۰۰۰
فوزیہ رباب
گوا، الہند
9175521025
۰۰۰
۰۰۰۰
بہت معمولی لڑکی ہوں
نہیں ہے فلسفہ مجھ میں
لہذا اے مرے سائیں
مجھے اب تم نہ سمجھاؤ
محبت کیسے ہوتی ہے
کبھی جذبات کی رو میں
بہک کر تم جو کہتے ہو
مجھے تم سے محبت ہے
اور اپنی اس محبت کی
کبھی شدت جتانے کو
کبھی نمناک لہجے میں
کوئی وعدہ کوئی جملہ
مجھے اکثر سناتے ہو
تو پھر نہ چاہ کر بھی میں
اسے محسوس کرتی ہوں
کبھی تم اس محبت کو
حسیں لفظوں کے سانچے میں
شرارت اور محبت سے
بڑے بیباک لہجے میں
کوئی گستاخ سا جملہ
مجھے اکثر سناتے ہو
تو پھر بے ساختہ جانے
مرا دل کیوں دھڑکتا ہے
ہاں اکثر یہ بھی ہوتا ہے
کہ تم اپنی محبت سے
بہت مغلوب ہوتے ہو
تمہاری سانس کی شدت
اور ان الفاظ کی حدت
میں اپنی روح تک محسوس کرتی ہوں
کبھی تم چاہتے ہو کہ
مجھے بانہوں میں تم بھر لو
تم اپنی نیم باز آنکھوں سے
پھر مخمور لہجے میں
کسی خواہش کی شدت میں
قریب اپنے بلاتے ہو
لبوں کی تشنگی میں پھر
مجھے محسوس ہوتا ہے
کوئی جذبہ
کہ جیسے ایک صحرا میں
کھڑی ہوں میں
بہت تنہا
مگر یہ ساری باتیں تو
فقط باتیں ہیں اے ہمدم
مجھے ایسی محبت کی
نہ پہلے کوئی چاہت تھی
نہ اب ہی ہے
مجھے تم صرف عزت دو
وہ عزت جس کو پاکر میں
کبھی محسوس کر پاؤں
کہ بے حد قیمتی ہوں میں
جسے چھونے کی اس دل میں
کبھی کوئی نہ حسرت ہو
جسے تم یہ بتا پاؤ
کہ تم اک شاہزادی ہو
بہت ہی قیمتی انمول پاکیزہ
کہ جیسے پھول کی اک پنکھڑی پر ہو رکھا شبنم کا اک قطرہ
مرے احساس کو تم بھی
یوں ہی محسوس کر پاؤ
مری آنکھوں کے نم ہونے سے پہلے ہی
تمہارا دل تڑپ اٹھے
بہت نازک ہے میرا دل
مجھے حسرت نہیں ایسی محبت کی
جسے ہر آن ہر اک پل
مجھے آکر جتاتے ہو
مجھے عزت دو اے سائیں
فقط عزت، بہت عزت
۰۰۰۰