’’جذبہ محبت کل اور آج‘‘

0
0

تبسّم منظور ناڑکر تبسّم منظور ناڑکر 

موربہ (مانگاوں ) مقیم،ممبئی9870971871
محبت کیا ہے؟  محبت پھول کی خوشبو کی طرح ہے،  سیپ میں چھپے موتی کی طرح ہے، محبت ایک جذبہء لافانی ہے محبت تو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی ۔محبت اگر صرف "حاصل کرنے” کا ہی نام ہوتی تو ہم جو تاریخ میں آج تک پڑھتے آئے ہیں کیا وہ سب غلط تھا؟  شیرین فرہاد کی کہانی، ہیر رانجھا کے افسانے، لیلیٰ مجنوں کے قصّے، کیا انھوں نے ایک دوسرے کو حاصل کیا تھا؟ محبت صرف پانے یا حاصل کرنے کا ہی نہیں بلکہ کھونے اور قربانیاں دینے کو بھی محبت کہتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی خوشی اور عزت کے لئے قربان ہونا بھی محبت کہلاتی ہے ۔جس میں اکثر اپنی خواہشات اور جذبات کو صرف اس لئے قربان کر دیا جاتا ہے کہ رشتوں کا تقدس اور احترام بنا رہے ۔    آج کے اس نئے دور نے تو محبت کے معنی ہی بدل دیئے ہیں ۔اس پر اس شوشل میڈیا کے آنے سے تو محبت کو کپڑوں کی طرح بدلا جاتا ہے ۔پہلے لڑکی کو شرم و حیا کا پیکر سمجھا جاتا تھا ۔ آج لڑکا اور لڑکی سرعام گھومتے پھرتے ہیں، کھلے عام بےحیائی سے ایک دوسرے کو پروپوز کرتے ہیں، ایک دوسرے کے گلے لگتے ہیں ۔اور یہ سب شہروں میں ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی بہت زیادہ عام ہو رہا ہے ۔آئے دن ہمارے سننے میں آتا ہے کہ فلاں لڑکی فلاں لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ۔کسی کو بھی کسی کی پرواہ ہے نا لحاظ ۔      جب ایک لڑکی گھر سے بھاگ جاتی ہے تو کیا اس کو احساس بھی ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے اس کے گھر والوں کا کیا حال ہوا ہوگا۔ کیا بیتی ہوگی اس کے گھر والوں پر،  کسی لڑکی کے بھاگنے کی خبر جب محلے  میں پھیل جاتی ہے تو کئی طرح کی باتیں ہوتی ہیں ۔اور باتیں ہی نہیں بلکہ لوگ مزہ لینے کے لئے اس گھر کے چکر کاٹتے ہیں جہاں سے لڑکی بھا گی ہو۔ اس وقت بھائی بہنوں کا، ماں باپ کا گھر سے نکلنا محال ہو جاتا ہے ۔رشتے دار منہ پھیر لیتے ہیں ۔کئی تو زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے بھی آتے ہیں ۔ والدین بیچارے بیٹی کے غم میں نڈھال،  دوسری جانب لوگوں کی چبھتی ہوئی باتوں سے روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں ۔          حیرت ہوتی ہے ایسی لڑکیوں پر جو کسی غیر شخص اور چار دن کی محبت کے لئے اپنے والدین کی عزت داغ دارکرتی ہیں انکی دل آزاری کرتی ہیں ۔ایسی بھاگ جانے والی لڑکیاں ذرا سوچیں ان کے بھاگ جانے کے بعد ان کے والدین کا کیا ہوا ہوگا ۔لوگوں نے کتنے طعنے دیئے ہونگے ۔کیا والدین نے اسی دن کے لئے اولاد کو جنم دیا تھا؟  ان کی پرورش کی، اپنی اوقات سے زیادہ اچھے سے اچھا پہنایا، اچھی تعلیم دلوائی ، انھیں اپنے پیروں پر کھڑا کیا ۔جب تک یہ لڑکیاں اسکول کالج جاتی ہیں تب مائیں  خود گھر کا کام کرتی ہیں اور خوش ہوتی ہے کہ بیٹی پڑھائی کرنے گئی ہے ۔لیکن بیچاری ماں یہ نہیں جانتی کہ ان کی بیٹی کسی ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے عاشق کے ساتھ کافی پی رہی ہوگی یا کلاس چھوڑ کر پارک میں گھوم رہی ہوگی ۔کیا اسی دن کے لئے اولاد مانگی جاتی ہے ؟         اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی سے سچی محبت کرتا ہے تو وہ اس لڑکی کو بھگا کر نہیں بلکہ دونوں کے والدین کی رضامندی سے نکاح کر کے لے جائے گا ۔ یہاں پر میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ والدین کو بھی اپنے بچوں کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا چاہیے ۔بچوں کے جذبات بھی سمجھنے چاہیئے ۔بے شک ہر عاقل اور بالغ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کا اظہار کرے ۔اس طرح بھاگ کر کی گئی شادیوں میں کبھی کبھی لڑکیوں کو در در کی ٹھوکریں بھی کھانی پڑتی ہیں ۔یا تو کبھی گھر والے نہیں اپناتے یا مرد حضرات محبت کے ڈرامے سے جاگ جاتے ہیں ۔پھر آئے دن بات بات پر بحث لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ۔محبت کا بھوت جو سر پر سوار ہوتا ہے وہ آہستہ آہستہ اترنے لگتا ہے ۔ایسی لڑکیاں خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لیتی ہیں ۔       والدین اپنے بچوں کا کبھی بھی برا نہیں چاہتے ۔ہاں !  والدین سے بھی کبھی کبھار غلط فیصلے ہوجاتے ہیں ۔کبھی کبھی والدین بھی کسی کے بہکاوے میں آکر بچوں کے حق میں غلط فیصلہ کر لیتے ہیں ۔والدین کو اپنے بچوں کی باتوں کو سمجھنا چاہئے ۔اس کے علاوہ مختلف وجوہات ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ۔اسلامی تعلیم کے مقابلے میں مغربی تعلیم کو اولیت دی جاتی ہے ۔ ہاں! یہ ضروری بھی ہے کہ اس مقابلے کے دور میں مغربی تعلیم کا ہونا بھی ضروری ہے ۔لیکن بچوں میں اخلاقی تعلیم کے لئے،  صحیح غلط کو سمجھنے کے لئے، حلال اور حرام کی تمیز کے لئے مغربی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم بھی بچوں کو دینا بے حد ضروری ہے ۔        لڑکے اور لڑکیوں کی ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ اتنا گھل مل جاتے ہیں کہ اپنی تمیز ہی کھو بیٹھتے ہیں ۔ہنسی مذاق،  دوستی حد سے زیادہ ہو جاتی ہے ۔ کبھی کبھی بچے اپنی حدیں بھی پار کر لیتے ہیں ۔ٹی وی پر پر گھریلو پروگرام کے نام پر کتنی برائی اور بے حیائی پھیلائی جارہی ہے ۔مرد اور عورت کی ایک سے زیادہ شادیاں،  شادی شدہ ہونے کے باوجود کسی اور سے پیار وغیرہ، ان برائیوں کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے کوئی برائی ہی نہ ہو ۔         کبھی کبھی والدین شادی کے لئے راضی نہیں ہوتے ایسے میں لڑکے اور لڑکی کے دوست بھاگ کر شادی کرنے کے پورے انتظامات کر دیتے ہیں۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہی دوست لڑکی اور لڑکے کے والدین کے بیچ سفارشی کردار ادا کرتے، جس کی وجہ سے بھاگ کر شادی کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔     والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی مصروف زندگی میں سے بچوں کو وقت دینا چاہیے ۔بچوں کی پسند اور ناپسند جاننا چاہئے ۔بچوں کے دوستوں کے بارے میں معلومات رکھنی چاہئے ۔اپنے بچوں میں ماں اپنی بیٹی کے ساتھ اور باپ اپنے بیٹے کے ساتھ دوستی پیار اور محبت سے پیش آنا چاہئے ۔ تو بچے اپنے دل کی ساری باتیں اپنے والدین کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں ۔کئی بار ماں باپ کے غصے کی وجہ سے بچے کھل کر اپنے ماں باپ سے بات نہیں کر پاتے ہیں اور ڈرتے ہیں پھر وہ دوسرے لوگوں میں اپنے دوست اور ہمدرد تلاش کرتے ہیں ۔     اس دور جدید میں والدین کو بھی اور بچوں کو بھی ایک دوسرے کی دلی کیفیات کا خیال رکھنا چاہئے ۔کبھی والدین کی ضد کی وجہ سے بچے غلط فیصلے کر لیتے ہیں ۔بچے اور والدین اپنی اپنی ضد پر نہ رہتے ہوئے ایک دوسرے کو سمجھ کر فیصلے کریں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا