم مولانا نور احمد ترالیؒ مختصر علالت کے بعد75 سال کی عمر میںانتقال کر گئے۔عالم دین کی وفات پرمتعدد سیاسی سماجی،مذہبی و دینی جماعتوں نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے انہیں شاندار خراج عقیدت پیش کی ہے ۔ اس دوران مرحوم کا آبائی ضلع ماتم کدے میں تبدیل ہوا،جبکہ نماز جنازہ مولانا رحمت القاسمی نے پڑھایا جس میں ہزروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔تفصیلات کے مطابق وادی کشمیر کے سرکردہ عالم دین مولانا نور احمد ترالی ولد مولانا نورالدین ؒقاسمی ساکن ترال پائین مختصر علالت کے بعد کچھ رو زتک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد جمعرات کو رات دیر گئے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ مولانا کی موت کی خبر سوشل میڈیا کے زریعے لوگوں تک پہنچی اور پورے ترال میں ماتم اور غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ وادی کشمیر کے اطراف و اکناف سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ترال پہنچی جہاں صبح سویرے سے ہی لوگ مرحوم کا آخری دیدار کرنے کے لئے قطاروں میں کھڑے تھے۔مولانا نور احمد ترال کی نماز جنازہ صبح کے ساڑھے گیارہ بجے دارلالعلوم نور الاسلام ترال کے احاطے میں ادا کی گئی اور نماز جنازہ معروف عالم الدین مولانا رحمت اللہ قاسمیؒ نے پڑھائی ،جس دوران یہاں تل دھر نے کی بھی جگہ بھی موجود نہیں تھی۔نماز جنازہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ،جن میں ایک بڑی تعداد وادی کے اطراف و اکناف سے آئے ہوئے لوگوں کی تھی۔ترال کے مین بازار سمیت گائوں دیہات میں دن کے ساڑھے بارہ بجے تک تمام دکان بند رہے ۔مولانا نور احمد ترالی نے اپنی تمام عمر دین اسلام کی خدمت میں گزاری ہے ۔مولانا ابتدائی طور ایک استاد تھے جس کو انہوں نے اپنے والد مولانا نور الدین ترال کے اسرار پرسرکاری نوکری کو خیر باد کہہ کر مدرسہ تعلیم اسلام ترال ،دار العلوم ترال کا نگران مقرر کر کے انہیں ان اداروں کا کام کاج سونپاگیا، جس کو مرحوم نے بہتر انداز میں انجام دیا اور آخری دن تک تینوں اداروں میں معیاری تعلیم کو بلندیوں تک لیا ہے جبکہ مولانا نور الدین ترال کا انتقال سال 1993 میں جمعہ کی نماز پڑھتے ہوئے تشہد میں ہوا ۔اس کے بعد سے تاحال مولانا نور احمد ترال نے علاقے میں کئی اداروں کو نظم و ضبط کے ساتھ چلانے کے علاوہ واعظ و تبلیغ کی ذریعے سے دین اسلام کی کافی خدمت کی ہے ۔نور احمد ترال مرحوم کو علاقے کا ہر ایک انسان چاہے وہ کسی بھی مکتب یا فریقے ،یا مذہب سے کیوں نہ تھاعزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔علاقے میںس اگر کبھی غیر مسلموں جو یہاں اقلیت میں رہتاتھا کو کوئی مسئلہ پیش آتا ، تو وہ فوری طور مولانا کے ساتھ رابطہ قائم کرتے تھے حتیٰ کئی بار ان اقلیتوں کے حقوق پر بھی وہ جمعہ کے روز تبلیغ فرماتے تھے ۔مرحوم کے وفات کے بعد آج یہاں سکھ اور پنڈت برادی کے لوگ بھی پر نم آنکھوں سے انہیں الودعی ٰ کہہ رہے تھے ۔نور احمد ترالی نے علاقے کے تین اہم تعلیمی اداوں جن میں دارالعلوم نور اسلام ترال ،مدرسہ تعلیم اسلام ترال اور جامعہ البنات ترال شامل ہیں چلا رہے تھے جنہوں نے ترال میں اینی اور دنیاوی تعلیم کے میعار کو انتہائی بلندیوں تک پہنچایا ۔دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کو دار العلوم اور جامعہ البنات می ں رائج کرنا ان ہی کی ایک کوشش تھی تاکہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حافظ قران یا دیگر علوم حاصل کرنے والے طلباء کو کسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔مرحوم کے وفات پر پوار ترال سوگوار ہے ۔اس دوران متعدد دینی اور مذہنی جماعتوں کے ساتھ ساتھ،ٹریڈ یونین ترال،سٹزنز کونسل ترال،سیول سوسائٹی ترال،ٹریڈ یونین ترال نے نور احمد ترالی کے وفات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے سوگوار کنبے کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا۔دریں اثنا مولانا نور احمد ترالی کی رحلت پر مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں نے اظہار دکھ کیا ہے۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈٰی پی) نے مولانا نور احمد کی رحلت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے پارٹی کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر ایک ٹویٹ میں کہا، ’ہم اللہ کی طرف سے ہی آئے ہیں ان کی طرف ہی واپس جانا ہے، معروف عالم دین، مصلح اور ماہر تعلیم مولانا نور احمد ترالی کے انتقال پر ہم غمزدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے‘۔ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے کشمیر ترجمان الطاف ٹھاکر نے بھی اپنے ایک بیان میں مولانا کو زبردست الفاظ میںخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے اسلام کو نہ صرف حقیقی معنوں میں پہنچایا بلکہ انہوں مرحوم نے سماجی برائیوں کے خلاف بھی علاقے میں آواز ٹھائی ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا