سمیرہ حاشمی
متعلم گورنمنٹ ڈگر کالج مہنڈر
- اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ والدین بچے کو جنم دیتے ہیں اور اساتذہ اس کو ایک زندگی جینا سکھاتے ہیں ۔بچہ ماںکی گود میں سے سیکھنا شروع کرتا ہے اور قبر کی گود تک سیکھنے میں مائل رہتا ہے لیکن اس سب میں مدرس کا ایک قلیدی رول ہوتا ہے کہ ایک آدمی سے ایک انسان بنانے میں استاد اپنا تن من دھن نچھاور کر دیتا ہے ۔استاد ایک ایسی ہستی ہے کہا جائے کہ اس کی مٹھی میں ایک طالب علم کی قسمت کی لکیریں ہوتی ہیں ۔قارئین مجھ میں وہ جسارت نہیں کہ ایسی ہستی کی بات کروں کہ جس کی مٹھی میں وحداھو لا شریک نے ہماری قسمت کے فیصلے رکھے ہوتے ہیں ۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ استاد ہی کائنات میں ایک ایسی ہستی ہے جس کی محفل میں بیٹھنا ایک ہزار دن کی محنت سے افضل ہے کیونکہ وہ ایک شمع کی مانند جل کر بچوں کو روشنی دیتا ہے ۔استاد ایک معمار اور استاد بیمار روحوں کا مسیحا اور خون جگر کا سوداگر ،بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اگر سبق کتاب ہے تو نظر استاد ہے ،اگر چاہت علم ہے تو طاقت استاد ہے ،اگر دل نور ہے تو دھڑکن استاد ہے۔ادب ایک درخت ہے تو علم اس کا پھل ہے۔استاد ہی ہے جو باپ کی طرح پیار کرتا ہے اور ماں کی طرح غلطیوں کو معاف کر دیتا ہے۔ وہ ایک شمع کی طرح جل کر اپنی شاگردوں میںعلم کی روشنی پھیلاتا ہے ۔جب ایک بچہ جنم لیتا ہے تو وہ صرف ایک آدمی کی شکل میں ہوتا ہے لیکن جب وہ استاد کے پاس آتا ہے تو وہ ایک انسان بن جاتا ہے ،وہ استاد ہی ہے جس نے ہمیں والدین کا رتبہ بتایا اور جہالت کی طرف بھٹکتے ہوئے اقدام کو جنبش دیکر نور کی طرف روانہ کیا ،اخلاق و اخلاس ،امن و محبت کا پیغام بھی اسی استاد نے دیا ۔عرفان ذات کا احساس،خدمت حلق کا جنون ،عمل پیہم،جہد مسلسل اور سعی ناتمام کے اوصاف سے مستفیض شخص جب شخصیت بن جائے تمام چہار سو چاندنی بکھیرتا ہے ۔فاتح عالم بننے کا خواب دیکھنے والے سکندر اعظم اپنے استاد آرستو کی حکمت و دانائی کے بغیر تاریخ میں نام پیدہ نہ کرسکتا،تاریخ ہند میں گپت خاندان کا سنہری دور نہ جانے کن الفاظ میں لکھا گیا ہوتا اگر چندر گپت کو چانکیہ جیسا استاد نہ ملتا اور جلال الدین کو اکبر اعظم بنانے والا دماغ بہرام خان جیسے اتاکیف کا تھا۔استاد وہ پُل ہے جو بچے اور اس کے مقصد کے مابین حائل ہے اور اس پل سے گزر کر ہی ایک بچہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے ۔انسان دنیا میں کبھی بھی تنہا وقت نہیں گزارتا وہ کئی رشتوں اور ناطوں کے ساتھ جڑا رہتا ہے ان میں سے کچھ رشتے اور تعلق خونی ہوتے ہیں جبکہ بہت سے رشتے اور تعلق روحانی،اخلاقی اور معاشراتی طور پر بنتے ہیں ان ہی میں سے ایک رشتہ استاد کا بھی ہے ۔استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ بھی حاصل ہے ۔اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے، کیونکہ دنیا میں والدین کے بعد اگر بچے کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ معلم یعنی استاد ہی ہے اور ایک استاد ہی ہے جو ہمیں دنیا میں رہناسہنا سکھاتا ہے اور کتابوں کا علم سمجھنے میں مدد دیتا ہے چنانچہ اس لحاظ سے استاد واجب الاحترام شخصیت ہے گویا استاد معلم یا مدرس کی تعریف اگر ان الفاظ میں کی جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ استاد لوہے کو تیار کر کے کندن بنا دیتا ہے تو پتھر کو تراش کر ہیرا بنا تا ہے اور بنجر زمین کو سینچ کر کھلیان بناتا ہے ۔استاد معمار بھی ہے اور کسان بھی ہے استاد واجب الاحترام اور لائق تعظیم ہے ۔استاد کا درجہ ماں باپ کے برابر قرار دیا گیا ہے ۔ایک زمانہ تھا کہ طالب علم حصول علم کی تلاش میں میلوں کا سفر پیدل کرتے تھے ،سالہا سال ملکوں ملکوں گھومتے تھے،گھر بار سے در کنار رہ کر اپنے من کو سیراب کرتے تھے ،اساتذہ کی مار کھاتے تھے،ڈانٹ بگھتے تھے ،سزا جھیلتے تھے تب کہیں جا کر نگینہ بنتے تھے۔ مگر اس دور کے طالب علم با ادب اور با تمیز ہوا کرتے تھے ،استاد کے قدموں میں بیٹھنا،استاد کی باتوں کو حاموشی سے سننا اور استاد کے سامنے چوں تک نہ کرنا کجا مزاق اڑانا تو دور کی بات مگر نظر اٹھا کر مقصد کی بات کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔وقت نے اپنی اڑان بھری تو انسان بھی ترقی کی کئی منزلیں طے کرتا چلا گیا اور اگر وقت بدلا تو تہذیب اور آداب کے انداز بھی ساتھ ساتھ بدلتے چلے گئے ۔چنانچہ یہ حقیقت ہے آج کے دور میں استاد بننا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔موجودہ دور میں اول تو کوئی استاد بنا پسند ہی نہیں کرتا اگر کوئی بد قسمتی سے بن جائے تو وہ اپنی عزت گنوا دیتا ہے کیونکہ موجودہ دور کا طالب علم استاد کو عزت دینے کا کاردورا نہیں ہے وہ ایک استاد کو ایک تنخواہ دار ملازم سمجھتا ہے جس کی عزت کرنا ضروری نہیں سمجھتا اور بچوں کی سوچ کے سب سے بڑے ذمہ دار خود والدین بھی ہیں جو بچپن میں بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ یہ ہمارا تنخواہ دار ملازم ہے اور انھیں اتنی عزت دی جائے کہ جتنی اوروں کو دی جائے ۔حقیقتاً موجودہ دور کا اتالیقی طریقہ کار اور اکیڈمک کلچر نے بھی استاد کی عزت کو بہت کم کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج علم بھی تقریبا ً ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے اور اتنے اسکول،کالج،مدرسے اور یونیورسٹیاں بن جانے کے با وجود معاشرے میں اخلاقیات،ادب ،آداب اورتہذیب نام کو چیز نہیں رہی ۔اسلام میں جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا ہے وہاں اسلام کی نظر میں استاد کو بھی معزز مقام حاصل ہے تا کہ اس کی عظمت سے علم کا وقار بڑھ سکے،استاد کی اہمیت علم کی بارش کی سی ہے جو زمیں بارش کو جزب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ بارش کے فیض سے سر سبز و شاداب ہو جاتی ہے ۔جب ہمارے رسولﷺ تعلیم دیتے تو صحابہ اکرام اس قدر خاموشی سے بیٹھتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور انہوں نے ذرا سی بھی حرکت کی تو وہ اڑ جائیں گے ۔دنیا میں علم کی قدر اسی وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں عزت کا مقام حاصل ہو۔جو طالب علم کا استاد کا ادب و احترام کرنا جانتے ہیں اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے استاد کا کہنا مانتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتے ہیں اور دنیا میں بھی وہی عزت و مقام حاصل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے اساتذہ کو عزت دی اس لئے کسی دانشمند نے کیا خوب کہا ہے کہ’با ادب با نصیب،بے ادب بد نصیب‘۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ والدین بچے کو جنم دیتے ہیں اور اساتذہ اس کو ایک زندگی جینا سکھاتے ہیں ۔بچہ ماںکی گود میں سے سیکھنا شروع کرتا ہے اور قبر کی گود تک سیکھنے میں مائل رہتا ہے لیکن اس سب میں مدرس کا ایک قلیدی رول ہوتا ہے کہ ایک آدمی سے ایک انسان بنانے میں استاد اپنا تن من دھن نچھاور کر دیتا ہے ۔استاد ایک ایسی ہستی ہے کہا جائے کہ اس کی مٹھی میں ایک طالب علم کی قسمت کی لکیریں ہوتی ہیں ۔قارئین مجھ میں وہ جسارت نہیں کہ ایسی ہستی کی بات کروں کہ جس کی مٹھی میں وحداھو لا شریک نے ہماری قسمت کے فیصلے رکھے ہوتے ہیں ۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ استاد ہی کائنات میں ایک ایسی ہستی ہے جس کی محفل میں بیٹھنا ایک ہزار دن کی محنت سے افضل ہے کیونکہ وہ ایک شمع کی مانند جل کر بچوں کو روشنی دیتا ہے ۔استاد ایک معمار اور استاد بیمار روحوں کا مسیحا اور خون جگر کا سوداگر ،بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اگر سبق کتاب ہے تو نظر استاد ہے ،اگر چاہت علم ہے تو طاقت استاد ہے ،اگر دل نور ہے تو دھڑکن استاد ہے۔ادب ایک درخت ہے تو علم اس کا پھل ہے۔استاد ہی ہے جو باپ کی طرح پیار کرتا ہے اور ماں کی طرح غلطیوں کو معاف کر دیتا ہے۔ وہ ایک شمع کی طرح جل کر اپنی شاگردوں میںعلم کی روشنی پھیلاتا ہے ۔جب ایک بچہ جنم لیتا ہے تو وہ صرف ایک آدمی کی شکل میں ہوتا ہے لیکن جب وہ استاد کے پاس آتا ہے تو وہ ایک انسان بن جاتا ہے ،وہ استاد ہی ہے جس نے ہمیں والدین کا رتبہ بتایا اور جہالت کی طرف بھٹکتے ہوئے اقدام کو جنبش دیکر نور کی طرف روانہ کیا ،اخلاق و اخلاس ،امن و محبت کا پیغام بھی اسی استاد نے دیا ۔عرفان ذات کا احساس،خدمت حلق کا جنون ،عمل پیہم،جہد مسلسل اور سعی ناتمام کے اوصاف سے مستفیض شخص جب شخصیت بن جائے تمام چہار سو چاندنی بکھیرتا ہے ۔فاتح عالم بننے کا خواب دیکھنے والے سکندر اعظم اپنے استاد آرستو کی حکمت و دانائی کے بغیر تاریخ میں نام پیدہ نہ کرسکتا،تاریخ ہند میں گپت خاندان کا سنہری دور نہ جانے کن الفاظ میں لکھا گیا ہوتا اگر چندر گپت کو چانکیہ جیسا استاد نہ ملتا اور جلال الدین کو اکبر اعظم بنانے والا دماغ بہرام خان جیسے اتاکیف کا تھا۔استاد وہ پُل ہے جو بچے اور اس کے مقصد کے مابین حائل ہے اور اس پل سے گزر کر ہی ایک بچہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے ۔انسان دنیا میں کبھی بھی تنہا وقت نہیں گزارتا وہ کئی رشتوں اور ناطوں کے ساتھ جڑا رہتا ہے ان میں سے کچھ رشتے اور تعلق خونی ہوتے ہیں جبکہ بہت سے رشتے اور تعلق روحانی،اخلاقی اور معاشراتی طور پر بنتے ہیں ان ہی میں سے ایک رشتہ استاد کا بھی ہے ۔استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ بھی حاصل ہے ۔اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے، کیونکہ دنیا میں والدین کے بعد اگر بچے کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ معلم یعنی استاد ہی ہے اور ایک استاد ہی ہے جو ہمیں دنیا میں رہناسہنا سکھاتا ہے اور کتابوں کا علم سمجھنے میں مدد دیتا ہے چنانچہ اس لحاظ سے استاد واجب الاحترام شخصیت ہے گویا استاد معلم یا مدرس کی تعریف اگر ان الفاظ میں کی جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ استاد لوہے کو تیار کر کے کندن بنا دیتا ہے تو پتھر کو تراش کر ہیرا بنا تا ہے اور بنجر زمین کو سینچ کر کھلیان بناتا ہے ۔استاد معمار بھی ہے اور کسان بھی ہے استاد واجب الاحترام اور لائق تعظیم ہے ۔استاد کا درجہ ماں باپ کے برابر قرار دیا گیا ہے ۔ایک زمانہ تھا کہ طالب علم حصول علم کی تلاش میں میلوں کا سفر پیدل کرتے تھے ،سالہا سال ملکوں ملکوں گھومتے تھے،گھر بار سے در کنار رہ کر اپنے من کو سیراب کرتے تھے ،اساتذہ کی مار کھاتے تھے،ڈانٹ بگھتے تھے ،سزا جھیلتے تھے تب کہیں جا کر نگینہ بنتے تھے۔ مگر اس دور کے طالب علم با ادب اور با تمیز ہوا کرتے تھے ،استاد کے قدموں میں بیٹھنا،استاد کی باتوں کو حاموشی سے سننا اور استاد کے سامنے چوں تک نہ کرنا کجا مزاق اڑانا تو دور کی بات مگر نظر اٹھا کر مقصد کی بات کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔وقت نے اپنی اڑان بھری تو انسان بھی ترقی کی کئی منزلیں طے کرتا چلا گیا اور اگر وقت بدلا تو تہذیب اور آداب کے انداز بھی ساتھ ساتھ بدلتے چلے گئے ۔چنانچہ یہ حقیقت ہے آج کے دور میں استاد بننا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔موجودہ دور میں اول تو کوئی استاد بنا پسند ہی نہیں کرتا اگر کوئی بد قسمتی سے بن جائے تو وہ اپنی عزت گنوا دیتا ہے کیونکہ موجودہ دور کا طالب علم استاد کو عزت دینے کا کاردورا نہیں ہے وہ ایک استاد کو ایک تنخواہ دار ملازم سمجھتا ہے جس کی عزت کرنا ضروری نہیں سمجھتا اور بچوں کی سوچ کے سب سے بڑے ذمہ دار خود والدین بھی ہیں جو بچپن میں بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ یہ ہمارا تنخواہ دار ملازم ہے اور انھیں اتنی عزت دی جائے کہ جتنی اوروں کو دی جائے ۔حقیقتاً موجودہ دور کا اتالیقی طریقہ کار اور اکیڈمک کلچر نے بھی استاد کی عزت کو بہت کم کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج علم بھی تقریبا ً ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے اور اتنے اسکول،کالج،مدرسے اور یونیورسٹیاں بن جانے کے با وجود معاشرے میں اخلاقیات،ادب ،آداب اورتہذیب نام کو چیز نہیں رہی ۔اسلام میں جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا ہے وہاں اسلام کی نظر میں استاد کو بھی معزز مقام حاصل ہے تا کہ اس کی عظمت سے علم کا وقار بڑھ سکے،استاد کی اہمیت علم کی بارش کی سی ہے جو زمیں بارش کو جزب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ بارش کے فیض سے سر سبز و شاداب ہو جاتی ہے ۔جب ہمارے رسولﷺ تعلیم دیتے تو صحابہ اکرام اس قدر خاموشی سے بیٹھتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور انہوں نے ذرا سی بھی حرکت کی تو وہ اڑ جائیں گے ۔دنیا میں علم کی قدر اسی وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں عزت کا مقام حاصل ہو۔جو طالب علم کا استاد کا ادب و احترام کرنا جانتے ہیں اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے استاد کا کہنا مانتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتے ہیں اور دنیا میں بھی وہی عزت و مقام حاصل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے اساتذہ کو عزت دی اس لئے کسی دانشمند نے کیا خوب کہا ہے کہ’با ادب با نصیب،بے ادب بد نصیب‘۔