مسلمان اپنے محبوب پیغمبر ؐ کی شان میں ادنی سی گستاخی بھی برداشت نہیں کرسکتا

0
0

فرانسیسی صدر کی گستاخانہ حرکت ایک طرح کی دہشت گردی ہے: عمران میر
تنویر چوہدری

پونچھ؍؍سماجی کارکن عمران میر نے اپنے ایک بیان میں فرانس کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے صدر میکرون کی گستاخانہ حرکت کو شرمناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے کسی مذہب یا مذہبی شخصیات کی توہین اور کسی قوم یا فردکی دلآزاری کی جائے، اظہارِ رائے کی آزادی کی بھی کچھ حدیں ہیں اور اگر کوئی شخص ان حدوں کو پار کرتا ہے تو اس کی مخالفت اور مذمت دونوں ہونی چاہیے، انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں فرانس میں جو کچھ ہوا اور اب بھی ہورہا ہے اسے بھی کچھ لوگ اظہارِ رائے کی آزادی سے تعبیر کررہے ہیں اور اس کی حمایت بھی کررہے ہیں، لیکن کیا ایک مہذب معاشرہ میں اس طرح کے رویہ کو درست ٹھہرایا جاسکتا ہے ؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا کی جتنی بھی مذہبی اورمقدس شخصیات ہیں، اْن سب کا احترام کیا جانا چاہیے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، ہمیں ہمارے نبی کریمؐ نے یہ تعلیم دی ہے کہ کسی بھی مذہب اور کسی بھی مذہبی شخصیت کو برا مت کہو، پوری دنیا کے مسلمان اس نصیحت پر عمل پیرا ہیں کسی بھی مذہب کا ماننے والا یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ کسی مسلمان نے اس کے مذہب کی کسی مذہبی شخصیت کے لیے گستاخانہ الفاظ استعمال کیا ہو یا اس کا مضحکہ اڑایا ہو، انہوں نے فرانس کے صدر کی طرف سے گستاخانہ خاکوں کی عمومی اشاعت اور اس ناپاک حرکت کی حمایت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل برداشت عمل ہے ، مزید برآں ایسے لوگوں کی حمایت کرنا جو آزادی رائے کی بنیاد پر کروڑوں لوگوں کی ہی نہیں بلکہ اربوں لوگوں کی ناقابل تحمل تکلیف کا سبب بنیں ، جو کہ نہایت دل آزاری کا سبب ہی نہیں بلکہ ایک طرح کی دہشت گردی ہے۔ کیونکہ ایسے گستاخ لوگوں کی دل آزاری سے شدت پسندانہ ردعمل کو بڑھاوا ملتا ہے اور دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ، خاص کر کسی حکمراں کی طرف سے ایسی ناپاک حرکتوں کی تائید بدترین جرم ہے اور ناقابل معافی عمل ہے ، اگر اسلامی دنیا اس طرح کی حرکت پر برافروختہ ہوکر سخت اسٹینڈ لیتی ہے تو اس کو معذور سمجھنا چاہیے۔ عمران میر نے کہا کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جو دوسرے کسی بھی مذہب کے مقدس شخصیات کی استہزا کو ہرگز پسند نہیں کرتا اور تمام مذہبی طبقات کے جذبات کا پاس و لحاظ رکھتا ہے، مگر دنیا کی کچھ طاقتیں باربار مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہیں اور دل آزاری کرتی ہیں یہ بات قطعاً ناقابل قبول ہے ، ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں، آخر میں میر نے کہا کہ کوئی بھی مسلمان اپنے محبوب، پیغمبر حضرت محمد مصطفی ؐ کی شان میں ادنی سی گستاخی بھی برداشت نہیں کرسکتا تاہم تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ جذباتیت سے اوپر اٹھ کر حسن تدبیر اور تحمل سے اس کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بہت افسوس ہے کہ ہمارے ملک کی حکومت نے فرانس کے موقف کی تائید کی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھوکر مارکر دلوں کو ٹھیس پہنچانے والے قانون اور جذبے کی تائید کررہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود اپنے ملک کے اندر حکومت کا رخ کیا ہے اور وہ بیس کروڑ مسلمانوں کے سلسلہ میں کیا نظریہ رکھتی ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ فرانس کے موقف کی تائید کے مقابلہ خاموش رہنا زیادہ بہتر ہوتا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا