صحافی سچا ئی بیا ن کرنا چا ہتے ہیں مگر سچے پڑھنے والے نہیں ملتے: مدثر احمد شیموگہ

0
0

تحریک بقائے اردو کی ایک خوبصورت شام روز نا مہ آج کا انقلاب کے مدیر مدثر احمد شیموگہ کے سا تھ
لازوال ڈیسک

جموں؍؍ تحریک بقائے اردو کے علمی ادبی فیس بک پیج پر ہر شام ۵ بجے نہ صرف ہندوستا ن بلکہ دنیا کے مختلف شہروں اور ملکوںسے کوئی نہ کو ئی شاعر ، ادیب ، محقق، افسانہ نگار ۔، نا ول نویس ، تنقید نگار ، دانشور مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں اور اپنے ابتدا ئی تعلیمی اور تربیتی مراحل کا ذکر کرتے ہیں اس کے علا وہ اردو کی اہمیت و افا دیت پر بھی بات کرتے ہیں اپنے نیک مشوروں سے نوازتے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کل شام کے پروگرا م میں شامل ہو ئے مہما ن روز نا مہ آج کا انقلاب کے مدیر مدثر احمد شیموگہ کے سا تھ خوشگوار ماحول میں مکمل ہوئی جس میں انہوں نے اردو صحافت کے بدلتے ہوئے معیار پر بھرپور گفتگو ہوئی اور میزبان کے فرائض تحریک بقائے اردو کے صدر پروفیسر عرفا ن عارف نے ادا کیے ۔ایک گھنٹہ اور با ئیس گھنٹے کی اس گفتگو میں مدثر احمد نے اردو صحافت پر سیر حاصل تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صحافت کا پیشہ دنیا کا سب سے مشکل کا م ہے ۔انھوں نے بتا یا کہ میرے تما م اداریے حالات حاضرہ کے ساتھ ساتھ سما ج کے اَن دیکھے اور فراموش کر دیے جا نے والے موضوعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ان میں آپ کو احتجاج ہی ملے گا۔اس دورا ن انھو ں نے اپنے ۳ افسانچے بھی نا ظرین کو سنا ئے۔اور یہ بھی بتا یا کہ آج کا انقلا ب ایک تحریک ہے ۔جو سما ج ، سیا ست اور عوام کے درمیا ن ایک پل کا کام کرتی ہے۔دوران گفتگو نا ظرین کے بے حد مفید اور دلچسپ کمنٹ اور سولا ت پر بھی تسلی بخش جوابات دیتے رہے۔مہما ن و میزبا ن نے بتا یا کہ ذریعے ادب کے بہت سے گوشوں کو اجاگر کروایا جا سکتا ہے تحریک کا یہ پیج اردو کی بقا،اس کے فروغ اور ترقی و ترویج کے لئے بنایا گیا ،اردو سے وابستہ ادیب ، شاعر، نقاد، دانشور، محقق ، ماہرِ تعلیم ، اسکالر ، محبانِ اردو، طلبا اور اردو کے لئے کسی بھی طرح کا کام کرنے والوں کو ایک ساتھ جوڑا جا رہا ہے تاکہ سب اپنے اپنے نیک مشوروں سے تحریک بقائے اردو کے پیج سے اردو زبان و ادب کے فروغ ، ترقی اور ترویج کے ساتھ ساتھ اردو تعلیم و تدریس کو کس طرح زیادہ دلچسپ، موثر ، کارآمد اور فعال بنا یا جا سکے یا کون سے ایسے اقدام اٹھائے جا سکتے ہیں ، اس پر خوب بولا جائے ، لکھا جائے، کہا جائے ، اورنئی نسلوں کو اردو سے جڑنے کے لئے کیا تدابیر ممکن ہو سکتی ہیں ۔ روزگار کے کیا وسائل ممکن ہو سکتے ہیں۔ ان تمام نکات پر معزز خواتین و حضرات یہاں آکر علمی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے باتیں کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنا کلام / تخلیقات/ مطبوعات کے ساتھ ساتھ اردو کی اہمیت و افادیت پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔ سرکاری غیر سرکاری اداروں سے اردو کی حمایت میں کام کاج کروانے کی گزارشات کرتے ہیں ۔ آخر میں مہما ن مدثر احمد نے یہ بھی کہا کہ صحافی سچا ئی بیا ن کرنا چا ہتے ہیں مگر سچے پڑھنے والے نہیں ملتے ۔ایک صحافی کو چا ہیے کہ وہ زیا دہ سے زیا دہ اخبارات کا مطا لعہ کرنا پڑے گا ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا