تحریر: میر امتیاز آفریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظ” سیرت” کے عربی لغت میں معنی ہیں: چال چلن، چلنا پھرنا، ہیئت و حالت، شکل و صورت، طریقہ و کردار وغیرہ۔ چنانچہ اولین دور میں اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مغازی لئے گئے، بعد میں اس سے مراد وہ رویہ لیا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ساتھ جنگ و صلح میں روا رکھا تھا۔ آخری مرحلہ میں اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اور اس سے منسلک تمام حالات و واقعات کو لیا گیا۔ عرف عام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے بیان کو سیرت کہتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے ساتھ ساتھ شمائل و خصائص کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بطور خاتم النبیین تمام اقوام عالم کے لئے مبعوث فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو رہتی دنیا تک نمونہ حیات قرار دیا۔
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ( الاحزاب)
ترجمہ: تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہترین نمونہ حیات ہے۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔اس لئے صحابہ کرام نے آپ کے حالات و واقعات کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لئے غیر معمولی اہتمام کیا اور یہ اسی کا ثمرہ ہے کہ آج ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔
سیرت رسول کائنات کی اس عظیم شخصیت کا تذکرہ جمیل ہے جس کا مداح اور ثنا خوان خود اس کا پروردگار ہے۔ قرآن مجید کے صفحات جس کی عظمت و رفعت کے ذکر خیر سے جگمگا رہے ہیں، سارے جہانوں کا خدا جس پر صلوٰۃ و سلام کے بیش بہا موتیوں کی بارش برسا رہا ہے۔ملاء اعلیٰ کے نوری فرشتے جس پر ہر لحظ درود و سلام کے مہکتے پھول نچھاور کر رہے ہیں۔جس کے خلق کو اس کے خالق نے عظیم کہا، جس کے اسوہ کو رب نے حسین فرمایا۔ زبان قدرت نے جس کو رحمۃ للعالمین فرما کراپنی ساری مخلوق سے روشناس کرایا اور وما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرً ونذیرًا (سباء 28) فرما کر جملہ انسانیت کے لئے نجات دہندہ قرار دیا۔ یہ رب کا وہ عظیم پیغمبر ہے جو بلا امتیاز سب کا تھا، سب کا ہے اور سب کا رہے گا۔
آسمان رشد وہدایت پر جس کا آفتاب رسالت نور افشانی کر رہا ہے اور تا ابد کرتا رہے گا۔ بقول پیران پیر شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ:
افلت شموس الاولین و شمسنا
ابداً علی افقٍ اعلی لا تغرب
یعنی پچھلے پیغمبروں کے سورج طلوع ہوئے اور ڈوب گئے مگر ہمارا سورج ہمیشہ افق پر ضوفشانی کرتا رہے گا اور کبھی نہیں ڈوبے گا۔
حکیم الامت علامہ اقبال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو ایمان کا مرکز و محور قرار دیتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:
با خدا درپردہ گویم باتو گوئم آشکار
یارسول اللہ او پنہاں و تو پیدائے من
یعنی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں براہ راست خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس سے ہمکلام ہو سکتا ہوں کیونکہ وہ پردے میں ہے مگر آپ میری آنکھوں کے سامنے موجود و آشکار ہیں لہذا میں آپ سے براہ راست مستفید ہو سکتا ہوں۔ پیام مشرق کے اس شعر کی شرح میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی ،جو علامہ کے براہ راست شاگرد بھی تھے، فرماتے ہیں:
"میں نے ایک دفعہ حضرت علامہ سے اس شعر کا مفہوم دریافت کیا تھا تو انہوں نے میرے سوال کے جواب میں ایک تقریر کی تھی۔۔۔اس تقریر کے دوران انہوں نے یہ نکتہ بھی بیان کیا تھا کہ عقل تو کسی شخص کے دل میں خدا کی ہستی کا یقین پیدا نہیں کرسکتی۔ میں اگر خدا پر یقین رکھتا ہوں تو محض اس لئے کہ میرے آقا اور مولا یہ فرماتے ہیں کہ خدا موجود ہے ( اس کے بعد حسب معمول ان پر رقت طاری ہو گئی) اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود نہ ہوتا تو ہم کہاں ہوتے؟ میرے لئے جو کچھ ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ میرا دین ، میری روح، میری جان سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ اس کے بعد اپنا یہ شعر پڑھا:
قوت قلب و جگر گردد نبی
از خدا محبوب تر گردد نبی”
(شرح پیام مشرق: یوسف سلیم چشتی: صفحہ:556)
دور حاضر کے ایک معروف عالم دین نے بجا لکھا ہے:
” چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف انہیں کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو ان کے پروردگار کی ہدایت میسر ہوسکتی ہے اور یہ صرف انہی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس کو دین قرار دیں ، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے۔”
سیرت کے بیان کا مقصود ایک ایسے معاشرے اور دنیا کی تشکیل ہے جہاں انسان امن و سلامتی سے رہ سکے، اپنے رب کے سوا اسے کسی کا خوف نہ ہو، عدل اجتماعی کا کلچر پیدا ہو اور فرد انسانوں کی غلامی سے نجات پا کر آزادی و حریت کی فضا میں سانس لے سکے۔
چونکہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف تاریخ کے ایک بڑے شخص کی سوانح حیات نہیں بلکہ تمام زمانوں کے انسانوں کے لئے ایک مکمل دستور حیات ہے۔ جوں جوں انسان علمی، عملی، روحانی اور اخلاقی میدانوں میں بے راہروی سے دوچار ہوگا اسے اتنی ہی زیادہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی رہنمائی کی ضرورت ہوگی۔ دور حاضر کی مشہور محقق اور سیرت نگار کیرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب Muhammad: A Biography of the Prophetمیں لکھا ہے:
” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولولہ انگیز حیات مقدسہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص پوری دنیا کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کر سکتا ہے اور پرانی روایات کو نئے انداز میں پیش کرکے لوگوں کی زندگیوں کو روشن اور تاباں کرسکتا ہے۔” (ترجمہ: نعیم اللّٰہ ملک صفحہ: 24)
آپ صل اللہ علیہ وسلم کی سیرت نہ صرف مذہبی اہمیت کی حامل ہے بلکہ روحانی، اخلاقی، سائنسی، سیاسی، عمرانی اور نفسیاتی معاملات میں بھی بھٹکی انسانیت کی رہنمائی کا جوہر رکھتی ہے۔ بڑے سے بڑے فلسفی ہوں یا سائنسدان، حکیم ہوں یا مفکر نجات نہیں پا سکتے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اپنے لئے مشعل راہ نہیں بناتے:
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلادیا چند اشاروں میں
آپ کی زندگی میں اس قدر متنوع اور متضاد اوصاف نظر آتے ہیں جو کسی ایک شخص میں تاریخ نے آج تک کبھی یکجا جمع نہیں کئے۔مولانا وحید الدین خان اپنی مشہور کتاب’ علم جدید کا چیلنج’ میں لکھتے ہیں:
” اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول نہ مانیں تو ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں رہتا کہ ان حیرت انگیز اوصاف کا سرچشمہ کیا تھا جبکہ ساری معلوم تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا انسان پیدا نہیں ہوا۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرکے ہمیں بیک وقت ایک ایسا بادشاہ نظر آتا ہے سارا ملک جس کی مٹھی میں ہے مگر عاجز اتنا کہ خود کو بھی اپنے اختیار میں نہ سمجھتا ہو اور خدا کے اختیار میں ہو۔
دولت مند ایسا کہ خزانے کے خزانے اونٹوں پر لدے ہوئے اس کی مسجد کے صحن میں آرہے ہوں مگر ‘فقیر’ ایسا کہ مہینوں اس کے گھر میں چولہا نہ جلتا ہو۔اور کئی کئی وقت اس پر فاقے سے گزر جاتے ہوں۔
سپہ سالار اور شجاع ایسا کہ مٹھی بھر نہتوں کو لے کر ہزاروں کی سازو سامان سے لیس فوج سے ٹکرا کر کامیابی حاصل کرے اور صلح پسند ایسا کہ ہزاروں پرجوش جانثاروں کی ہمراہی کے باوجود حدیبیہ کے میدان میں صلح کے کاغذ پر بے چون وچرا دستخط کردیتا ہو اور ساری زندگی اپنے ہاتھوں کسی انسان کا خون نہ بہاتا ہو۔
با تعلق ایسا کہ عرب کے ہر چھوٹے بڑے فرد کی اسے فکر ، بیوی بچوں کی، افراد خانہ کی، غلاموں کی، یتیموں کی، ناداروں کی اور حاجت مندوں کی اس کو فکر مگر مخلوق خدا سے بے فکر اتنا کہ خدا کے سوا اسے کوئی یاد نہ ہو اور اسی بندگی میں محو ہو۔
اس نے اپنی ذات کے لئے اپنا برا چاہنے والے بد خواہوں سے کبھی بدلہ نہ لیا اور اپنے ذاتی جانی دشمنوں کے حق میں دعاء خیر کی اور ان کا بھلا چاہا۔لیکن خدا اور راہ حق کے دشمنوں کو آپ نے کبھی معاف نہیں کیا اور انہیں عذاب الٰہی سے ڈراتا رہا۔
عین اس وقت جب اس پر ایک تیغ زن سپاہی کا دھوکا ہوتا ہے، وہ ایک شب بیدار زاھد کی صورت میں رات کی تنہائیوں میں یاد خدا میں روتا ہوا نظرآتاہے۔ عین اس وقت جب اس پر کشور کشا فاتح کا شبہ ہوتا ہے، وہ قل انما انا بشرٌ کی صدائیں لگاتا ہوا نظرآتاہے۔جب ہم اس کو شاہ عرب کہ کے پکارنا چاہتے ہیں وہ کھجور کی چھال کی کھردری چٹائی پر بیٹھا ہوا ایک درویش خدا نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تڑپ اٹھتے ہیں:
‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بڑھ کر ہمارے لئے رونے کا کیا مقام ہوگا کہ قیصر و کسریٰ مزے لوٹ رہے ہیں اور عیش کر رہے ہیں اور آپ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ہوکر اس حالت میں ہیں۔’
ارشاد ہوتا ہے: ‘ عمر! کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ قیصر و کسریٰ دنیا کے مزے لوٹیں اور ہم آخرت کی سعادتیں۔’
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرمایا کرتی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے مگر دو وقت بھی سیر ہوکر کھانا نصیب نہ ہوا۔ (بحوالہ مترجم پیغمبر اسلام کی سوانح حیات)
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پرکہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
دراصل اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں لاتعداد عظمتیں جمع فرمائیں تھیں۔
آپ صل اللہ علیہ وسلم کی اس شان کو بیان کرتے ہوئے ایک نعت گو شاعر نے خوب لکھا ہے۔
لکل نبی فضیلۃ فی الانام
و جملتھا مجوعۃ لمحمدٖ
ترجمہ: ہر نبی کو اپنے اپنے انداز کے مطابق فضائل عطا ہوئے مگر یہ تمام عظمتیں اور فضائل اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جمع فرمائیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو نعیم اللہ ملک صاحب نے بڑی خوبی سے کچھ اس طرح پیش کرنےکی دلکش کوشش کی ہے:
"ایک ایسی شخصی زندگی ،جو ہر طائفہ انسانی اور ہرحالت انسانی کے مختلف مظاہر اور ہرقسم کے صحیح جزبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو،صرف محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت ہے. اگر دولتمند ہوتو مکہ کے تاجر اوربحرین کے خزینہ دار کی تقلیدکرو،اگر غریب ہوتو شعب ابی طالبکےقیدی اور مدینے کے مہمان کی کیفیت سنو ، اگر بادشاہ ہو تو سلطان عرب کا حال پڑھو ، اگررعایا ہوتو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو ،اگر فاتح ہو تو بدرو حنین کےسپہ سالار پرنظر دوڑاو،اگر تم نے شکست کھائی ہے تو معرکہ احد سےعبرت حاصل کرو ،استاد اور معلم یو تو صفہ کی درسگاہ کے معلم مقدس کو دیکھو ،اگر شاگرد ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماو ، اگر واعظ اور ناصح ہوتو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونےوالے کی باتیں سنو،اگر تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کی منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یارو مددگار نبی کا اسوہ حسنہ تمہارے سامنےہے،اگر حق کی نصرت کےبعد اپنے دشمن کو زیر اور مخالفوں کو کمزور بنا چکے ہو فاتح مکہ کا نظارہ کرو ،اگر اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم ونسق درست کرنا چاہتے ہو تو خیبراور فدک کی زمینوں کےمالک کےکاروبار اور نظم و نسق کو دیکھو،اگر یتیم ہو تو عبداللہ اورآمنہ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو،اگر بچہ ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے بچے کو دیکھو ،اگر جوان ہو تو مکہ کے ایک …چرواہے…کی سیرت پڑھو،اگر سفری کاروبار میں ہو تو بصریٰ کے کارواں سالار کی مثالیں ڈھونڈو ،اگر عدالت کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نور آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو جو حجراسود کو کعبے کے ایک گوشے میں کھڑا کر رہا ہے،مدینہ کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو جس کی نظر انصاف میں شاہ و گدا اور امیر و غریب سب برابر تھے، اگر تم بیویوں کے شوہر ہو توخدیجہ اور عائشہ کے مقدس شوہر کی حیات پاک کا مطالعہ کرو ، اگر اولاد والے ہو تو فاطمہ کےباپ اور حسن اور حسین کے نانا کا حال پوچھو،غرض تم جو کوئی بھی ہو اور کسی حال میں بھی ہو، رسول اللہ کی زندگی تمہارےلیےبہترین نمونہ ہے.”
دین حق کے دشمن قریش نے آپ کے ساتھ کیا کیا نہ کیا، کس کس طرح اذیتیں نہ پہنچائیں، جسم مبارک پر صحن حرم میں ناپاکی ڈالی، گلے میں چادر ڈال کر پھانسی دینے کی کوشش کی، راستے میں کانٹے بچھائے، آپ کو شعب ابی طالب میں تین سال تک قید میں ڈال دیا گیا، دارالندوہ میں آپ کو قتل کرنے کی سازش رچی گئی اور آپ کو اپنا محبوب شہر مکۃ المکرمہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، ان حالات میں بھی آپ نے صبرواستقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ آپ پر جنگیں مسلط کی گئیں، آپ کے صحابہ کو بدترین قسم کی اذیتیں دی گئیں۔
حضرت خباب رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے تلے چادر پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ ہم لوگ مشرکین سے انتہائی تکالیف اٹھا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے آپ دعا کیوں نہیں فرماتے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے بیٹھ گئے۔ چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہو گیا اور فرمایا تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں کہ لوہے کے کنگھوں کو ان کے گوشت اور پٹھوں سے گزار کر ان کی ہڈیوں تک پہنچا دیا گیا اور یہ معاملہ بھی انہیں ان کے دین سے نہ پھیر سکا، کسی کے سر پر آرا رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے گئے اور یہ بھی انہیں ان کے دین سے نہ پھیر سکا، اس دین اسلام کو تو اللہ تعالیٰ خود ہی ایک دن تمام و کمال تک پہنچائے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک ( تنہا ) جائے گا اور ( راستے ) میں اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف تک نہ ہو گا۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 3852)
دنیا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دشمن سے پیار کرنے کا وعظ سنا تھا مگر اس کی عملی مثال نہیں دیکھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی مثال دیتے ہوئے عفو و درگزر کے نئے پیمانے وضع کئے۔ آپ نے اس ابو سفیان کو جو تمام لڑائیوں میں کفار کا سرغنہ تھا، کو بھی معاف کر دیا بلکہ فتح مکہ کے روز اعلان فرمایا کہ جو بھی ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا اسے امان دی جائے گی۔اس کی بیوی ہندہ کو بھی جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کے ساتھ بے ادب کرچکی تھی، کو بھی معاف کردیا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی کو اور سب سے بڑے دشمن اسلام ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کو بھی آپ نے معاف کر دیا۔
فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں اپنے تمام دشمنوں پر اقتدار حاصل ہوا اور یہ موقع ملا کہ آپ ان سے بدلہ لے سکیں مگر آپ نے غیر معمولی عفو و درگزر کا مظاہرہ کرکے ان سے فرمایا:
‘ آج میں تم سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے ظالم بھائیوں سے کہا تھا: لا تثریب علیکم الیوم یعنی آج کے دن تم پر کوئی الزام نہیں، تم سب آزاد ہو۔
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
سلام اس پر جو دنیا کے لئے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے
دور حاضر میں عدم برداشت کی وجہ سے مذاہب کے درمیان افہام و تفہیم کا فقدان ہے اور فرقہ وارانہ کشیدگی نے انسانیت کو شرمسار کرکے رکھ دیا ہے۔ان حالات میں میثاقِ مدینہ، صلح حدیبیہ اور فتح مکہ جیسے واقعات سے علمی و عملی رہنمائی حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ دکھی انسانیت کو کچھ راحت پہنچائی جاسکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں سے مل کر ریاست مدینہ کو استحکام بخشنے کی پہل کی، نجران کے عیسائیوں کو اپنی مسجد میں ٹھہرایا اور اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دے دی۔ لا اکراہ فی الدین کے سنہرے اعلان سے آپ نے جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے والوں کو ہمیشہ کے لئے روک دیا اور ایمان کو انسان کا آزادانہ انتخاب قرار دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خونریز جنگوں کو بھی اخلاقی ضابطوں کے تحت لا کر ایک نئی سوچ متعارف کی۔ یوں آپ نے امن پسندی، قوت برداشت اور رواداری کی روشن مثالیں قائم کیں جن سے استفادہ کرنا اس دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ آپ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے خوش گوار روابط استوار کرنے کا دستور العمل وضع فرمایا اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ ہمیشہ خیال رکھا۔
غیر مسلموں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنا اعتماد تھا کہ اپنے مذہبی مقدمات کا فیصلہ بھی آپ سے ہی کرواتے تھے چونکہ ابوداؤد شریف (رقم الحدیث 4449) کی اک روایت کے مطابق
یہود کے کچھ لوگ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر قف لے گئے آپ ان کے پاس بیت المدارس ( مدرسہ ) میں آئے تو وہ کہنے لگے: ابوالقاسم! ہم میں سے ایک شخص نے ایک عورت سے بدکاری کر لی ہے، آپ ان کا فیصلہ کر دیجئیے، ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک گاؤ تکیہ لگایا، آپ اس پر ٹیک لگا کر بیٹھے، پھر آپ نے فرمایا: میرے پاس تورات لاؤ چنانچہ وہ لائی گئی، آپ نے اپنے نیچے سے گاؤ تکیہ نکالا، اور تورات کو اس پر رکھا اور فرمایا: میں تجھ پر ایمان لایا اور اس نبی پر جس پر اللہ نے تجھے نازل کیا ہے پھر آپ نے فرمایا: جو تم میں سب سے بڑا عالم ہو اسے بلاؤ چنانچہ ایک نوجوان کو بلا کر لایا گیا۔۔۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان تورات کے ہی مطابق فیصلہ کردیا۔
دور حاضر کے جتنے بھی علمی، عملی، روحانی، اخلاقی، سیاسی و عمرانی مسائل ہیں ان کا حل کسی نہ کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ کے ان گنت گوشے ہیں جو ہر دور کے انسان کے لئے مشعل راہ ہیں۔ انسان چاہے کتنی بھی علمی اور اخلاقی عروج حاصل کرے گا اتنی ہی اسے پیغمبرِ اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی ضرورت ہوگی۔
ہر کجا بینی جہان رنگ و بو
آن کہ از خاکش بروید آرزو
یازنور مصطفٰی اورا بہاست
یا ہنوز اندر تلاش مصطفٰی است (اقبال )
ترجمہ: ﺍﺱ ﺟﮩﺎﻥِ ﺭﻧﮓ ﻭ ﺑﻮ ﻣﯿﮟ ﺟﺪﮬﺮ ﺑﮭﯽ
ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ،ﺍﺱ ﺧﺎﮎ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺁﺭﺯﻭیں ظاہر ﮨﻮﺗﯽ
ہیں، ﻭﮦ ﯾﺎ ﺗﻮ ﻧﻮﺭِ ﻣﺼﻄﻔﯽٰ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ
ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﭼﻤﮏ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ہیں۔