پروفیسر احرار حسین نے اردو میں سائنسی ترجمہ کے حوالے سے اردو کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں : پروفیسر صغیر افراہیم

0
0

لازوال ڈیسک

جموں؍؍تحریک بقائے اردو کے علمی ادبی فیس بک پیج پر مورخہ ۲۴،اکتوبر ۲۰۲۰؁ء کے ملاقات پروگرام میں مہمان پروفیسر صغیر افراہیم (سابق صدر شعبہ ٔ اردو ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )سے میزبان جاوید انور (سینئرنائب صدر ،تحریک بقائے ارود) کی گفتگو میں جہاں اردو فکشن اور دوسرے ادبی موضوعات پر علمی نکات سامنے آئے وہیں اردو میں سائنس کی خدمات کے حوالے سے صغیر صاحب نے بتایا کہ جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طالب علم تھے اور ہاسٹل میں رہتے تھے تو اس زندگی کے چار سال جتنی مشقت کے گزرے وہ ان کے بے حد مصروف اوقات میں شمار ہوتے ہیں ۔اس دور میں انہوں نے اردو میں سائنس کے بہت سے ترجمے کئے، جس میںان کے ہاسٹل کے دوست اور مشہور سائنسداںپروفیسر احرار حسین(موجودہ ڈائرکٹر سی۔ ڈی۔ او۔ ایل،جامعہ ملّیہ اسلامیہ) صاحب کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا کردار بہت اہم رہا ہے ۔پروفیسر احرار حسین نے اردو زبان کی غیر معمولی خدمات انجام دیں ہیں ۔انہوں نے سائنس کے بہت ایسے موضوعات اور ایجادات سے متعلق تحاریر کا اردو میں ترجمہ کر کے نہ صرف اردو ادب کے علم اور معلومات میں اضافہ کیا ہے بلکہ اس نظریہ کو بھی رد کیا ہے کہ اردو میں سائنسی سرگرمیاں ممکن نہیں ۔پروفیسر احرار حسین دہلی ایجوکیشن سوسائٹی کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں ۔اس کے علاوہ اینگلو عربی سینئیر سیکنڈری اسکول اور شفیق میموریل سینیئر سیکنڈری اسکول سے بھی وابستہ ہیں ۔ایک سائنسداں کی اپنے میدان کے علاوہ اردو زبان و ادب سے یہ والہانہ محبت اور سائنسی خدمات نہ صرف دوسرے افراد کے لئے مشعلِ راہ ہیں بلکہ اردو میں دوسرے موضوعات کے فروغ کے امکانات کا بھی پتہ دیتی ہیں۔پروفیسر احرار حسین یقیناً ملک و قوم کا ایک قیمتی سرمایہ ہیں ۔انہوں نے جن شعبوں میں بھی اپنی خدمات انجام دیں ہیں،انہیں کامیابی کی نئی نئی منزلوں سے روشناس کرایا ہے۔خدا سے دعا ہے کہ وہ آئندہ بھی جن جن اداروں سے منسلک ہوںگے، اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے ملک کے وقار میں اضافہ کرتے رہیںگے۔پروفیسر صغیر افراہیم نے اردو زبان کے بارے میں فرمایا کہ اب اسے محض میٹھی زبان کہہ کر نظر انداز کرنے کا وقت نہیں ہے ۔زیادہ میٹھا کھانے سے شوگر کا مرض ہو جاتا ہے ،اس لئے اس کے آئینی حقوق کی عمل داری بہت ضروری ہے ۔پریم چند کی آج کی اہمیت اور ضرورت پر انہوں نے فرمایا کہ جب تک اس کرّہ ٔ عرض پر کسی بھی قسم کی فرقہ واریت اور مظلوموں پر استحصال کی روش باقی رہے گی ،پریم چند کا فکشن ان کے خلاف احتجاج کی صورت میں زندہ رہے گااور ان کی معنوی تہوں سے دنیا روشنی حاصل کرتی رہے گی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے موقر جریدہ ’’تہذینب الاخلاق‘‘ میں اپنے مدیرانہ ایّام کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کسی بھی کام سے جب تک جذباتی لگائو نہ پیدا ہو ،اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا ۔کیوں کہ یہی جذباتی کیفیت شعوری سانچے میں ڈھل کر ان عملیات کا پیش خیمہ بنتی ہیں جسے ہم جنون سے تعبیر کرتے ہیں ۔جب تک کسی کام کے لئے جنون نہ پیدا ہو،یعنی وہ سطحی جنون نہیں جو کہ عمل سے عاری ہو بلکہ وہ جنون جو کہ عمل کے مراحل میں زیادہ سے زیادہ محنت و مشقت کے لئے حوصلہ افزائی کر سکے ۔شاہکار اسی طرح وجود میں آتے ہیں ۔جب وہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے مدیر تھے تو بہت زیادہ وقت اس کے دفتر میں صرف ہوتا تھا ۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں ملک اور ملک کے باہر جتنا ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا چرچا تھا ،اس کی مثال نہیں ملتی۔وہ فرماتے ہیں کہ اکثر ان کی اہلیہ پروفیسر سیما صغیر کہتی تھیں کہ ’’ناشتہ اور کھانہ تو ’تہذیب الاخلاق ‘کے دفتر بھیجواتی ہوں ۔کیا اب بستر بھی وہیں بھجوانہ پڑے گا۔سبکدوشی کے بعد کی ادبی مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ اس وقت وہ غالبؔ کے ان ۳۸،خطوط پر کام کر رہے ہیں جو انہوں نے انّائو کے ایک نواب کو لکھے تھے۔اس کے علاوہ بھی غالبؔ کے دہلی سے کولکاتا کے سفر کے دوران کے واقعات ، ان کی مکمل زندگی اور ادبی زندگی سے متعلق بھی کئی ایسے گوشے ہیں جن پر توجہ کرنے کی میں اشد ضرورت سمجھتا ہوں اور اسی تحقیقی کام میں لگا ہوا ہوں۔ نئی نسل کو پیغام دیتے ہوئے پروفیسر صغیر افراہیم نے فرمایا کہ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے ۔صلاحیت صبر،تحمل ،عمیق مطالعہ جو کہ صحیح سمت میں ہو اوروقت مانگتی ہے ۔جو ان مراحل سے نہیں گزرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا ۔انہوں نے خود اپنی زندگی کی مثال دی ۔تحریک بقائے اردو کا کی یہ ملاقات خاصی مقبول ہوئی اور اب تک اسے فیس بک پر ذوق و شوق سے دیکھا جا رہا ہے۔ پروگرام کا آغاز روزانہ کی ہی طرح تحریک کے صدر پروفیسرعرفان عارف کے استقبالیہ خطبہ سے ہوا ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا