مضحکہ خیز نیوکلیائی عزائم

0
0

دنیا میں یکا و تنہا پاکستان چینی کالونی میں تبدیل
یواین آئی

نئی دہلی؍؍دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے آلے کے طور پر استعمال کرنے والے گمراہ ملک پاکستان کو برداشت کرتی چلی آئی دنیا نے اس وقت منھ لگانا بند کردیا جب اس بے ہنگم نیوکلیائی ملک کے سیاسی رہنماوں نے مضحکہ خیز دعوے کرنا شروع کر دیا۔اسی سال 19اگست کوپاکستان کے وفاقی وزیر شیخ رشید نے ایک ملکی نیوز چینل کو ایک انٹرویو میں ہندستان کے ساتھ نیوکلیائی محاذ آرائی کا معاملہ اٹھایا اور یہ کہہ دیا کہ’’پاکستان کے پاس بہت سارے چھوٹے اور بڑے ایسے سمت بند ہتھیار ہیں کہ وہ مسلم زندگیوں کو بچائیں گے اور صرف ہندو آبادی کے مراکز کو نشانہ بنائیں گے‘‘۔جہاں تک نیوکلیائی ہتھیاروں سے ہونے والی ہلاکتوں اور تباہیوں کا تعلق ہے تو یہ نقصان مذہبی پہچان کے ساتھ نہیں ہو سکتی اورایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات نیوکلیائی ہتھیاروں سے لیس کسی ذمہ دار ملک کے سیاسی رہنما شاید ہی کبھی دیتے ہوں۔ لیکن بر صغیر کی سیاست کے ماہرین کے مطابق یہ پاکستانی سیاسی قیادت کے لئے بالکل معمول کی باتیں ہیں اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب پاکستان نے ہندستان کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دی ہو، 2019میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نیازی نے متعدد مواقع پر ہندستان کے ساتھ نیوکلیائی جنگ کے بارے میں عوامی تقریر یں کیں۔نیویارک ٹائمزکے 30اگست 2019کے شمارے کے ادارتی صفحے پرپاکستانی وزیر اعظم نے لکھا ہے کہ’’اگر کشمیر اور وہاں کے لوگوں پر ہندستانی حملہ کو دنیا نے نہیں روکا تو پوری دنیا کو اس کے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ دو نیوکلیائی طور پر مسلح ممالک براہ راست فوجی تصادم کے قریب پہنچ جائیں گے‘‘ ۔ پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ بین الاقوامی مجالس میں کشمیر کے مسئلے کو اٹھانے سے تو نہیں تھکی لیکن اقوام عالم کو اب تھکان محسوس ہونے لگی ہے ۔ماہرین کے مطابق کچھ ایسی میڈیا اطلاعات بھی ہیں جو وادی گلوان میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی فوج (سی سی پی آرمی) کے ساتھ ہندستانیوں فوجیوں کے حالیہ تصادم کی کڑی پاکستانی چالوں اور منصوبہ بندیوں سے جوڑتی ہیں۔ ان اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ’’امریکی انٹلیجنس کی ایک رپورٹ کے مطابق لداخ کی گلوان وادی میں 15جون کے تصادم سے پہلے ، ہندوستان کی فوج کی پوزیشنوں اور نقل و حرکت کے بارے میں پاکستان کی بدولت سی سی پی کو بہت بہتر اندازہ تھا‘‘۔حالیہ کورونا زدہ حالات میں ایک طرف جہاں سی سی پی اور پاکستانی فوجی کے مابین مضبوطی بڑھی ہے وہیں اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے جولائی 2020 میں ہندوستان کے ساتھ اپنی سرحد کے قریب اپنے غیر قانونی قبضے والے خطے میں بیس ہزار اضافی فوجیوں کو منتقل کیا ہے ۔غالب امکان ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں برسر اقتدار رہنے والوں کے کانوں تک جارج سنتایانہ کے یہ مشہور الفاظ نہیں پہنچے کہ’’جو لوگ تاریخ کو بھول جاتے ہیں وہ اسے دہرانے کی بدبختی سے باز نہیں آتے‘‘۔ پاکستانی خاکی وردی والوں نے علامہ اقبال کے یہ الفاظ تو یاد رکھے کہ”کوئی بھی کمیونٹی اپنی تاریخ سے روشنی حاصل کرتی ہے ۔ اپنی تاریخ کو یاد کر کے وہ خود سے آگاہ ہوتی ہے لیکن تاریخ بہر حال اسٹریٹجک پاکستانی منصوبہ ساز وں کویہ بتاتی ہے کہ راولپنڈی کو کبھی بھی کشمیر میں مداخلت کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ، پاکستان نے جب جب ایسا کیا ہے ، جنگ ہارا ہے اور اسے اپنے لئے تباہ کن نتائج کا سامنا رہا۔ مزید برآں ہندستان کے ساتھ اس کی تمام جنگوں میں چینی کمونسٹ پارٹی نے کبھی بھی پاکستانی غلط کارروائیوں کی کھل کر یا پوشیدہ طور پر حمایت نہیں کی۔بیجنگ میں 21 اگست 2020کو دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں جاری کردہ حالیہ مشترکہ بیان میں بھی پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ "مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر بات چیت کے ذریعے خطے میں تنازعات اور مسائل کو حل کریں”۔کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے اسٹریٹجک پارٹنر – سی سی پی کے اس مشترکہ بیان سے زیادہ واضح اور اشارہ نہیں ہوسکتا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے حالیہ اقدامات کی وجہ سے اس کے عرب دوستوں نے بھی اس کے نفرت اور دہشت بھرے بیانیہ سے دور ی اختیار کر لی ہے ۔ پاکستان لیکن اس کے ادراک سے قاصر ہے ۔فلسطینیوں کی حالت زار پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نیازی نے کہا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی قبول نہیں کرے گا اور متحدہ عرب امارات سمیت اُن عرب ممالک کی پیروی نہیں کرے گا جنہوں نے حال ہی میں اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور یہودیوں کے ملک کے ساتھ امن معاہدہ قبول کیا ہے ۔اتفاق سے تقریباً اسی موقع پر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے واقعات نے پاکستانی وزیر اعظم کو اس وقت شرمندہ کر دیا جب وہاں کے ایک نامور سیاستدان نے پاک مقبوضہ کشمیر سے پاک فوج کے فوجی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ماہرین کے مطابق کشمیر کو عملی طور پر دیکھتے ہوئے ، کٹھ پتلی وزیر اعظم عمران نیازی کے لئے یہ یاد رکھنا ضروری ہوگا کہ حالیہ دنوں میں جن چار اسلامی ممالک نے کشمیر کے مسئلہ پر (جو مسئلہ ہے ہی نہیں)بات کی ہے ، ان میں سے کسی ایک کا بھی دنیا پر کوئی اثر رسوخ نہیں ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور نفرت کے اپنے بیانیہ کو آگے بڑھانے کے لئے سیاسی و مذہبی تنظیموں کا استعمال اسلام آباد کا ایک ہتھکنڈہ ہے ۔ زیادہ تر ملکوںمیں ، چرچ اور ریاست الگ الگ ادارے ہیں۔ ‘پاک سرزمین’’پر بہر حال ایسا ہی نہیں ہے ۔ اپنی 2020 کی رپورٹ میں ، امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے کہا کہ پاکستان اپنے یہاں اقلیتوں کا مناسب طور پر تحفظ کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ تحفظ کے محرومین میں اکثریت والے مذہب اسلام کے مختلف فرقوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس لحاظ سے مذہبی آزادی پاکستان میں اقلیتوں کے لئے ایک دھوکہ ہے ۔ پاکستان 22 کروڑ کی آبادی والا ملک ہے جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ ہندو آبادی کوئی 1.6فیصد ہے ۔1.59 فیصد عیسائی ہیں۔غیر اکثریتی مسلم فرقہ سمیت اقلیتی فرقوں کے اراکین کو نشانہ بناکر جرائم عام ہیں۔جن میں عیسائیوں ، شیعہ مسلمانوں ، احمدیہ مسلمانوں اور دیگر پر نشانہ بند حملے کئے جاتے ہیں۔ اس میں ملک کے توہین مذہب کے سخت قوانین کی غیر متناسب استعمال بھی شامل ہے ، جس میں سزائے موت ہوسکتی ہے اور انہیں بے گناہ اقلیتوں کے قتل کے لئے آزادانہ طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس طرح دیکھا جائے تو پاکستان ایک بار پھر دنیا میں الگ تھلگ کھڑا ہے ۔ مغرب اس کے نفرت اور دہشت کے بیانیہ کو سننے کا روادار نہیں اور اس کے عرب بھائیوں نے دھکیل کر اسے خاموش کر دیا ہے ۔ کامیابی کی امید کے بغیر کوشاں اور وفاقی وزیر شیخ رشید جیسے غیر ذمہ دار سیاسی ساتھیوں سے گھرے وزیر اعظم عمران خان چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرف بے بسی سے دیکھ رہے ہیں ۔ دوسری طرف سی سی پی نے بھی آہستہ آہستہ ، لیکن لامحالہ ، پاکستان کو چین کی کالونی کی شکل دے دی ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا