کچھ لوگ بھیس بدل کر سادہ لوح عوام سے پےسے ہتھےانے مےں لگے ہوئے ہےں

0
0

جس کا ضمےر زندہ ہے وہ اےسے لوگوں کی تحقےق کرے :اعجاز مدنی
لازوال ڈیسک
پونچھسنی ےوتھ ونگ کے رےاستی صدر خواجہ اعجاز احمد مدنی نے پرےس کے نام جاری اےک بےان مےں کہا کہ چند سالوں سے کچھ لوگ پونچھ اور اس کے مضافات مےں اپنا بھےس بدل کر سادہ لوح عوام سے پےسے ہتھےانے مےں لگے ہوئے ہےں ۔انہوں نے حدےث ِ مبارکہ کا حوالہ دےتے ہوئے کہا کہ”اوپر والے کا ہاتھ نچلے والے ہاتھ سے بہتر ہے،اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نچلا ہاتھ مانگنے والا ہے”۔مانگنے والے اکثر بھےک کو اپنا حق سمجھتے ہےںان کا گھر بھرا ہوتا ہے اور انہےں کسی چےز کی ضرورت نہےں ہوتی،مگر عادت پڑ گئی ہے تو مانگےں گے ضرور۔شرم و حےا کو بالائے طاق رکھ کر،عزتِ نفس بےچ کر،ڈانٹ پھٹکار سن کربھی بس مانگتے جائےں گے،آہ و زاری کرتے جائےں گے،جسم توانا ہو گا ،ہاتھ پاﺅں سلامت ہونگے مگر بھےک مانگنا نہےں چھوڑےں گے۔حےلے بہانے ،روپ بدل کر،خود کو بےمار و اپاہج ظاہر کر کے اور مختلف تدبےروں سے بھےک مانگنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ےاد رکھیے اسلام مےں بھےک مانگنا منع ہے۔اسلام ہاتھ پھےلانے کی اجازت نہےں دےتا بلکہ محنت و مزدوری کرکے کمانے کھانے پر زور دےتا ہے۔دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی اجازت بہ درجہ مجبوری ہے۔اسلام مےں پےشہ ورانہ بھےک مانگنے اور اسے اپنا خاندانی حق سمجھنے کی ہر گز اجازت نہےں۔ مدنی نے کہا کہ جس دےن نے بھےک مانگنے سے سب سے زےادہ منع کےا ہو،محنت سے کمانے کھانے اور کوشش و جدوجہد سے روزی حاصل کرنے پرسب سے زےادہ زور دےا ہو،اسی دےن کے نام لےواﺅںمےں بھکارےوںکا تناسب سب سے زےادہ ہو تو ےہ کس قدر افسوسناک اور باعثِ شرم کی بات ہے۔ہمارے لوگوں کی اس احمقانہ حرکت کا استعمال غےروں نے کچھ اس طرح سے شروع کر دےا کہ خود کو مسلمان بتا کر خوب بھےک بٹور کر پھر اسی پےسے کو قومِ مسلم کے خلاف استعمال مےں لانا شروع کر دےا۔غےروں کے نزدےک گوےا بھےک مانگنا اسلام کا کوئی جز ہو جبکہ اسلام اس بات کو پسند نہےں کرتا۔مدنی نے کہا کہ ہماری قوم کا اےک بہت بڑا المیہ ےہ ہے کہ ہمےں آج تک اصل اور نقل مےں فرق واضع کرنا بھی نہےں آسکا۔خاص کر ہماری قوم تصوف کے نام پر جعلی باباﺅں کے چنگل مےں ایسی پھنس چکی ہے کہ وہاں سے باہر آنا گوےا ناممکن سی بات لگتی ہے ۔ہم نے ولایت کے معےار کو اتنا نےچا کر دےا کہ جو بھی سبز لباس زےب تن کےا ہوا نظر آئے ،گلے مےں لال گلابی پٹہ پڑا ہو،اور سر سے پاﺅں تک تسبح لٹکائے ہو تو ہم اسے ولی قرار دے دےتے ہےں جبکہ ولاےت کاکسی مخصوص لباس ےا رنگ سے کوئی تعلق نہےں ،ےہی وجہ ہے کہ ہماری اس کمزوری کو دےکھتے ہوئے غےرمسلموں نے اس طرح کا لبادہ اوڑھ کر ہمارا ہی مال لوٹ کر ہمارے ہی خلاف استعمال کرنا شروع کردےا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اےسے ہی اےک مشکوک شخص کو پکڑا تو اس شخص نے بتاےا کہ ہمےں تنخواہ پہ رکھا گےا ہے اور ہمےں اپنے مالک کی طرف سے حکم ہے کہ آپ نے ےہ لباس پہن کر مسلمانوں کے گھروں مےں جانا ہے اور ان سے پےسے لےنے ہےں ۔اور اس پےسے کا استعمال پھر مسلمانوں کے خلاف کےا جاتا ہے ۔اعجاز مدنی نے کہا جس کا ضمےر زندہ ہے وہ اےسے لوگوں کی تحقےق کرے اگر ان مےں کوئی اےسی بات پائی جائے تو اس قانون کے حوالے کےجےے کےونکہ اےسے لوگ مذہب ِ اسلام کو اور مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہےں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا